ہندو انتہاء پسند جماعت آر ایس ایس کے سینیئر رہنما نے
کہا ہے کہ 2025 تک پاکستان بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ انتہاء پسند ہندورہنما
کے اس بیان خوش فہمی یا خود فریبی تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت کااس
سے دور کابھی واسطہ نہیں ۔ کیونکہ پاکستان کلمہ طیبہ کے نام سے وجود میں
آیا تھا آزادی کے پہلے دن سے لے کر آج تک میرا وطن اﷲ کی براہ راست پناہ
میں چلا آرہا ہے ۔اپنی اس بات کے حق میں ‘میں کتنے ہی دلائل دے سکتا ہوں ۔
جن لوگوں نے اپنی ہوش میں 1965ء کی جنگ دیکھی وہ میری اس بات کی گواہی دیں
گے کہ یہ دوسری جنگ بدر تھی جس میں بے شمار ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا
مشاہد ہ بطور خاص میں نے کیا تھا ۔ میجر شفقت بلوچ جنہیں محافظ لاہور کا
خطاب ملا وہ 110جوانوں کے ساتھ رات کے پچھلے پہر چھاؤنی سے نکل کر ہڈیارہ
ڈرین کے مغربی کنارے پر پہنچے ‘ انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ اسی رات
کی صبح بھارت لاہور پر حملہ آور ہونے والا ہے ‘ لیکن اذان فجر کے وقت جب
بھارتی فوج نے حملے کا آغاز کیا تو سوائے 110جوانوں کے پوری سرحد خالی تھی
‘ یہ بھی اتفاق ہے کہ بھارتی فوج اسی جانب سے حملہ آور ہوئی جہاں میجر شفقت
بلوچ اپنی یونٹ کے جوانوں کے ساتھ موجود تھے ‘ پھر کیا ہوا ساری دنیا نے
دیکھا کہ میجر شفقت بلوچ ہڈیارہ ڈرین کے مغربی کنارے پر کھڑ ے ہوکر بھارتی
ٹینکوں کو چن چن کرکے تباہ کردیا ۔ انہوں نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا کہ
میں خود حیران تھا کہ ہمارا فائر کیا جانے والا ہر گولہ نشانے پر لگتا لیکن
ان کی کوئی گولی گولہ بلند ٹیلے پر کھڑے ہونے کے باوجود میرے جسم کو چھو
نہیں سکا۔اسی حوالے سے انہوں نے مجھے ایک ایسے شخص کاخط دکھایا جو 5اور
6ستمبر کی رات مسجد نبوی میں عبادت میں مصروف تھاکہ اسے اونگھ آگئی اونگھ
کی حالت میں اس نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے ہمراہ بہت عجلت کہیں
تشریف لے جارہے ہیں ‘ اس شخص نے قدم بوسی کرتے ہوئے پوچھا یا رسول ﷺ آپ
کہاں تشریف لے جارہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا پاکستان پر حملہ ہونے والا ہے ‘
ہم پاکستان کے دفاع کے لیے جارہے ہیں‘اسی حوالے حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری
المعروف کرماں والے ‘ کی کتاب میں یہ واقعہ درج ہے کہ 3ستمبر کو ان کالاہور
کے میو ہسپتال میں پروسٹیٹ کا آپریشن ہوا تھا ‘ ڈاکٹروں سفر سے منع کیا تھا
اس لیے آپ گلبرگ میں اپنے مرید کے گھر ہی قیام پذیر تھے ‘ زخم تازہ ہونے کی
بناپر حد درجہ تکلیف میں تھے اچانک وہ گاڑی پر سوار ہوکر پہلے واہگہ سرحد
پر گئے ‘ پھر برکی سیکٹر کی جانب روانہ ہوئے آخر میں گنڈا سنگھ بارڈر
جاپہنچے ۔وہاں چارپائی پر لیٹ کر زمین سے مٹی اٹھا کر اس پر قرآنی آیات پڑھ
کر پھونکااور بھارت کی جانب پھینک کر جب واپس لاہور پہنچے تو ان کی زبان سے
یہ الفاظ ادا ہوئے کہ نبی کریم ﷺ نے سرحدیں محفوظ کرنے کی جو ڈیوٹی لگائی
تھی وہ الحمداﷲ پوری ہوگئی ہے ۔دوسرا اتفاق دیکھیں کہ اسی جانب سے بھارتی
فوج نے سرحد عبور کی اور میجر شفقت بلوچ کے ہاتھوں ایک مکمل بریگیڈ فوج
تباہی سے ہمکنار ہوئی ‘ نیا بریگیڈ لانچ کرنے میں جو دس گھنٹے لگے اتنے میں
پاک فوج نے بی آر بی کے ساتھ ساتھ مورچے سنبھال لیے تھے ‘روحانی دنیا کا یہ
بھی ایک منفرد واقعہ ہے کہ دریائے راوی پر صرف دو ہی پل تھے جس پر ریل اور
ٹرانسپورٹ گزرتی تھی ‘ 17روزہ جنگ کے دوران بھارتی فضائیہ راوی کے پل کو
تمام تر کوشش کے باوجود تباہ نہیں کرسکی ‘ بھارتی پائلٹوں کی لکھی ہوئی
کتابوں میں اس ناکامی کاان الفاظ میں ذکر ملتا ہے کہ جب پل تباہ کرنے کے
لیے گولہ پھینکتے تو وہ گولہ دریا کے پانی میں جاگرتا جب انتہائی نیچے آکر
پل کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو ایک سبز لباس والا بزرگ نظر آیا اس نے وہ
گولہ کرکٹ کے گیند کی طرح کیچ کیااور اپنے تھیلے میں ڈال لیا۔ پاکستان کے
مایہ ناز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے ہر پاکستانی آگاہ ہے ۔ ان
سے میری چند ملاقاتیں ہوئی تو انہوں نے مجھے ایسے حیرت انگیز واقعات سنائے
کہ میری خوشی کی انتہاء نہ رہی ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب وزیراعظم نواز شریف
نے ہمیں ایٹمی دھماکوں کا حکم دیا تو ہم پرزوں کی شکل میں ایٹم بم لے کر
کوئٹہ پہلے پھروہاں سے رات کے پچھلے پہر ہیلی کاپٹر پر سوار ہوکر چاغی
پہنچے عام طور پر ایٹم کو اسنبل کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں لیکن حیرت
انگیز طور پر ہم نے صرف تین گھنٹے ہی پانچ ایٹم بم تیار کرلیے ‘ میں نے
پوچھا وہ کیسے ؟ انہوں نے کہا ہم جو پرزہ جہاں لگاتے وہ فٹ ہوجاتا حتی کہ
ہمیں کسی بھی مرحلے میں پرزہ کی جگہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔انہوں
نے مزید بتایا کہ دوسرا معجزہ یہ تھا کہ رات کے اندھیرے میں آسمان پر
امریکی اواکس طیارے چکر لگاتے نظر آرہے ہیں تھے لیکن ہم ان کی نظروں سے
اوجھل ہی رہے ۔ ہم نے چار سو میٹر گہری سرنگ میں ایٹم بم رکھے اور کمیپوٹر
کی درمیانی تمام تنصیبات کو چیک کرکے ہم بیس میل کے فاصلے پر پہنچ گئے ‘
70افراد پر مشتمل ٹیم کا ہر فرد کتنی ہی راتیں سو نہیں پایا تھا تہجد سمیت
ہم ہر نماز باجماعت ادا کرتے۔ چاغی کے ان پہاڑوں میں سانپ ‘ بچھو کی بہتات
تھی لیکن حیرت انگیز طور پر کسی بچھو اور سانپ نے ہمارے کسی بھی سائنس دان
کونہیں ڈسا ‘ انہوں نے بتایا کہ ایک وقت ایسابھی آیا کہ ہمارے پاس کھانے کے
لیے بہت کم سامان تھا لیکن 70افراد نے جی بھر کے کھایااور کھانا پھر بچ گیا
‘اس کے علاوہ بھی کتنے ہی واقعات انہوں نے ہمیں سنائے جس پر ہم اس نتیجے پر
پہنچے کہ بظاہر تو سائنس دانوں نے ہی ایٹمی دھماکے کیے تھے لیکن فرشتوں کی
مددہر مقام پر انہیں حاصل رہی ۔ ڈاکٹر ثمر نے بتایاجب ہم کامیاب ایٹمی
دھماکوں کے بعد اسلام آباد پہنچے تو مجھے ایک شخص ملا جس نے یہ پیغام دیاکہ
ایک بزرگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ‘ میں نے ایڈریس لے لیااور پیغام لانے والے
شخص سے کہا اگر وہ بزرگ ہیں تومیں خود ان کے پاس ملنے جاؤں گا۔وہ بزرگ خیبر
پی کے میں ضلع بونیر کے رہنے والے تھے ایک دن میں اپنے ایک دوست کے ساتھ
وہاں پہنچا حالانکہ ان سے میری یہ پہلی ملاقات تھی لیکن انہوں نے مجھے میرا
نام لے کر مخاطب کیا جس پر مجھے حیرانی ہوئی ۔ بزرگ نے پوچھا ڈاکٹر بتائیں
کیا چاغی کے اس علاقے میں جہاں آپ نے ایٹمی دھماکے کیے تھے وہاں بچھو اور
سانپ کتنے تھے ‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا بے شمار ‘ بزرگ بولے تو مجھے بتائیں
کسی ایک بچھو یا سانپ نے آپ یا آپ کی ٹیم کے کسی فرد کو ڈسا ‘ ڈاکٹر صاحب
نے جواب دیا ہرگز نہیں بلکہ ہم خودحیران تھے کہ موذی جانور وں کا کام ہی
ڈسناہے کبھی بار نیند کی حالت میں ہماری چھاتی پر بھی رینگتے پائے گئے توہم
گبھرا کر اٹھ کھڑے ہوئے ‘ بزرگ پھر بولے‘ بچھوؤں اور سانپوں کو ڈسنے سے اس
طرح منع کردیاگیا تھا جس طرح آگ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے سے
منع کردیا گیا تھا ۔پھر بزرگ نے کہا کیا کیمپوٹر اور ایٹم بم کے درمیان
تنصیبات میں پانی نہیں بھر گیا تھا ‘ عام دنوں میں وہ پانی کتنے وقت میں
خشک ہوتا ہے لیکن آپ کیمپوٹر کتنے وقت میں دوبارہ ایکٹو ہوگیا تھا ‘ ڈاکٹر
صاحب نے کہا بالکل ٹھیک ہے ‘ ہم تو پریشان ہوگئے تھے کہ کہیں ایٹمی دھماکے
کرنے میں ہم ناکام ہی نہ ہوجائیں ‘نواز شریف بار بار ہم سے ایٹمی دھماکوں
کے بارے میں پوچھ رہے تھے ‘ پھر حیرت انگیز طور پر کمیپوٹراورایٹم بم کے
درمیان تنصیبا ت خودبخود ایکٹو ہوگئیں ۔بزرگ نے کہا یہ کام اﷲ کے حکم سے
فرشتوں نے انجام دیا ۔آخر میں بزرگ نے بتایا کہ میں نے آپ کو اس لیے دیکھتے
ہی پہچان لیا کہ آپ کی شکل جیسی شبیہ نبی کریم ﷺ نے پوری کائنات کے ولیوں
کو دکھاکر فرمایا تھا کہ ہر صورت ان کی حفاظت کرنی ہے ۔ واقعات تو بے شمار
ہیں لیکن فی الوقت اسی پر اکتفا کرتے ہیں ‘آج جب پاکستان اور بھارت کی
فوجیں ایک بار پھر آمنے سامنے تیار کھڑی ہیں چندایک واقعات کاتذکرہ کرنا
ضروری سمجھتا ہوں ‘ رات کے اندھیرے میں 26فروری کو بھارتی فضائیہ کے طیارے
ہدف پر بم گرانے میں ناکام رہے ‘ بلکہ اسرائیلی ساخت کے یہ بم بالکل صحیح
سلامت افواج پاکستان کے ہاتھ لگے جیسے کوئی مفت میں جدید ٹیکنالوجی سے
پاکستان کو آراستہ کرنے کا اسباب پیدا کررہا ہے ۔اگلے دن دشمن پوری دنیامیں
رسوا ہوجاتاہے بھارت کے دوجنگی طیارے ‘ایک ہیلی کاپٹر اور سات آٹھ اعلی
افسران سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ‘بھارتی فضائیہ کا ایک اعلی افسر جسے پاکستان
پر حملہ آور ہونے کے لیے بھیجا جارہاتھا اچانک خود کشی کرلیتا ہے ۔ایک
بھارتی پائلٹ تو طیارے سمیت گرکر ہلاک ہوجاتاہے تو دوسرا پائلٹ ابھی نندن
پاکستانی فوج کے ہاتھ گرفتار ہوجاتا ہے ‘ یاد رہے کہ اس حملے سے پہلے دو
بھارتی طیارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوجاتے ہیں جبکہ ایک پرندہ بھارتی طیارے
سے ٹکرا تا ہے اور طیارہ زمین بوس ہوجاتاہے ‘پاکستان کا بھارت پر ایسا رعب
پڑتاہے کہ اس کی فوج پاکستان کے خلاف براہ راست جنگ سے صاف انکار کردیتی ہے
مجبورا بھارت میزائل حملے کی تیاری کرتاہے ابھی حملے سے متعلق میٹنگ ختم
نہیں ہوپاتی کہ پاکستان کو خبر ہوجاتی ہے پاکستان ‘ بھارت سے پہلے اپنے
میزائل فائرنگ رینج میں لگالیتا ہے اس سے دشمن پرایسا رعب پڑتا ہے کہ اس کے
اوسان خطا ہوجاتے ہیں ۔جنگ سے قبل دشمن کا خوفزدہ ہوجانا یہ اﷲ تعالی کی
خصوصی مدد قرارپاتی ہے ۔ یہ بھی دیکھیں کہ بھارت نے واشگاف الفاظ میں
پاکستانی دریاؤں کا پانی بند کرنے کااعلان کیا تھا قدرت خداوندی حرکت میں
آتی ہے اور آسمان پر کالی گھٹائیں چھاجاتی ہیں ملک کے طول وعرض میں ایسی
بارشیں برستی ہیں کہ جل تھل ہوجاتا ہے ‘وہ بلوچستان جو خشک سالی کا شکا ر
تھا اس کے ذرے ذرے میں بارش کا پانی پہنچ چکا ہے ۔پہاڑوں میں غیر متوقع
طوپر برف باری شروع ہوجاتی ہے ‘ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو ایک منٹ کے
لیے بھی پانی کی کمی محسوس نہیں ہوئی ۔بھارتی آبدوز پاکستانی سمندر میں نقب
لگانے کی جستجوکرتی ہے ‘ پاک بحریہ کی وارننگ کے بعد اسے دوبارہ ہمت نہیں
ہوتی ‘ زمینی افواج کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کے چھکے چھڑا رہے ہیں ‘
کنٹرول لائن سے بھارتی فوجیوں کی اتنی نعشیں گھروں کو جاچکی ہیں کہ بھارتی
حکومت بوکھلا چکی ہے ۔وہ اپنے سرپرستوں کے سہارے سلامتی کونسل میں ایک
پاکستانی مسعود اظہر پر پابندی کی قرار داد لے کر جاتا ہے وہاں چین کا ویٹو
کام آتاہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ بھارت بیک وقت سمندر ‘ فضا
اور زمین پر مسلسل شکست سے ہمکنار ہورہا ہے ۔کیایہ عجیب بات نہیں کہ بھارت
‘ اپنی خفت مٹانے کے لیے افغانستان کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے
اکساتا ہے ابھی یہ منصوبہ سوچ بچار پر ہی مشتمل تھا کہ افغان ائیرپورٹ
طالبان یلغار کرکے کتنے ہی افغان فوجیوں کو ہلاک کردیتے ہیں ‘افغان فوج
اندرون ملک ہی طالبا ن مصروف جنگ ہوجاتی ہے ۔بھارت اور اس کے سرپرست امریکہ
کی ہر ممکن کوشش تھی کہ عوام اور فوج کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کی جائے
تاکہ اپنے مذموم مقاصد پر عمل کیاجاسکے ‘ لیکن جیسے ہی کشیدگی عروج پر آتی
ہے تو پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی بھارت کوللکار رہی ہے ‘ دشمنوں
نے کھلی آنکھوں کے ساتھ پاکستانی قو م کو اپنے فوج پر پھول نچھاور کرتے
دیکھا ۔ ہم اس اعتبار سے بے حد خوش قسمت ہیں کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے
ہیں جس کی حفاظت اﷲ تعالی کے حکم پر فرشتے کرتے ہیں ‘ جس کے دفاع کے لیے
نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ہمراہ میدان جنگ میں اترتے ہیں ‘ تعداد میں
کم ہونے کے باوجود اگر پاک فوج کا رعب بھارتی فوج پر پڑ چکا ہے تو اس کا
کریڈٹ یقینا اﷲ تعالی اور نبی کریم ﷺ کو ہی جاتا ہے ۔ پاکستان کلمہ طیبہ کے
نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا اور اس کے خلاف سازشیں کرنے والے اور اسے
مٹانے خود مٹ گئے لیکن یہ آج بھی دنیا کے نقشے پر ایک باوقار ایٹمی طاقت کے
روپ میں سربلند کھڑا ہے ۔ شیخ مجیب الرحمان ‘ ذوالفقار علی بھٹو ‘ یحیی خان
‘ اندرا گاندھی‘ راجیو گاندھی جیسے لوگ پاکستان دشمنی کی سزا بھگت چکے ہیں
ہمارا تو پختہ ایمان ہے کہ جو شخص یا جو ملک بھی پاکستان کے خلاف سازشیں
کرکے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا وہ قدرت کے ہاتھوں ناقابل تلافی
نقصان اٹھائے گا ۔ ان شاء اﷲ۔اﷲ اپنی حفاظت میں رکھے مفتی تقی عثمانی کو جن
کو کتنی بار نبی کریم ﷺ کی خواب کی حالت میں زیارت ہوئی اور نبی کریم ﷺ نے
پاکستان کو مشکلات حالات سے نکالنے کے لیے مقتدر شخصیات کے نام انہیں پیغام
اور سلام بھی بھیجا ۔ 2005ء میں جو قیامت خیز زلزلہ پاکستان کے شمالی
علاقوں میں آیا تھا جس میں ہزاروں انسان زمین برد ہوگئے تھے ‘ سڑکیں ‘ پل
اور عمارتیں زمین بوس ہوچکی تھیں ‘ انہی دنوں اﷲ کا نام بادلوں کی شکل میں
ابھرکر آسمان پر طلوع ہوا تھا اس قیامت خیز زلزلے کے فورا بعد مانسہرہ کے
کسی دینی مدرسے کے ایک طالب علم کو نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی تھی جس میں
پاکستانی قوم کو کوئی قرآنی آیات پڑھ کر زلزلوں سے بچنے کی ہدایت کی تھی ۔
ان واقعات کا تذکرہ 2005ء کے اردو اخبارات میں دیکھاجاسکتا ہے ۔ |