عصر حاضر میں نظام سقہّ

نظام سقّہ کے ایک دن کی بادشاہت کا قصہ بھی مودی جی کے چار سال سے کم دلچسپ نہیں ہے ۔ مغل بادشاہ ِ ثانی نصرک الدین محمد ہمایوں جب شرر شاہ سوری سے شکست کھاکردہلی واپس آ رہا تھا توراستے مںم دریا پڑا۔بابر نے اپنے بیٹے کو تلوار چلانے کے فن سے تو آراستہ کیا مگر ترینا نہیںسکھایا ۔ اب مسئلہ یہ تھا دریا کو کیسے پارکیا جائے ؟ ایسے میں اس نے دیکھا کہ کنارے پر ایک سقّہ اپنے مشکزکے مں پانی بھر رہا ہے۔ ہمایوں نے اس سے مدد طلب کی تو اس نے بغیر جانے کہ وہ کون ہے بادشاہ کو دریاپار پہنچا دیا ۔ اس بے لوث خدمت سے ہمایوں بے حد متاثر ہوا اور جب اس کو دوبارہ اقتدار نصب ہوا تو اس نے سقّہ کو اپنے دربار مںی بلواکر ایک دن کی بادشاہت عنایت کردی تھی۔ ہمایوں اگر جمہوری سیاسی رہنماوں کی مانندااحسان فراموش ہوتا تو نظام سقہ کو اسی طرح بھول جاتا جیسے مودی جی نے اپنے کرم فرما اڈوانی جی بھلادیا ہے ۔ گجرات فساد کے بعد جب اٹل جی نے مودی کی نیاّ ڈبونے کا فیصلہ کرلیا تھا تو اڈوانی جی نے ہی اسے پار لگایا تھا ۔

مودی جی خود تو احسانمند نہیں ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ عام لوگ احسان فراموش نہیں ہوتے۔ انہیں پتہ ہے کہ نظام سقہ کے ایک دن کی بادشاہت کو دہلی کےبہشتی آج بھی نہیں بھولے اور وہ اُس کییاد مںپ جامع مسجد کی سڑ ھیوں اور ہمایوں کے مزار پر چاندی کے کٹوروں مںن لوگوں کو پانی پلاتے ہںب۔ اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی میں صفائی مزدوروں کے مودی جی سےپیر دھلانے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ وہ سارے سرمایہ دار مطلب کے یار ہیںجن کی انہوں نے اپنی مدت کار میں چوکیداری کی ہے ۔ اول تو وہ لوگ رائے دہندگی کے دن ووٹ دینے کی زحمت نہیں اٹھائیں گے دوسرے اقتدار کے چھنتے ہی اپنی وفاداری بدل دیں گے لیکن یہ غریب کئی پشتوں تک اس عزت افزائی کو یاد رکھے گا اور انہیں اپنے قیمتی ووٹ سے نواز کرپھر سے اقتدار پر فائز کردے گا لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ نہ تو بےغرض خدمت کی جاتی ہے اور نہ بےلوث احسانمندی جاوئی جاتی ہے ۔ اس لیے ضروری نہیں ہےکہ مودی جی کی یہ بناوٹی سیوا اصلی ووٹ میں تبدیل ہوجائے ۔

نظام سقہ کا بادشاہ بننے کے بعد سونے کی اشرفی کے عوض چمڑے کا سکہ چلا نا بہت مشہور ہے لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ اس نے یہ اقدام کیوں کیا تھا ؟ یہ اسی طرح کی بات ہے کہ ساری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے مودی جی ایک ہزار کے نوٹ کو اچانک متروک قرار دے دیئے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کے پس پردہ محرکات کیاتھے ؟ سادہ ذہن لوگوں کا خیال ہے کہ مودی ہندوستانی معیشت کو کالے دھن سے پاک کرکے نظام سقّہ کی مانند تاریخ کی کتابوں میں اپنا نام رقم کرنا چاہتے تھے سو تو ہوگیا لیکن کیا واقعی وہ مقاصد حاصل ہوگئے کہ جن کا دعویٰ کیا گیا تھا ؟ کیا کالادھن ختم ہوگیا؟ دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا؟ نقدی کا چلن کم ہوگیا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہی حقیقی مقاصد تھےیااس مشق کے پس پشت کوئی اورغرض و غایت کارفرما تھی؟ ان سوالات کا جواب نظام سقہ کے قصے میں پوشیدہ ہے۔

نظام سقّہ کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ ہوا تو ایک رات قبل اس نے سوچا کہ اس مختصر سی مہلت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نے کے لیے کاہ کیا جائے؟ نظام کو یہ ترکیب سجھائی دی کہ اگر چمڑے کا سکّہ رائج ہو جائے تو قلیل وقت میں خطیر رقم جمع ہوسکتی ہے۔ اس نے رات بھر اپنے واحد سرمایۂ حیات چمڑے کے مشکیزے سے اشرفی کے برابر سکّے بنائے۔صبح بادشاہی کے شروع ہوتے ہی شاہی فرمان جاری کردیا کہ آج کے دن چمڑے کا یہ سکّہ سونے کی اشرفی کے مساوی ہے یعنی یکلخت طلائی اشرفیوں کو بے قیمت کردیا گیا۔ یہ تو ایک دھند تھی اس کی آڑ میں نظام سقہ نے درباری ملازمین کے ذریعہ اپنے چمڑے کے سکّوں کو سرکاری خزانے میں جمع کرکے طلائی اشرفی سے بدل دیا ۔ کچھ یاد آیا امیت شاہ نوٹ بندی کے دوران کیا کررہے تھے ؟ ان کے کوآپریٹیو بنکوں میں کروڈوں روپئے کہاں سے اور کیوں جمع ہورہے تھے؟ امیت شاہ نے اس دوران اپنا سارا کالا دھن سفید کرلیا ۔ بنکوں میں سارے نوٹ لوٹ آئے ۔ نظام سقہ کی طرح وہ بھی ایک دن میں دنیا کی امیر ترین پارٹٰی کے صدر بن گئے۔ زمانہ بدل گیا مگر نہ انسان بدلا اور اس کے کرتوت بدلے ۔

انتخاب کے اس ماحول میں عجیب افراتفری کا ماحول ہے ۔ ہر روز کئی لوگ کانگریس یا بی جے پی سے نکل کر مختلف جماعتوں میں جاتے ہیں اور ان سے نکل ان دونوں قومی جماعتوں میں آجاتے ہیں ۔ ایسے غداروں کا کھلے دل سے استقبال کیا جاتا ہے۔ کانگریس سے بی جے پی جانے والوں میں جہاں ایک نام مہاراشٹر کانگریس کے صدر رادھا کرشن وکھے پاٹل کے بیٹے سجئے کا ہے تو وہیں اتراکھنڈ کے سابق بی جے پی وزیراعلیٰ بھون چندر کھنڈوری کے بیٹے منیش نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اس طرح کی بے شمار خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے مخالفین کے ووٹ پر شب خون مارنے کی کوشش کی جاتی یعنی رائے دہندگان کو بھگا کر اپنے خیمہ میں لایا جاتا ہے۔عصرِ جدید میں تو خیر یہ جائز اور مستحب شئے ہے کیونکہ اب تو ازدواجی رشتوں کا تقدس بھی پامال ہونے لگا ہے لیکن پہلے زمانے میں ایسی بات نہیں تھی ۔

ایک روزہ حکومت میں نظا م سقہ کے سامنے اسی طرح کا ایک قضیہ آیا ۔ چمڑہ رنگنے والے ایک دباغ نے شاہی دربار میں آکر شکایت کی کہ کسی سوداگر نے اس کی بیوی کا اغواء کرکے اسے اپنے گھر بٹھا لیا ہے۔ اس نے اپنی بیوی کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ نظامسقہنےسوداگراوربقولدباغ اسکیاغواشدہبیویکو دربار میں پیشکرنے کافرمان جاری کیا جس کی تعمیل ہوئی۔اس نے اگلا حکم دیا کہ مذکورہ عورت کورات میں دباغ کے گھر بھیج کر اس کی خفیہ نگرانی کی جائےنیز اگلی صبح دربار میں حاضر کیاجائے۔اگلےدنجب مدعی اور مدعا الیہ کوعورت سمیت دربار میں پیش کیا گیاتو حکومت بدل چکی تھی ۔ ہمایوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ آخر نظام نے اس عورت کو بلا شکایت راتمیں دباغ کےگھررکھنےکا حکم کیوں دیا تھا؟ اس قضیہ کو چکانے کے لیے نظامسقہکو بلایا گیا تو اس نے عرض کیا کہ میری مدت بادشاہت ختم ہو چکی اب میں کس حیثیت سے مقدمہ کا فیصلہ کرسکتا ہوں؟ یہ سن کر ہمایوں نے اپنے سر سے تاج اتار کر اس کے سر پر رکھا اور دوبارہ تخت پر بٹھا دیا ۔

نظام سقہ نے نگرانی پر مامورخاتون کو طلب کرکے پوچھا کیا یہ عورت رات بھر سوئی رہی۔نگرانی کرنے والی نے جواب دیا کہ بادشاہ حضور یہ رات بھر بلا کروٹ بدلے آرام سے سوتی رہی ہے۔ نظام نے حکم دیا کہ یہ اس دباغ کی بیوی کو اس کے حوالے کر دیا جائےاورسوداگرکےخلافاغواکامقدمہدرجکرکےعدالت میں پیش کیا جائے ۔ہمایوںسمیتتمامدرباری اس فیصلے پرحیرت زدہ ہوگئے ۔آخر ہمایوں نے نظام سقہ سے فیصلہ کی وضاحت چاہی کہ جب عورت خود اپنے آپ کو سوداگر کی بیوی بتارہی ہےتوآپ نے کس بنیاد پر اسے دباغ کے حوالے کر دیا ۔نظام سقہ نے جواب دیا کہ چمڑا رنگنے والے کے گھر میں اس قدر بدبو ہوتی ہے کہ سونا تو دور اس کے پاس سے بھی گزرتے ہوئے لوگ ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں ۔ایسے میں اس گھر کے اندر وہی سوسکتا ہےجو وہاں رہنے کا عادی ہو۔ نظام سقہ کی حکمت کوآج کل کے سیاسی ماحول میں دیکھا جائے تو ہر سیاسی جماعت کے اندر ابن الوقتی اور موقع پرستی کی بدبو یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس لیے ہرکوئی بڑی آسانی سے پالہ بدل کر لوگ ایک سیاسی جماعت دوسری میں چلے جاتے ہیں اور انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگرعصر حاضر میں کسی کو ایک دن کی بادشاہت مل جائے تو کیا وہ نظام سقہ کی طرح اس قدر آسانی سےاگلے دن دستبردار ہوجائے گا؟ شاید نہیں ۔

زمانہ بدلتا ہے لیکن انسان نہیں بدلتا اس لیے لوگ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے ۔ جس طرح عصر حاضر میں ایک چائے بیچنے والا جمہوریت کے طفیل اقتدار کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوگیا ہےاسی طرح مغلیہ دور میں بھی ایک پانی بھرنے والے نظام سقہ ّ کو بادشاہ بننے کا موقع نصیب ہوا تھا ۔ نظام سقہ ّ کو ایک دن کے لیے حکمرانی کا موقع ملا جبکہ نریندر مودی کو پانچ سال کی بادشاہت ملی لیکن تحدید تو تحدید ہے۔ اس کے ایک دن اور پانچ برس کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ویسے نظام سقہ ہو یا نریندر مودی سبھی لوگ ایک محدود مدت کے لیے اقتدار پر فائز ہوتے ہیں ۔ ارشادِ خداوندی ہے ’’پیغمبر آپ کہئے کہ خدایا تو صاحب ِ اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے- جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے‘‘۔ اس آیت میں بادشاہی کے ملنے اور چھن جانے کی آفاقی حقیقت بیان کردی گئی ۔ بقول علامہ اقبال پائیدار اور مستقل حکمرانی تو بس اک ذات بے ہمتا کی ہے ؎
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے بس وہی باقی بتانِ آذری

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.