ملک میں سیاسی موسم بدل رہا ہے،یعنی اسکرپٹ میں کچھ
تبدیلی وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔اس سٹیج ڈرامے میں مین رول کرنے والوں کو
صرف اقتدار کی شتابی تھی ،انہیں اتنا بھی اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے جو
عوام سے جھوٹے وعدے کئے ہیں کیا یہ وعدے قابل عمل بھی ہیں یا نہیں ؟اپنے
مخالفین کو رگیدتے ہوئے کسی اصول یا ضابطے کی پروا نہیں کی ،اب یہ سب باتیں
عوام کے سامنے ہیں ۔
سیاست کے ساتھ صحافت بھی تبدیل ہو چکی ہے ، ماضی میں صحافی حکومت پر تنقید
کرتے تھے،عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں قید وبند برداشت کرتے اور یہاں تک
کہ اپنی جانیں بھی قربان کر دیتے تھے ، لیکن اب اپوزیشن کی برائی ،ان کے
خلاف لکھنا ،بولنا ،لعنت ملامت کا نشانہ بنانا اور ہر بات کے منفی پہلو
تلاش کرنا آج کل صحافیوں کا محبوب ترین مشغلہ ہے ۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جب
تک شریف فیملی یا آصف علی زرداری،فریال تالپوراور اب بلاول بھٹو پر تنقید
یا برائیوں کے پل نہیں باندھے جائیں گے ،تب تک ان کا مضمون یا گفتگو مکمل
نہیں ہو گی ۔صحافی کے فرائض عوام پر حکومتی چالوں کی حقیقت آشکار کرنا
اوّلین ترجیح میں آتا ہے،مگر سب حکومت کی اس بیانیہ کو تقویت دینے کے در پر
ہیں کہ ماضی میں سب کچھ غلط ہوا ،یہ فرشتہ صفت لوگ اقتدار میں آئے ہیں ،یہ
ملک میں کچھ عرصے بعد شہد اور دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔اب تو خدا کا کچھ
خوف کر لیں ۔تحریک انصاف عمران خان کے سوا کیا ہے ، سب ادھر اُدھر سے اکٹھے
کئے ہوئے پرندے جو کچھ برس کے بعد اقتدار پارٹی کے کھونسلے میں پناہ مانگتے
ہیں ۔
شریف برادران کے ساتھ ذاتی دشمنی جیسی ذہنیت رکھنے والے یہ نہیں سوچتے کہ
پی ٹی آئی حکومت نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔آج دنیا میں صرف
معیشت کی جنگ لڑی جا رہی ہے ، جو اس میں کامیاب ہے وہ ترقی کی دوڑ میں آگے
ہے اور جو اس میں پیچھے رہ گیا، وہ ناکام ہے ۔آج ہمارے ملک میں جو معیشت کا
حشر نشر ہو کر رہ گیا ہے ،وزیر خزانہ عوام کو مہنگائی سے چیخیں نکالنے کی
باتیں کر رہے ہیں ،اس حکومت کی مہنگائی کنٹرول کرنے کی اوقات تو نہیں تھی،
مگر انہوں نے خوفِ مہنگائی کے جن کو بھی آزاد کر دیا ہے ، ترقیاتی بینگ کی
رپورٹ ،اسد عمر کے خود کے بیانات ،یہ سب کچھ عوام کو ایسے خوف میں مبتلا کر
چکے ہیں ، جس میں انسان کو اس بات کی فکر ہے کہ گھر میں کچھ خوراک اکٹھی کر
لیں ،چار پیسے بچا کر رکھ لیں ،پتہ نہیں کس وقت کیا ہو جائے ۔سب سے بڑا
نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ملک بے یقینی کا شکار ہو گیا ہے ، کسی کو کچھ پتہ
نہیں کل کیا ہو جائے ، اشیاء کی قیمتیں بڑھتی رہیں ، حکومت کو کوئی پریشانی
نہیں ہے ۔
حکومت کا کام ہوتا ہے کہ ملک میں کسی بھی قیمت پر استحکام پیدا کرے ۔عوام
کو ریلیف دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے ،مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے
، حکومت کو شریف فیملی اور زرداری فیملی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ، ملک
میں خیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر ہاتھ ڈالنے کے لئے حکومت کی
توجہ نہیں ہے ، ملک میں قحط کی صورتحال پیدا ہو جائے یا لوگ خودکشیاں کر
لیں حکمرانوں کا اس سے کیا لینا دینا ۔
ان دانشوروں کی دانش پر حیرانگی ہوتی ہے جو ہر وقت منی ٹریل ،منی لانڈرنگ
،لات مار کر حکومت گرانے جیسے سیاسی بیانات پر اپنا قیمتی تبصرہ اور وقت
ضائع کرتے ہیں ۔دانشور اور مراسی میں فرق ضرور رہنا چاہیے ۔ اصل مسئلہ ملک
میں استحکام کا ہے ،امن ،سکون اور زبوں حالی سے نجات کا ہے،اقتدار حاصل
کرنے کا شوق تھا تو اتنی صلاحیت بھی ہونی چاہیے تھی کہ مسائل کو ایمرجنسی
اور مستقل بنیادوں پر حل کر سکیں ۔لیکن اگر اسد عمر جیسے وزیر خزانہ عوام
کے سر پر بیٹھادے جائیں،تو وہ دن دور نہیں جب عوام واقعی باغی ہو جائیں
گے۔سر پھری عوام کو کسی لیڈر کی ضرورت نہیں رہے گی ،اگر وہ کسی لیڈرشپ کے
بغیر نکلتی ہے تو خطرناک حد تک نقصانات ہوں گے ۔جس کی طرف کسی کی توجہ ہے
اورنہ ہی کوئی عوام کی بنیادی سہولیات وضروریات کے فقدان کی طرف آ رہے
ہیں۔انہیں چاہیے میاں نواز شریف ، شہباز شریف ،آصف علی زرداری اور جو بھی
ان کے سامنے آئے وہ جیل میں پہنچا دیئے جائیں ۔عوام کے سامنے انہیں چور
ڈاکو اور کرپٹ کہہ کر اپنی کارکردگی اور کردار سے پردہ پوشی کی جائے ۔ان کے
بیانیہ کی تشہیر کرنے کے لئے مخصوص اینکرحٖضرات جن کا روزگار ہی ان کی غلط
پالیسیوں پر پردہ نشینی اور تحفظ دینا ہے وہ اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں اور
ان کو تقویت دی جا رہی ہے ۔یہاں تک کہ عمران خان کے یو ٹرنوں کو لیڈر کی
بڑی خصوصیت باور کروانے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اپنی زبان سے پھرنے
والے کو ہمارے کلچر میں کیا کہتے ہیں․․․؟
عمران خان کی کیسے کسی دوسری جانب توجہ ہو سکتی ہیں ، جہاں صورتحال ایسی ہو
کہ ملک کا پتہ نہیں دیوالیہ نکلے یا نہ نکلے عوام کا دیوالیہ تو نکل چکا
ہے۔ملکی نظام حکومت اور اپوزیشن کے مل کر چلانے سے چلتا ہے ،مگر جہاں قائد
ایوان ہی اتنا غیر ذمہ دار ہو جو کسی سیاسی حریف سے مصافحہ کرنا بھی توہین
سمجھتا ہو ،ایسے غیر جمہوری شخص کو حکومت میں بیٹھنے کا کوئی حق
نہیں۔کیونکہ اسے ملک سے زیادہ اپنی ’’انا‘‘زیادہ پسند ہے ۔اسے یہ پریشانی
نہیں کہ ڈالر 143سے بھی اوپر جا رہا ہے ، اسے عوام میں بڑھتی نا امیدی اور
غربت کی کوئی فکر نہیں ، عوام کو ریلیف دینے کی بجائے لڑائی اور انتشار کی
پالیسی کو پروان چڑھانے والے حکمران پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔اگر
کوئی کرپشن میں ملوث ہے تو اسے اداروں کے سپرد کریں ،اپنے فرائض ادا کرو،اس
میں کسی کے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلاؤ ،عوام کو نوکریاں ،مکان اور ملک
میں استحکام پیدا کرو۔مگر یہاں تو ایک غیر جمہوری ذہن کا مالک ملک کا
سربراہ ہے ،جس کی سوچ اور کردار میں سچائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،عوام
سے بار بار دھوکے کا مرتکب رہا ہے ۔عمران خان کی اصلیت اس بات سے صاف ظاہر
ہو جاتی ہے جب ایم کیو ایم قائدین کو نفیس اور تحریک انصاف اور ایم کیو ایم
کو ایک ہی نظریہ کے دو پرت کہہ ڈالا ہے۔فواد چوہدری کا خیال ہے کہ الطاف
حسین کے جانے سے ایم کیو ایم صاف شفاف سیاسی پارٹی بن گئی ہے ۔ پہلے یہی
پارٹی بھتہ خور ،قاتل ،غدار اور ملک دشمن تھی ۔ملٹری وینگ تھے ، مگر اب وہی
صاف ہو گئی بلکہ تحریک انصاف ان کے نظریات میں زم ہو کر رہ گئی ہے ۔ اب اس
بیانیے پر بھی یو ٹرن لینا پڑ جانا ہے ،کیونکہ مستقبل قریب میں جیسے ہی ایم
کیو ایم نے کروٹ بدلی تو یہی کرپٹ اور بوری بند مافیا بن جائیں گے ۔اب عوام
اتنی بیوقوف ہے کہ ان باتوں پر یقین کر لے ۔کیا الطاف حسین اکیلا بھتہ خوری
،راہ زنی ،بوری بند لاشوں اور ملک دشمنی میں ملوث تھا ،اس کے باقی ساتھی سب
نیک پاک اور نیک کردار کے تھے ،یہ وہی لوگ ہیں جو برس ہا برس سے الطاف
بھائی کے مریدین میں سے تھے بلکہ فرزند تھے ۔
اس میں کوئی شک نہیں اور یہ تاثر درست ثابت ہو رہا ہے کہ نیب عمران خان کی
خواہشات کی تکمیل کے لئے کام کر رہا ہے ۔عمران خان کو لانے والے بھی حیران
اور پریشان ہیں کہ ان سے اتنی بڑی غلطی سرزد کیسے ہو گئی ۔اسی وجہ سے کہا
جاتا رہا ہے کہ اداروں کو حکومت بنانے اور توڑنے میں ملوث نہیں ہونا چاہیے
۔ شفاف انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت جموریت کو مستحکم کرے
گی ،جوڑ توڑ کی سیاست نے ملک کو پہلے بھی نقصانات پہنچائے ہیں ،اگر اب بھی
نہ سنبھال سکے تو آگے سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں ۔فارسی میں محاورہ ہے
کہ’’ خود کردہ را علاجے نیست‘‘یعنی ’’اپنے کئے کا علاج نہیں‘‘۔عمران خان وہ
کچھ بو چکے ہیں جنہیں انہیں کاٹنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ابھی بھی وقت
ہے کہ عوام کی جانب راغب ہو جائیں ،جنہوں نے گرمی سردی آپ کا ساتھ
دیا،پلکوں پر بیٹھایا ،مگر اقتدار سنبھالتے ہی ان سے دوریاں اختیار کر لیں
ان کی چیخیں نکلوا دی،یہ جناب کے مشورے کے بغیر نہیں ہوا ،اس میں اسد عمر
اور ان جیسے شاہ سے زیادہ وفاداروں کے جرم سے بھی زیادہ گھناؤنہ جرم عمران
خان آپ کا ہے،جسے کسی طور پر معاف نہیں کیا جائے گا۔
|