معیشت بستر مرگ پر

 اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ نے تبدیلی سرکارکی معیشت میں بہتری کے بلندبانگ دعوؤں کابھانڈاپھوڑدیا ہے ۔پاکستان کواس کے دوست ملکوں سے قرض اور امداد کی مدمیں ملنے والی رقوم کے باوجود معیشت کے آئی سی یوسے باہرآنے کے کوئی آثار نہیں مجموعی قومی پیدا وار کا ہدف نصف اور مہنگائی گزشتہ چار سالوں کی نسبت دگنی 9%ہو گئی ہے۔ موصولات کی وصولی میں کمی تین سو پچاس ارب روپے ہے، قرض کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات میں اضافہ ،ترقیاتی کاموں میں نصف سے زیادہ کٹوتی ، روپے کی ڈالر کے مقابلے میں کمی جو کہ اب 144روپے کا ہے اور مستقبل قریب میں 160روپے تک پہنچ سکتا ہے ۔ اب گیس کے نرخ بڑھانے کاارادہ ہے دوسری طرف امیر طبقات کاسرمایہ بڑھ رہا ہے ۔ تاجر اور صنعت کار اپنی مرضی سے ضروریات زندگی کو مہنگا کرتے چلے جا رہے ہیں ہوٹلوں کے اپنے ریٹ ہیں اب ڈھابوں پر بھی سستا کھانا کھانے کا تصور نہیں کیاجا سکتا ۔پبلک ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ ہو چکا ہے ، صنعتی اور زرعی پیدا وار میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے ، کسانوں کو اپنی اجناس کے مناسب نرخ میسر نہیں ۔ مہنگی کھاد ، بیج اور بجلی کی وجہ سے پید اوار لاگت بڑھ چکی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک کو دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ قرضہ جاتی پیکج قبول کیا جائے ، ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق آئندہ سالوں میں پاکستان کو قرضے ادا کرنے کیلئے نئے قرضے لینے ہونگے آئندہ پانچ سال میں پاکستانی معیشت کی بہتری کے بارے میں کوئی امید رکھنے کی ضرورت نہیں ہے اسد عمر کا کہنا ہے کہ اگر اسٹاک مارکیٹ میں لوگوں نے سرمایہ کار کر کے بیرونی منڈیوں تک رسائی حاصل نہ کی تو ہم شمالی کوریا بن سکتے ہیں وزیر خزانہ کو سوچنا چاہیے کہ اس کی اپنی پارٹی کے سرمایہ دار صنعت کاری کے عمل میں حصہ کیوں نہیں لے رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ان کے ذاتی سیاسی اور مالیاتی مفاد ہیں جبکہ قومی تبدیلی کا کوئی ایجنڈا موجود نہیں ہے سب سے حیران کن بات وزیر اعظم عمران خان نے کی ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے نظریات ایک ہیں یہی صورتحال سندھ میں قائم گرینڈ الائنس کی ہے جو کہ ہمیشہ پیپلز پارٹی کی قیادت کیخلاف رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے تمام لاثانی و قوم پرست گروہ اور ملک کی دو مقبول عام سیاسی جماعتوں کی قیادتیں ایک ہی کمپنی کی ملازم ہیں جبکہ پنجاب کے سیاسی خاندان کی نراضگی وقتی ہے اور ان سے مقتدرہ طبقات کسی وقت بھی صلح کر سکتے ہیں میری ان گزارشات کے معروض میں آپ آئندہ ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے حرکیات کو سمجھ سکتے ہیں ۔

وزیر اعظم کی معاشی ایڈوائزری کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا ہے موجودہ صورتحال میں پچاس لاکھ گھر تعمیرہوسکتے ہیں اور نہ ایک کروڑ نوکریاں پیدا کی جا سکتی ہیں ۔نئی ملازمتو ں کیلئے معیشت کی قومی ترقی کی شرح نمو کوتسلسل کے ساتھ 7%تک لے جانا ہوگا اس مقصد کیلئے سرمایہ کاری کو فروغ د یناہوگا ۔1993میں ڈالر کی قیمت 52روپے تھی جو کہ اب 144روپے ہے اور رکتی ہوئی نظر نہیں آتی ،2ہزار946ارب روپے قرضے 29ہزار8سو 80ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں،2018میں پاکستان کے عوام نے تبدیلی کی امید میں جس قیادت کو منتخب کیا تھا وہ ابھی تک عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے عوام کو دیکھائے جانے والے خوبصورت خواب چکناچورہوگئے ہیں ، جبکہ اشرافیہ کے چاروں طبقات اور اقتدار کے شراکت داروں کی من مانی اور استحصالی رویے برقرار ہیں اوپر سے اخراجات کم کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کی چھریوں سے عوام کی کھال اتارنے کی تیاریاں ہیں یہ تمام طبقات اصلاحات کے ذریعے ملک سے بد عنوان نظام اور غیر پید اواری ساکت سماجی ، تجارتی ،معاشی اور صنعتی سر گرمیوں میں اضافہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ اسی روایتی طریقوں کے ذریعے ریاستی آخراجات قرضوں کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں ، وہ آمیر طبقات پر ٹیکس لگا کر ریاست کے موصولات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے ۔کہیں پر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے احتساب کا عمل جاری ہے بے نامی اکاؤنٹوں کا انکشاف ہو رہا ہے کالے دھن کو سفید بنانے کیلئے دوبارہ نئی ایمنسٹی سکیم لانے کی بات ہو رہی ہے، فائلر اور نان فائلر کی بحث دوبار ہ چھڑ چکی ہے وزیر اعظم عمران خان نے دورہ سندھ کے دوران کہا ہے کہ قومی دولت لوٹنے والے پیسہ واپس کر دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ حکومت اور مقتدرہ طبقات پیپلز پارٹی کی قیادت کو کوئی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ شہباز شریف کے ذریعے اپنے پنجابی دھڑے کے ساتھ مفاہمت کی درمیانی راہ نکالی جا رہی ہے بعض حلقوں کے نزدیک نواز شریف کو دی جانے والی عدالیہ کی طرف سے رعایت کو مریم نواز کی مقتدرہ حلقوں کے ساتھ ملاقات قرار دیا جا رہا ہے ، مگر اس سارے سیاسی مذاکراتی اور محاذ آرائی کے کھیل میں غریبوں کو کچھ ملتا ہوا نہیں نظر آتا ہے ملک میں 60%سے زیادہ سطح غربت سے نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں 7%بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں ، ادوایات کی قیمتوں میں خو شربا اضافہ ہو چکا ہے جس کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کر رہا ، سرکاری ہسپتالوں میں سستے اور مفت ٹیسٹوں کی سہولتوں کو ختم کر دیا گیا ہے ، یہ ہے نیا پاکستان غریبوں کیلئے کسی نئی قیامت سے کم نہیں ہے ۔

گزشتہ 8ماہ کے دوران احتساب کے حوالے سے بیانات کے علاوہ کرپشن کا ایک ڈالر بھی بازیاب نہیں کرایا جا سکا ہے اور سابق حکومتوں کو کوسنے کیلئے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جا رہا گزشتہ حکومت کے دوران معاشی ترقی کی شرح 5.8%ہو گئی تھی ، جتنی تیزی کے ساتھ آج قرضہ لیا جا رہا ہے ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔پہلے جو کام ہزاروں روپے میں کیے جا سکتے تھے انہیں لاکھوں میں بھی مکمل کرنا ممکن نہیں ہے معاشی ترقی کیلئے مربوط پالیسیاں بنانے کی بجائے غربت کے خاتمے کے نام پر مرغبانی اور پچھڑے پالنے کے پروگرام دیئے جا رہے ہیں، ماضی قریب میں بنگلہ دیش میں گرامین بنک کے عورتوں کو قرضے دے کر کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دیا اور آج وہ کاٹن کی مصنوعات کا بڑا برآمد کنند ا ہے جس کے زر مبادلہ کے ذخائر 60ارب کے لگ بگ ہیں مگر یہاں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد غریبوں کی بحالی کیلئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے لے دے کہ اب کرپشن کے طعنے رہ گئے ہیں خالی ہاتھ ملتی حکومت کے پاس غریبی مکاؤ کے منتر پڑھنے کے علاوہ اور کیا ہے ۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں55لاکھ بزرگ خواتین کی امداد ہوتی تھی اس میں بھگاڑ پیدا کرنے بارے سوچا جا رہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے اس پروگرام کو غریب عورتوں کو گھریلوں سطح پر سلائی ، تعلیم ، روز گار اور اضافی وسیلوں کے کاموں سے جوڑا جائے مگر ایسا کچھ نہیں ہو رہا ۔

کچھ عرصہ قبل معاف کروائے ہوئے قرضوں کی ریکوری کے بارے میں شعور و غوغا سنا جا رہا تھا جو کہ چار کھرب روپے کے لگ بگ ہے یہ تمام قرضے سیاسی طور پر معاف کروائے گئے ہیں جبکہ ان لوگوں کے اثاثے اب بھی موجود ہیں ان کا وہی معیار زندگی قائم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے یہ قرضے مرضی سے ڈیفالٹ کیے گئے تھے ۔ انہی لوگوں نے ملک کو قرضہ جاتی بحرانوں میں پھنسا دیا ہے ان سے قرضے وصول کرنے کی ضرورت ہے، ملک کے تمام امیر طبقات سے براہ راست ٹیکس وصول کرنے چاہیں ، قومی شناختی کارڈ کو ٹیکس نمبر ڈکلیئر کر کے ٹیکسوں کی وصولی کی جا سکتی ہے ، روایتی مینو فیکچر سیکٹر کو ہائی سکلڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا واری لاگت میں کمی اور پیدا وار بڑھانے کی ضرورت ہے تا کہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے، 18ویں ترمیم اور ساتویں مالی ایوارڈ پر صوبوں سے محاذ آرائی کرنے کی بجائے وفاقی حکومت اپنے اخراجات کم کرے ، پید اواری بجٹ کو انسانی وسائل کی ترقی ، صحت ، تعلیم تربیت اور ٹیکنکل تعلیم کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق بنانے پر صرف کیا جائے زرعی شعبہ سے ٹیکس وصول کرنے کی ضرورت ہے موجودہ حکومت بھی پاکستان کے حکمران خاندانوں کے اقتدار کا تسلسل ہے جن کے پاس سیاسی اور معاشی حکمت عملیوں سے عوام کی تکالیف کم کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے وہ محض محاذ آرائی کی کیفیات کی بڑھوتی کے ذریعے اپنی نا اہلیت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کسی کو معلوم نہیں کہ نیا پاکستان بنانے والے کہاں ہیں ہر طرف شعور و غوغا ، دھول اڑتی اور پگڑیاں اچھلتی ہوئی دیکھائی دیتی ہیں ، ہم ابھی تک اٹھارویں اور انیسویں صدی کے گرداب میں گرفتار ہیں جاگیر دار طبقات ابھی تک زراعت کو معیشت کی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ہمیں صنعتی انقلاب میں داخل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جس کیلئے جدیدت ، روشن خیالی اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر قائم دانش کے فکری انقلاب کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کے بغیر معاشی اور ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں ۔

Ch MOHAMMAD Altaf Shahid
About the Author: Ch MOHAMMAD Altaf Shahid Read More Articles by Ch MOHAMMAD Altaf Shahid: 27 Articles with 20837 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.