تبدیلی کے دعوے کیا ہوئے؟

تبدیلی حکومت کے اپنے تھنک ٹینک تبدیلی کی اصل یا تو سمجھنے سے قاصر ہیں یا ڈھٹائی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ جب ہم عمران خان کا خطاب سنتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ شخص ہی صرف حالیہ عدم استحکام سے ہمیں نکال سکتا ہے۔ اس میں ایک سچا راہ نما نظر آتا ہے ۔ پوری مسلم دنیا ان کی باتوں اور بیانات پہ بھروسہ کر رہی ہے۔ لیکن یہ کیا کہ عمران خان جو کہتے ہیں اس سے عملاََمنحرف ہو تے ہیں۔ لیکن اگر وہ سب اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے درست سمت کیلئے کرتے ہیں تو یہ پلٹنا برا نہیں اور اگر یہ سب کچھ پھرنے کیلئے کرتے ہیں تو بہت برا کر رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصا ف کو جہاں عمران خان کے بیانات اور ان کی سادہ طبیعت کی وجہ سے مقبولیت ملی ہے وہیں اس جماعت میں موجود کرپٹ ٹولے کے کارکنوں کی وجہ سے آئے دن ان کی مقبولیت کا گراف گرتا جا رہا ہے۔عمران خان نے اس قوم سے نظام کی تبدیلی کی بات کی تھی اور اس بات کا اقرار کیا تھا کہ موجودہ نظام فرسودہ ہے جس میں کبھی بھی یکسانیت نہیں آ سکتی۔ انہوں نے زرداری اور نواز شریف سے عوام کے لوٹے ہوئے پیسے نکلوانے کا وعدہ بھی کیا تھا، تمام بنیادی سہولیات اور قانون سب کیلئے ایک لانے کا وعدہ کیا تھا۔ نام نہاد ، کیچڑ میں لتھڑی جمہوریت سے تنگ عوام نے صرف عمران خان کی ان باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں ملک بھر میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی دلوائی ہے ، پاک فوج بھی پہلی مرتبہ عمران خان کی جمہوری حکومت کا ساتھ دے رہی ہے،لیکن عمران خان کو جوآغاز میں کرنا چاہئے تھا وہ بالکل بھی نہیں ہوا۔ کچھ بھی ایسا نہیں دیا جو عوام کیلئے ہو، اور جو پالیسیاں وہ لے کر چل رہے ہیں ان سے تو ساٹھ سال کی بد نظمی ختم کرنے کیلئے مزید ساٹھ سال لگ جائیں گے۔ اور عمران خان کیا اس چیز کی گارنٹی دے سکتے ہیں کہ وہ اگلے پل زندہ رہیں گے؟

میرا سوال ہے کہ عوام الناس ہی ٹیکس کیوں دیتی رہے؟ ہر بار عوام کی گردن پر چھری کیوں پھیری جائے؟ ہر بار غریب ہی کیوں بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ، ہر بار غریب کی ماں ،بیٹی اور بیوی ہی کیوں ہسپتالوں کے فرشوں پر تڑپ تڑپ کر دم توڑ جائے؟ ہر بار غریب کا بچہ ہی کیوں تعلیم سے محروم رہے؟ ہر بار بے گناہ بیچ سڑک محافظوں کی گولیوں کا نشانہ کیوں بنے؟ میں کہتا ہوں معاشی جنگ جیتنے کیلئے چاہے اسد عمر کتنی اصلاحات لے آئے، چاہے عمران خان کتنی ہی امدا د لے آئیں لیکن جب تک بنیاد یعنی آئین و قوانین میں ترامیم نہیں ہوں گی تب تک عوام کا اعتماد بحال نہیں کیا جا سکتا۔اگر ایک بندے کی آمدنی پچاس روپے اوراس کے اخراجات سو روپے ہوں تو ایک عرصہ وہ سود پر قرض لے سکتا ہے لیکن آخر اسے ادا تو کرنا ہی ہے !ہم مان لیتے ہیں کہ اس شخص کا کوئی دوست ہمدردی سے اس کا سارا قرضہ اتار دیتا ہے، لیکن جب تک وہ اپنی آمدنی نہیں بڑھائے گا تب تک کیاوہ اس دلدل سے نکل سکتا ہے؟اور پھر ہر بار کون اس کی مدد کو آئے گا، آخر ایک دن اس کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ عمران خان نے جو شعور و آگہی کی فضا بحال کی تھی وہ بہت تیزی سے اسی کے خلاف چلنی لگی ہے ، بار بار ٹیکسوں اور مہنگائی اور بنیادی سہولت نہ دینے کی رسم نے ملک بھر میں ایک شورش کو جنم دے دیا ہے جو کسی بھی وقت انقلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ عمران خان بار بار عوام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قربانی دے، کچھ عرصہ اس کا ساتھ دے ، ان شاء اﷲ سب ٹھیک ہو جائے گا، اس بات کے اس حصہ پر پوری قوم کا ایمان ہے کہ اگر اﷲ چاہے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا ، لیکن جنگل کے بندر ڈاکٹر کی اس ٹہنی سے اس ٹہنی کود ، پلٹ کا مطلب محنت کرنا نہیں بلکہ آوارگی اور دیوانگی ہے۔جن نواز اور زرداری سے پیسہ نکلوا کر اور بیرون ملک پاکستانیوں سے عمران خان نے اپیل کرنی تھی وہ سب کہاں ہیں؟ نواز اور زرداری قانون کی پکڑ سے باہر ہیں اور باہر بیٹھے پاکستانی کیسے عمران خان پر اعتبار سجا لیں کہ جب وزیر اعظم نے ابھی تک کچھ عوام کیلئے کیا ہی نہیں؟جن پولیس اصطلاحات کا دعویٰ کیا جاتا تھا اس پر کیا ہو سکا ہے؟ جب پچیس ڈی ایس پیز کا تبادلہ کیا تو عدلیہ نے ان کے فیصلے رد کر دئیے!صحت کیلئے کیا اقدامات کئے گئے سوائے اس کے کہ جو سابقہ حکومت پالیسیاں چھوڑ گئی ! یکساں نظام تعلیم کسے مل سکا ہے؟بی آر ٹی کا کیا بنا؟ خسارے میں گیا سارا منصوبہ ، اس کو بند ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے کیوں کہ اب عوام کو اس سے زیادہ بنیادی سہولت اور بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی نو فیصد رہ گئی ہے ، عوام کیوں ٹیکس دے حکومت کو کہ جب عوام کو کچھ حاصل نہیں، انصاف کس کو مل رہا ہے؟ قانون کب سب کیلئے برابر ہو سکا ہے؟ مرغی چور کیلئے سزائیں اور معاشی دہشتگردوں کیلئے ساری رعائتیں؟ ایسے لوگوں کی اصلیت حکومت سامنے کیوں نہیں لاتی کہ یہ لوگ ہمیں اچھا کرنے سے روکتے ہیں۔ اس گھسے پٹے نظام میں تبدیلی لائے بغیر کیسے ممکن ہے ٹھیک کیا جائے؟مجھے تو لگتا ہے کہ اس حکومت کے پاس کوئی تھنک ٹینک موجود ہی نہیں!

میں یہ نہیں کہتا کہ موجودہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف جیسے اقدامات اٹھائے ہاں مگر اتنا ضرور کرے کہ عوام سے جو اتنا ٹیکس وصولا جا رہا ہے اس کے بدل عوام کو کچھ دے تو سہی۔سب سے پہلے تعلیم و صحت اور انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ جو جتنا زیادہ طاقتور ہے اسے اتنی بڑی سزا دی جائے، لٹیروں پر پکڑ سخت کی جائے، کرپشن کرنے والے کیلئے سزائے موت کا قانون لایا جائے۔ ججز کیلئے احتساب اور ان کی نگرانی کیلئے پالیسیاں مرتب کی جائیں، ہر عوامی نمائندے ، سرکاری افسران و ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مقامی سکول ،ہسپتال سے بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولت دلوائے، جب تک خود کو درد نہیں ہوتا تب تک دوسروں کا درد محسوس نہیں ہو سکتا،پولیس اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کریں اور محنتی طبقے کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ محب وطن ماہرین معاشیات و ٹیکنالوجی پر مشتمل ایک سیل بنایا جائے جو پورے ملک کے اشرافیہ اور سیاسی نمائندوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ ان کی معاشی دہشتگردی کا پردہ فاش کیا جا سکے۔ پاکستا ن برآمدات ڈالروں اور ان کی فرخت روپوں میں کرتا ہے، یہ انتہائی خسارے کی بات ہے، ایسی چیزیں جن کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے ان کی درآمد پر پابندی لگائے اور ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی خریدو فروخت میں اضافہ کیا جائے۔ انڈیا نے بھارتی مصنوعات کی خرید و فروخت کیلئے ایک منظم کیمپین چلائی ، اور بہت فائدہ اٹھایا، انڈیا ہم سے گلابی نمک کوڑیوں کے بھاؤ خرید تا ہے اور اس کو پیک کر کے اپنا ٹھپا لگا کر ڈالروں میں فروخت کرتا ہے، پاکستان خود نمک کی تجارت بڑے پیمانے پر پھیلائے اور بھارت کے ذریعے نمک کی ٹریڈ بند کرے۔جاپان ، جرمنی، چین ، ملائشیاکتنے ہی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے اپنی صنعت کو فروغ دے کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا اور آج وہ ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش جیسے ملک کی معیشت پاکستان سے زیادہ مستحکم ہے۔عوام الناس کا ناس پچھلے ساٹھ سالوں میں مارا جا چکا ہے اب خدارا ان پر رحم کریں۔

Malik Shafqat Ullah
About the Author: Malik Shafqat Ullah Read More Articles by Malik Shafqat Ullah: 33 Articles with 24420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.