مسئلہ کشمیر کا حل

بھارت و پاکستان کی سوچ و اپروچ میں تبدیلی کا متقاضی

کشمیری امریکن کونسل اور کشمیر سینٹر واشنگٹن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام نبی فائی نے اسلام آباد میں منعقدہ آزاد کشمیر حکومت کی ایک تقریب میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر مذاکرات وہیں سے شروع ہوں گے جہاں سے مشرف دور حکومت میں تعطل کا شکار ہوئے تھے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت سابق صدر مشرف کی کشمیر پالیسی پر قائم ہے اور مشرف کی کشمیر پالیسی کے مطابق ہی بھارت سے مذاکرات کئے جائیں گے۔مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے امریکہ میں مقیم غلام نبی فائی نے یہ بھی کہا کہ کشمیری لیڈر شپ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اس مؤقف کی مکمل توثیق کرتی ہے کہ مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں شامل ہونے سے ہی پاکستان بھارت مذاکرات بامعنی ہوسکتے ہیں۔

دوسری طرف بھارتی حکومت کی طرف سے قائم کردہ تین رکنی ٹیم مقبوضہ جموں و کشمیر کا پانچواں دورہ کر رہی ہے۔پروفیسر رادھا کمار،پروفیسر کمار اور ایم ایم انصاری پر مشتمل بھارتی ٹیم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مختلف الخیال حلقوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کو اپنا مقصد قرار دے رہی ہے۔ پروفیسر رادھا کمار نے ایک عالمی نشریاتی ادارے” بی بی سی “ کو انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارتی مذاکراتی ٹیم نے اپنے گزشتہ چار دوروں کے دوران مقبوضہ کشمیر کے ہر ضلع میں جا کر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، وکلاء، میڈیا اور سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقاتیں کی ہیں۔روزگار اور ضروریات زندگی کے مسائل سے قطع نظر مسئلہ کشمیر کو سیاسی مسئلے کے طور پر حل کرنے کے سوال کے جواب میں پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل اور نتیجہ بھی سیاسی ہی ہونا چاہئے۔ پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی تجاویز میں مشترکہ گراﺅنڈز تلاش کئے جاسکتے ہیں، باقی حریت کانفرنس کے دونوں گروپ،یاسین ملک گروپ ،شبیر شاہ کے درمیان بھی اتفاق رائے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی مذاکراتی ٹیم نے سب سے الگ الگ بات کی ہے اب ان سب کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اس سوال کہ کشمیر میں جذبہ آزادی گہرا ہے اور ایک سروے کے مطابق65فیصد کشمیریوں نے مکمل آزادی کی رائے کا اظہار کیا ہے ،کے جواب میں پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ وادی کشمیر میں آزادی کا جذبہ گہرا ہے لیکن جموں کے لوگ وادی سے الگ ہونا چاہتے ہیں،لداخ کے لوگ مرکز کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں،راجوری ،اودھمپور کے وچار الگ ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہنے کے سوال کے جواب میں پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ نوجوانوں کی ایجی ٹیشن میں گرفتار ہونے والے کئی نوجوانوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے تاہم اب جو گرفتاریاں کی جارہی ہیں ان کے متعلق حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ”رنگ لیڈرز“ ہیں۔وزیر اعظم من موہن سنگھ،ہوم منسٹری اور وزیر اعظم کی کابینہ کمیٹی نے کہا تھا کہ ایجی ٹیشن کے دوران گرفتار ہونے والوں کو رہا کر دیا جائے گا تاہم اس معاملے میں ہر شخص کے کیس کا انفرادی سطح پر جائزہ کیا جا رہا ہے۔پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ دو بہنوں کے قتل کے واقعہ میں ملی ٹینٹس ملوث ہیں ،آرمی ایکشن میں کشمیری نوجوان کی ہلاکت غلط چیز تھی تاہم بھارتی فوج اور ریاستی حکومت نے فوری ایکشن کا فیصلہ کیا لیکن وہ ٹھیک طریقے سے اسے لاگو نہیں کر سکے، پولیس نے بھی صورتحال کو کنٹرول کیا ہے۔حریت کانفرنس کے سید علی شاہ گیلانی گروپ سے ملاقات نہ ہو سکنے کے جواب میں پروفیسر رادھا کمار نے ملاقات کی توقع ظاہر کی۔پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ ان کی ٹیم نے چار دوروں کے موقع پر سات آٹھ ہزار لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور اتنی زیادہ تعداد کو انڈین سپانسرافراد قرار نہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے لوگ امن اور اس مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں لہٰذا اس مسئلے کا حل بھی نکل سکتا ہے۔لوگوں کے الگ الگ” انٹرسٹ“ہیں،ان سب کو ساتھ لانا آسان کام نہیں ہے ۔پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ ان کی مذاکراتی ٹیم اب تک اپنا کام15سے 25فیصد تک مکمل کر چکی ہے۔پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ اگر حکومت،بھارت کے پالیسی ساز،سیکورٹی والے اور سول سوسائٹی ملکر کام کریں تو نتائج جلد حاصل ہو سکتے ہیں لیکن ان کے درمیان ”کوآرڈینیشن“ نہ ہونے سے نتائج میں وقت لگ سکتا ہے۔بھارتی مذاکراتی ٹیم میں شامل پروفیسر کمار اور ایم ایم انصاری نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق بات چیت میں پاکستان کی شمولیت ضروری ہے کیونکہ ریاست کشمیر کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے۔پروفیسر رادھا کمار نے کہا کہ مشرف کا 4نکاتی فارمولہ ” ٹرننگ پوائنٹ“ ہے کیونکہ اسی تناظر میں2003ءسے2006ءکے درمیان پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔بھارتی مذاکراتی ٹیم ریاست کے اپنے پانچویں دورے پر جموں پہنچی اور وہاں گورنر این این وہرا،وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ،ریاستی اسمبلی کے چند ارکان اور چیف سیکرٹری مادھو لعل سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے دورے کا آغاز کیا۔مقبوضہ کشمیر میں تین ماہ کی شدید عوامی تحریک کے بعد بھارتی حکومت نے 13اکتوبر 2010ءکو تین رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی تھی۔

حکومت پاکستان کی اس وقت کشمیر پالیسی کیا ہے ،اس متعلق کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی کیا ہے۔اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو گا جہاں سے سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ٹوٹا تھا۔یعنی پاکستان کی موجودہ حکومت مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مشرف حکومت کی پالیسی پر ہی کاربند نظر آ رہی ہے۔

جنوری کے آخری ہفتے بنکاک میں جناح انسٹیٹیوٹ اسلام آباد اور بھارت کی طرف سے انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ اسٹیڈیز نئی دہلی کے زیر اہتمام ”بیک ڈور چینل“ کے طور پر تین روزہ سیمینار منعقد کیا گیا جس میں دونوں ملکوں کے سابق سفارتکار،ریٹائرڈ جنرلز،خفیہ اداروں سے وابستہ سابق حکام اور چند دوسری شخصیات نے شرکت کی۔سیمینار کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں دونوں ملکوں کے درمیان حکومتی و خفیہ ایجنسیوں کی سطح پر مسلسل رابطوں اور ویزے کی فراہمی میں آسانی پیدا کرنے کی بات کی گئی۔دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کا ایجنڈا دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریز کی ملاقات میں تیار کیا گیا ہے۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق جب عوامی رائے جاننے کی بات ہوتی ہے تو اس حوالے سے وکلا، میڈیا، سول سوسائٹی کے افراد سے رابطے پر زور دیا جاتا ہے اور یہ صورتحال اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ متنازعہ ریاست کشمیر کے دونوں حصوں میں اپنے اپنے سرکاری مؤقف کو ہی دہرایا جاتا ہے اور ” سپانسرڈ“ افراد کی رائے کو دونوں ملکوں کی حکومتوں کی پالیسیوں کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی پارلیمانی پارٹیاں،نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی ار کانگریس اور بی جے پی بھارت نوازی کے دعوے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی شدید مخالفت میں گزر بسر کر رہی ہیں ۔دوسری طر ف آزاد کشمیر کی سیاسی پارٹیاں مادی مفادات کی لڑائی میں کشمیر کاز کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپس کی دشمنیاں پال رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند جماعتوں سے قطع نظر پاکستان اور بیرونی دنیا میں قائم حریت سیٹ اپ اپنی ساکھ اور افادیت کھوتے جا رہے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کی طرح کشمیر کی حریت پر بھی ایک خفیہ ادارے کے کنٹرول کی صورتحال نمایاں ہے۔یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستان اور بھارت ” انڈس واٹر ٹریٹی“ کے ذریعے متنازعہ ریاست کشمیر کے آبی وسائل آپس میں تقسیم کر چکے ہیں اور کشمیر کے دونوں حصوں میں نظم و نسق اور عوامی فلاح و بہبود و ترقی کی ابتر صورتحال کشمیریوں کے لئے باعث تشویش ہے۔یوں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے سامنے پابند و مجبور افراد کی رائے آزادانہ رائے کی حیثیت اختیار نہیں کر پاتی اور ان کی رائے دونوں حکومتوں کی کشمیر پالیسی کی روشنی میں ہی نظر آتی ہے۔اس صورتحال میں یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ جن امور پر پاکستان اور بھارت کی حکومتیں آپس میں سمجھوتہ کریں گی ، اسی معاہدے کو کشمیریوں کو قبول کرنا پڑے گا۔جبکہ ریاست کشمیر کے دونوں حصوں سے یہ مطالبہ سامنے آتا رہا ہے کہ دونوں ملک مسئلہ کشمیر پر ہونے والے مذاکرات میں کشمیریوں کو بھی شامل کریں۔ اب اگر ان مذاکرات میں کشمیریوں کے نام پر پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی لائنوں کے مطابق ہی بات کرنے والے کشمیریوں کو شامل کیا جاتا ہے تو اسے کشمیریوں کی آزادانہ رائے قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں عالمی برادری کی یہی خواہش سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر باہمی طور پر کوئی بھی سمجھوتہ کر لیں،عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل ،مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کی صورتحال اور کشمیریوں کی حقیقی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ گزشتہ63سالہ تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کا مسئلہ باہمی طور پر حل نہیں کر سکتے اور ان دونوں ملکوں کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال کشمیریوں کے نزدیک خاطر خواہ نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعطل شدہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں بھی امریکہ کی دلچسپی کارفرما نظر آتی ہے۔ کشمیریوں کی اپنی آزادی کی جدوجہد کئی عشروں کی جدوجہد اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ ریاست کشمیر اور کشمیریوں کو درپیش صورتحال کو جوں کا توں رکھنے اور مسئلہ کشمیر کو یونہی لٹکائے رکھنے کے خواہشمند جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کے خواب کو ایک خواب کے طور پر ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیریوں کے دل کی آواز اگر سنی جائے تو وہ اپنے تما م معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنے کے خواہشمند ہیں۔مسئلہ کشمیر کے حل کو مختلف بہانوں سے ٹالتے رہنے اور متنازعہ ریاست کشمیر کے زیر انتظام علاقوں کو کلونئیل ازم (Colonialism)کی بنیاد پر چلانے کے نقصاندہ تجربات آج کے انسانی آزادی اور عوامی اظہار رائے کے جدید دور میںقابل قبول نہیں ہو سکتے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699295 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More