ہندوشدت پسند بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پارلیمانی
انتخابات کے پہلے مرحلے سے 3روز قبل انتخابی منشور جاری کیا۔بھاجپا کے
منشور میں مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق دفعہ 370 اور 35 اے ختم کرنے اور
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا عزم دوہرایا گیا۔ بی جے پی صدر امت شاہ
اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پارٹی ہیڈکوارٹر میں دیگر سینئرز کی
موجودگی میں ' سنکلپ پتر' نام سے پارٹی کے انتخابی منشور کا اجراء کیا۔
پارٹی نے رام مندر پر اپنا پرانا موقف دوہراتے ہوئے کہا کہ اس کی تعمیر کے
لئے پرامن ماحول میں تمام امکانات تلاش کیے جائیں گے۔ دوبارہ اقتدار میں
آنے پر وہ مقبوضہ ریاست سے متعلق خصوصی دفعات آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم
کرے گی۔ الیکشن منشور میں واضح کردیا گیا ’’ہم اپنی پوزیشن کو ایک بار پھر
واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جن سنگھ سے لے کر تا ایں دم ہمارے موقف میں کوئی
بدلاؤ نہیں آیا ہے۔ بی جے پی وعدہ بند ہے کہ دفعہ 35Aجو آئین ہند میں ریاست
جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن فراہم کررہی ہے، ملکی عوام کے ساتھ ایک نمایاں
تفریق ہے اور پارٹی اس تفریق کوختم کرے گی‘‘۔ منشور میں 1990میں مقبوضہ
کشمیر سے گورنر جگ موہن کی طرف سے ایک سازش کے تحت نکالے گئے کشمیری پنڈتوں
کا بھی تذکرہ کیا گیا ۔ ’’ہم کشمیری پنڈتوں کی کشمیر واپسی سے متعلق ہر
ممکنہ اقدام اُٹھائیں گے‘‘۔ منشور میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے
شرنارتھیوں کا بھی مسئلہ زیر بحث لایا گیا ۔ پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد
اُن کی فلاح و بازآبادکاری کے لیے مالی امداد بھی فراہم کرے گی۔
ہندو شر نارتھی بنگلہ دیش سے لا کر مقبوضہ کشمیر کے جموں خطے میں بسائے گئے
ہیں ۔ ان کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ بھارت نے ان ہندوؤں کو ایک متنازعہ
خطے میں لا بسایا ۔ اب انہیں سٹیٹ سبجیکٹ اور دیگر مراعات دینے کا اعلان
کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں کسی نے کوئی ردعمل نہ دکھایا۔ نہ ہی کسی نے
اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ پارٹی نے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے اور شہریت
ترمیمی بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے، دہشت گردی پر 'زیرو
ٹالرنس' کی پالیسی جاری رکھنے اور ملک کی سلامتی سے کوئی سمجھوتہ نہ کرنے
کے عزم کا اظہار کیا ۔ یکساں سول کوڈ کا مطلب ہندو انتہا پسند اپنے بغیر
کسی کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہندو انڈیا کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
وہ ہندو قوانین مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں جس کا
نام یکساں سول کوڈ رکھا گیا ہے۔ بی جے پی قوم پرستی کے تئیں پرعزم
ہے۔خواتین کے تحفظ اور تین طلاق کی رسم کو ختم کرنے کے لئے قانون بنانے کا
وعدہ کر رہی ہے۔ وہ لوک سبھا، ریاستی اسمبلی اور مقامی اداروں کا الیکشن
ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر اتفاق رائے بنانا چاہتی ہے۔بھارتی وزیر داخلہ
راجناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ریاست کیلئے علیحدہ وزیر اعظم کی بات
کرتاہے تو دہلی حکومت کے پاس دفعہ 370اوردفعہ 35کی تنسیخ کے بغیر کوئی
متبادل نہیں ۔ گزشتہ دنوں میں نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبد اﷲ مقبوضہ
کشمیر کے لئے وزیراعلیٰ کی جگہ وزیراعظم کے عہدے کی بحالی کی بات کر رہے
ہیں۔ یہ ان کا سیاسی سٹنٹ ہے جیسا کہ ریاستہ اٹانومی کو سیاسی ایشو کے طور
پر آزمایا گیا۔ راجناتھ سنگھ نے اعتراف کیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے کچھ
لیڈران ان کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔اس پر نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق
عبداﷲ کہہ رہے ہیں کہ دفعہ 370کے خاتمے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کا بھارت کے
ساتھ الحاق ختم ہو جائے گا اور ایسا کیا گیا تو ریاست میں بھارت کا جھنڈا
اٹھانے والا کوئی نہیں رہے گااور دفعہ 370کا خاتمہ لوگوں کیلئے’آزادی‘ کی
راہ ہموار کریگا۔انکا کہنا تھا’’کیا وہ(نئی دہلی) یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ
دفعہ 370ختم کریں گے اور ہم خاموش رہیں گے، وہ سراسر غلطی پر ہیں، ہم اسکے
خلاف جنگ کریں گے‘‘۔ اﷲ کا کرنا ہے کہ وہ 370کو ختم کرنے کی کوشش میں
ہیں،انہیں کرنے دیں، یہ آزادی کیلئے راہ ہموار کریں گے‘‘۔ڈاکٹر فارو ق اب
ہوش میں آنے کا ڈرامہ کرتے ہیں’’بی جے پی جو آر ایس ایس کی ایک کڑی ہے،
چاہتی ہے کہ ہمارا وطن ہندوراشٹر بنے اور اس لئے ان سے جموں وکشمیر کے مسلم
اکثریتی ریاست ہونا برداشت نہیں ہورہاہے‘‘۔ ’’یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے آئینی
حقوق اور جھنڈا سب کو دفن کریں‘‘۔ ایک طرف بھاجپا اعلاناً کشمیریوں کی
شناخت اور پہنچان ختم کرنا چاہتی ہے جبکہ کشمیر کے اندر اْن کے آلہ کار اْن
کے خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔یہ اشارہ محبوبہ مفتی اور سجاد غنی لون کی
طرف ہے۔ مگر برسوں تک نیشنل کانفرنس نے ان کے خاکوں میں رنگ بھرا۔ اب سیاست
کے لئے نئے فارمولے پیش کر رہے ہیں۔ جب کہ عوام نے ان سب کو مسترد کیا ہے۔
11اپریل کو مقبوضہ ریاست کے دو پارلیمانی حلقوں بارہمولہ اور جموں کے لئے
بھارتی عام انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ کا ڈرامہ رچایا گیا جس میں کم
لوگ گھروں سے نکلے۔ بھارتی فوجیوں نے الیکشن کے خلاف مظاہرے کرنے والوں پر
اندھا دھند فائرنگ کی۔ پیلٹ گولیاں چلائیں۔ ایک معصوم اور کم سن طالب علم
کو شہید اور لا تعداد کو زخمی کیا۔ اب سرینگر اور اسلام آباد میں مرحلہ وار
الیکشن ہو رہا ہے۔ بندوق کی نوک پر عوام کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں
کو فرضی جھڑپوں میں شہید کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور مودی کے منشور کے
مطابق بھارتی فورسز ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جلیانوالہ باغ امرتسر میں انگریز افسر ڈائر نے 13اپریل1919کو بیساکھی کے دن
ہزاروں افراد کو قتل کیا۔ مگر قاتل ڈائر کو برطانیہ میں ہیرو قرار دیا گیا
اور اس کے لئے خصوصی فنڈ قائم ہوا۔ 100سال بعد بھارت کشمیریوں کے قتل عام
میں ملوث اپنے ڈائرز کو ہیرو قرار دیتا ہے اور انہیں میڈلز اور ترقیوں سے
نوازا جا تا ہے۔ جب کہ ان قاتلوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلا کر ان کو
پھانسی پر چڑھایا جاتا۔ مگر مودی کے منشور میں قاتلوں کو ہیرو کے طور پیش
کیا جارہا ہے۔ پاکستان خاموش ہے اور آزاد کشمیر کی حکومت مذمتی قراردادوں
تک محدود ہو چکی ہے۔ |