بی جے پی نے ملک کی عوام کو خوب بیوقوف بنایا لیکن جن
لوگوں نے اس کو احمق بنایا ان میں سے ایک نام گری راج سنگھ کا ہے۔ سب سے
پہلے گری راج ہی نے یہ احمقانہ اعلان کیا تھاکہ مودی کے مخالفین کو پاکستان
چلا جانا چاہیئے یا بھیج دیا جائے گا۔ یہ سن کر مودی جی بہت خوش ہوگئےلیکن
یہ بھول گئے کہ سرزمین ہند نہ تو ان کی میراث ہے اور نہ گری راج اس کے
ٹھیکیدار ہیں ۔ مودی جی کے بقول وہ خود اس مکان کے چوکیدار ہیں جس کے
دستوری مالک یہاں کے شہری ہیں ۔ مکان مالک تو چوکیدار سے ناراض ہوکر اس کو
نوکری سے نکال سکتا ہے لیکن چوکیدار کا کوئی بد معاش دوست صاحب ِ مکان کو
ملک بدر نہیں کرسکتا ۔ گری راج سنگھ کی یہ گیدڑ بھپکی دراصل مودی اور شاہ
کو بیوقوف بنانے کے لیے تھی اور وہ اپنی اس سعی میں کامیاب رہے۔ ۵ سال
انہوں نے مرکزی وزیر کی حیثیت سے خوب عیش کیا۔ وہ اگر یہ چال نہ چلتے تو
انہیں منتری تو دور سنتری تک نہیں بنایا جاتا ۔
اس الیکشن سے قبل گری راج سنگھ کے ستارے گردش میں آگئے۔ پٹنہ میں مودی جی
کی فلاپ ریلی سے قبل انہوں نے پھر اعلان کیا کہ جو اس جلسے میں نہیں آئے
گا اسے پاکستان بھیج دیا جائے گا اور عین وقت پر وہ خود بیمار ہونے کے سبب
ریلی میں شریک نہیں ہوسکے ۔ ویسے اچھا ہی ہوا جو وہ بیمار ہوگئے ورنہ ریلی
میں گاندھی میدان کو خالی دیکھ کر ان پر دل کا دورہ پڑجاتا ۔مرکزی وزیر گری
راج سنگھ جو ممکن ہےبہت جلد سابق کہلائیں فی الحال بہت ناراض ہیںکیونکہ ان
کو موجودہ حلقہ انتخاب نوادا سے ہٹا کر بیگوسرائے بھیج دیا گیا ہے۔ ویسے
بیگو سرائے بھی نتیش کمار کے بہار ہی میں ہے کوئی ممتا کے بنگال میں نہیں
لیکن اس کے باوجود مودی کے مخالفین کو پاکستان بھیجنے والا اپنے نئے حلقۂ
انتخاب میں جانے سے ڈر رہا ہے۔ اس خوف کی وجہ وہاں موجود کنہیا کمار ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نےاس حلقۂ انتخاب سے کنہیا کمار کو ٹکٹ دیا ہے۔
اسی کنہیا کمار کو جسے ۲۰۱۵ تک قومی سطح پر کوئی نہیں جانتا تھا ۔
زعفرانیوں نے اسے معتوب کرکے ہیرو بنایا اور اب وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو
زیرو بنارہا ہے ۔
گری راج سنگھ فی الحال کئی خارجی اور داخلی مسائل سے جوجھ رہے ہیں ۔ خارجی
مسائل میں سر فہرستگری راج سنگھ کی نوادہ سے بیگو سرائے منتقلی ہے۔نوادہ نہ
صرف گری راج کا آبائی وطن ہے بلکہ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں اپنے
حلقہ ٔ انتخاب کےرائے دہندگان کو خوش کرنے کی حتی الامکان کوشش بھی کی تاکہ
دوبارہ منتخب ہو سکیں ۔ حلقۂ انتخاب کی تبدیلی سے ان کی پانچ سا لہ محنت
پر پانی پھر گیا ۔ بیگو سرائے کے لوگ نہ تو گری راج سنگھ کو جانتے ہیں اور
نہ ان کے احسانمند ہیں ۔ ایسی صورتحال میں ہندوستان کے اندر ذات پات کا
فیکٹر کام آتا ہے اس لیے کہ لوگ اپنی برادری کے امیدوار کو کامیاب کرنے کی
خاطر اس کی ساری بدمعاشیوں کو نظر انداز کرکےنااہلی کو فراموش کردیتے ہیں۔
بدقسمتی سے گری راج کے سب سے بڑے مخالف امیدوار کا تعلق بھی انہیں کی ذات
بھومی ہار سے ہے ۔ کنہیا کمار کسی اور علاقہ سے وہاں در آمد نہیں کیا گیا
بلکہ وہ لکھئ سرائے کا مقامی باشندہ ہے۔ ایسے میں مشرق کے لینن گراڈکے لوگ
مقامی بھومی ہار کنہیا کو چھوڑ کر باہر کے کنس کو کیوں کر ووٹ کر سکتے ہیں
؟
بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ وہاں ہندوتوا
کے نظریہ کو ذات برادری پر فوقیت حاصل ہے لیکن بی جے پی کے رکن پارلیمان
سبرامنیم سوامی کا یہ کہا کہ ’وہ چوکیدار نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ایک برہمن
ہیں‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ ذات پات کا خناس ابھی ان لوگوں کے رگ و پے سے
نکلا نہیں ہے۔ ملک کا پی ایم چونکہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتا ہے اس لیے
فخر سے اپنے آپ کو چوکیدار کہتا ہے لیکن ایک معمولی ایم پی محض برہمن ہونے
کے سبب چوکیدار کہلانے کو اپنی توہین سمجھتا ہےاور بڑی رعونت کے ساتھ اعلان
کرتا ہے میں برہمن ہوں اس لیے چوکیداربنے بغیر چوکیداری سکھاوں گا ۔ اس طرح
کے ماحول میں یہ توقع کرنا کہ بی جے پی کے غیر بھومی ہار اپنی پارٹی کے
امیدوار کو کامیاب کرنے کے لیے ذات برادری کو بالائے طاق رکھ دیں گے بس ایک
خام خیالی ہے ۔ اگر یہ بات ہوتی تو بی جے پی ہر حلقۂ انتخاب میں رہنے بسنے
والے کی ذات معلوم کرکے امیدوار کا تقرر نہیں کرتی اور وزیر موصوف کو کسی
محفوظ حلقۂ انتخاب میں بھیج دیا جاتا۔
گری راج سنگھ کو بیگو سرائے بھیجنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں میں بھومی
ہاروں کا دبدبہ ہے لیکن گری راج سنگھ کی راہوں میں کنہیا کمار کے علاوہ بی
جے پی کے رجنیش کمار بھی ایک رکاوٹ ہیں ۔ موصوف بیگو سرائے سے بی جے پی
کےبھومی ہار ایم ایل سی ہیں۔ وہ اس بار ترقی کرکے ایوان پارلیمان میں جانے
کے خواہشمند تھے ۔ گری راج سنگھ کی آمد سے ان کے خواب چکنا چور ہوگئے اس
لیے وہ تلملائے ہوئے ہیں ۔ مقامی بی جے پی کارکنان پر رجنیش کی مضبوط پکڑ
ہے کیونکہ وہی ان کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ گری راج سنگھ کو اگر رجنیش سنگھ
کا تعاون نہ ملے تو وہ بنا موت مارے جائیں گے لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے
کہ گری راج سنگھ کی کامیابی رجنیش کا سیاسی مستقبل تاریک کردے گی بصورتِ
دیگر گری راج وہاں سے بوریہ بستر اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے اور رجنیش کا
راستہ صاف ہوجائے گا ۔ ایسے میں کون پاگل اپنے حریف کے لیے کام کرکے اس کو
کامیاب کرےگا ؟ یہی وجہ ہے کہ گری راج سنگھ کو اپنی ہی جماعت اور اپنی ہی
برادری کےرجنیش سنگھ کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
انتخابات میں کامیابی کے لیے صوبائی حکومت کا تعاون بھی بڑا اہم کردار ادا
کرتا ہے۔ اسی لیے بہار میں بی جے پی نے سر جھکا کر نتیش کمار کے ساتھ
معاملہ کرلیا ۔ گری راج سنگھ چونکہ مغرور طبیعت کے حامل ہیں اس لیے انہوں
نے بہارکے وزیراعلیٰ نیتش کمارسے بھی پنگا لے رکھا ہے۔ اس سے پہلے جب نتیش
کمار این ڈی اے کے وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت گری راج سنگھان کی کابینہ میں
وزیر ہوا کرتے تھے ۔ اسی زمانے سےانہوں نے اشونی چوبےکے ساتھ مل کر نتیش کے
ناک میں دم کررکھا تھا ۔ آگے چل کر جب نتیش کمار نے نریندر مودی کے
وزیراعظم کا امیدوار بنائے جانے کا بہانہ بناکر کنارہ کشی اختیار کرلی تو
وہ گری راج سنگھ نریندرمودی کے اندھے بھکت بن کر ان پر ٹوٹ پڑے ۔ ایسے میں
اس بات کا امکان کم ہے کہ سوشاسن بابو پرانی تلخیاں بھلا کر گری راج سنگھ
کی حمایت کریں۔ ان کو اپنے دشمن کی لٹیا ڈبونے میں زیادہ دلچسپی ہوگی۔
مودی مخالفت کے سبب کنہیا کمار مسلمانوں میں جس قدر مقبول ہیں گری راج سنگھ
اتنے ہی ناپسندیدہ ہیں۔ رام نومی کےموقع پربہار کے اندر پھوٹ پڑنے والے
فسادات سے نہ صرف مسلمان نتیش کمار سے دور ہوگئے بلکہ گری راج سنگھ بھی
نتیش کمار پر خوب برسے ۔ اس کے علاوہ دربھنگہ میں مودی چوک کی نامزدگی
کولےکر جو کشیدگی بڑھی اس میں ایک شخص کا قتل ہوگیا ۔ گری راج نے اس کا
فائدہ اٹھا کر حکومت بہار کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ نتیش کمار نے برسوں سے اپنے
چہرے پر جو رواداری کا مکھوٹا چڑھا رکھا تھا وہ پہلی بار این ڈی اے میں
شمولیت کے بعد تار تار ہوگیا ۔ مودی کی مخالفت کرکے انہوں نے مسلمانوں کو
پھر سے فریب دینے کی کوشش کی اور لالو کے ساتھ جب صوبائی انتخاب میں بی جے
پی کو شکست سے دوچار کیا تو ان کی مقبولیت کسی قدر بحال ہوئی ۔ اس کے بعد
جب وہ لالو کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر دوبارہ بی جے پی کے ساتھ گئے تو پھر
مسلمانوں کی نظروں سے گر گئے۔
بیگو سرائے میں بھومی ہاروں کے علاوہ مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی آبادی ہے۔
اس سے قبل ۲۰۰۹ میں جنتا دل (یو) کے مناظر حسن اس حلقۂ انتخاب سے کامیاب
ہوچکے ہیں ۔ گزشتہ مرتبہ وہاں سے آر جے ڈی نے تنویر حسن کو ٹکٹ دیا تھا
اور زبردست مودی لہر کے باوجود وہ صرف ۶۰ ہزار ووٹ سے ناکام رہے ۔ آر جے
ڈی نےپھر انہیں کو میدان میں اتارا ہے۔ اسے امید ہے کہ اس بار تنویر حسن
کامیاب ہوجائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ قومی سطح پر مسلمانوں کے اندر کنہیا
کمار مودی دشمنی کے سبب بے حد مقبول ہیں لیکن بیگو سرائے کے رائے دہندگان
انہیں تنویر حسن پر ترجیح دے کر کامیاب کریں گے اس کی امید کم ہے۔ یہ نہایت
دلچسپ صورتحال ہے جہاں ایک طرف بھومی ہار سماج کے ووٹ گری راج سنگھ اور
کنہیا کمار میں تقسیم ہوں گے وہیں مسلمانوں کے ووٹ بھی مسلم امیدوار اور
کنہیا کمار میں تقسیم ہوجائے گا۔ اس انتشار کا فائدہ کون اٹھائے گا یہ کسی
کو نہیں معلوم لیکن بہرحال ملک کےمسلمان بھی یہ سوچتے ہیں کی کیا سیکولرزم
کاٹھیکہ صرف انہیں کے سر ہے؟ وہ کب تک بی جے پی کوشکست دینے کے لیے اپنی
قوم کے امیدواروں کو ہراتے رہیں گے؟ |