حکومت کے پاس کوئی ویژن ہے اور نہ ہی اچھی ٹیم۔
عمران خان نے گزشتہ چار دہایوں سے قائم" اسٹیٹس کو " توڑنے کے لیے دو
دہایوں تک سخت محنت کی اور یوں قوم کو نئی اُمنگ کا حامل بنا کر چھوڑا۔ یوں
مقتدر حلقوں نے بھی عمران خان کو آزمانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ نواز شریف کے
بُرئے دن شروع ہوئے اور اِس کے ساتھ ساتھ زرداری بھی اِسی لپیٹ میں آتے چلے
گئے۔ لیکن عمران خان کی حکومت کی سمت درست نہیں جارہی ہے۔ عمران خان اور
اُس کے وزراء کی جانب سے مسلسل پُرانی حکومتوں کا رونا رویا جارہا ہے اور
عوام کی زندگی کو اُجیرن بنائے رکھاہوا ہے۔ یہ ہے گُڈ گورنس جناب خان صاحب
کی۔ پٹرول کا ہولناک بم گردایا ہے ۔ عمران خان کی نیت پہ کوئی شک نہیں لیکن
عوام کو تو ظلم ہی سہنا پڑ رہا ہے۔ جس طرح نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے کندوں پر
چڑھ کر قوم کے پرتین دہایؤں تک مسلط رہے ۔ نواز شریف نے جیسے ہی خود کو
مدبر سمجھنا شروع کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دیکھانا شروع کیں تونو از
شریف کا زوال شروع ہوگیا ۔ لیکن عمران خان کی مسلسل آٹھ ماہ کی حکومت نے
بھی "اُن" کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ عمران خان سے ملک سنبھالا نہیں جا
رہا ہے۔ مہنگائی ہے کہ تھم ہی نہیں رہی۔ بجلی گیس، ڈالر، پٹرول بم سب کچھ
تو عوام پر قہر بن کر گر رہے ہیں۔ عوام بے چاری کو مانیٹری و فسکل پالیسیوں
سے کیا غرض ۔ اُنھیں اِس سے بھی کوئی غرض نیں کہ افراط زر کی شرح کیا ہے۔
عوام معاشی استحکام کے اشاریوں کے لفظی گورکھ د ھندوں سے بھی نابلد ہیں ۔
اُنھیں تو اتنا پتہ ہے کہ عمران خان کے بڑئے بڑئے دعوے زمین بوس ہوچکے ہیں۔
عمران خان کے پاس معاشی ٹیم نہ ہے ۔ ممی ڈیدی ماحول کے پروان چڑھے ہوئے
اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے بنائے گئے مشیر وزیر ہوا میں گھوڑے دوڑا رہے ہیں
اور قوم کے حال اور مستقبل کے ساتھ مس ایڈوینچر میں مصروف ہیں۔
افسوس موجودہ حکومت نے عوام کو نواز شریف کی یاد دلا دی ہے۔ عوام کے لیے
تبدیل ڈارونا خواب بن کر رہ گیا۔ امن و مان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ گڈ
گورنس نام کی چیز حکومت میں ہے نہیں۔ نوکر شاہی میں بے چینی عروج پر ہے۔
انتہائی شریف النفس عثمان بزدار نے خاموشی کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے اراکین
کی تنخواؤں اور اپنی مراعات میں اضافے کے لیے جو کچھ بھی کیا وہ یقینی طور
پر وسیم اکرم پلس کا کیا دھرا ہی ہوسکتا ہے۔ عوام کو معاشی طورپرکوئی ریلیف
نہ دئیے جانے بلکہ مہنگائی بم گرائے جانے کے بعد عمران خان کو اب تبدیلی کے
نام کو اپنی زبان پر نہیں لانا چاہیے۔ عمران خان کو پوری قوم سے معافی
مانگنی چاہیے اور اُن سے بھی جن کے کہنے پہ ق لیگ، ایم کیو ایم، آزاد عمران
خان کے ساتھ ملائے گئے تھے اُن سے بھی معافی مانگنی چاہیے۔ اسد عمر، جیسے
معاشی مشیر کو فوری طور پر فارغ کر دینا چاہیے۔پولیس ریفارمز کہاں گیئں۔
غریب کل بھی بے آسرا تھا آج بھی اُس کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ عوام شہباز
شریف کو یاد کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف سے کیا جارہا ہے۔
بچارے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عمران رے عمران تیری کون سی کل
سیدھی۔ مہنگائی کا طوفان ہے اور ہم ہیں دوستو۔آرمی چیف کو چاہیے کہ فوری
طور پر تمام قومی حکومت کے قیام کا اعلان کرئے اور اپنی فیلڈ کے ماہرین کو
اور کرپشن سے پاک سیاستدانوں، بیوروکریٹوں کو حکومت میں شامل کرئے۔اور
کرپشن کی رقم خواہ وہ زردار ی کے پاس ہے یا شریف خاندان کے پاس کسی کے پاس
بھی اُن سے چھین لی جائے۔عوام مہنگائی کے ہاتھوں بے حال ہوچکے ہیں۔
عمران خان کی حکومت آئی ایم ایف سے پیکج لے رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے
کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام پر اصولی اتفاق ہو گیا ہے، اگلے دو
دن میں یہ پروگرام مکمل ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف کا مشن اگلے چند ہفتوں میں
پاکستان آئے گا اور حکومت کے ساتھ تکنیکی تفصیلات طے کی جائیں گے۔ استعفے
کی باتیں غلط ہیں، کہیں نہیں جا رہا۔ انہوں نے کہا پروگرام جلد مکمل ہو
جائے گا۔ پروگرام سے پاکستانی معیشت میں جلد بہتری آئے گی، آئی ایم ایف کی
شرائط سے پہلے ہی بنیادی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں اور اگلا کام بنیادی
ڈھانچے میں اصلاحات کا کرنا ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے ادائیگی کے توازن میں
بحران سے گزر رہا ہے، پاکستان میں سٹرکچر کی سطح پر کچھ چیزیں غلط ہیں، کچھ
فیصلے اور لوگ ہیں جن کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گیا۔
پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں کو بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا۔
خطرناک حد تک ادائیگیوں کے توازن کا بحران تھا جس سے نمٹنے کے لیے اقدامات
لیے اور قیمتوں میں اضافے سے متعلق اقدامات پہلے ہی لیے جا چکے ہیں، ہم نے
آپشنز پیدا کیے تھے اس لیے فوری طور پر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں کیا،
معیشت میں ایسے اقدامات لینے پڑتے ہیں۔ پہلے آئی ایم ایف کی تجاویز پاکستان
کی معیشت کے لیے بہتر نہیں تھیں، اس لیے اس وقت تک معاہدہ نہیں کیا جب تک
وہ ہمارے سامنے ایسی تجاویز نہ رکھے جو معیشت کی بہتری کے لیے ہوں۔ فروری
میں جاری کھاتوں کا خسارہ پچھلے سال کے مقابلے میں 72 فیصد کم تھا اور ہر
ماہ تجارتی خسارے میں کمی آرہی ہے اور قلیل مدتی فنانسنگ کا بھی انتظام
کرلیا، آئی ایم ایف پروگرام معیشت کو بہتری کی طرف لے جا سکے گا۔
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان تعلق کوئی نئی بات نہیں، دونوں
ایک دوسرے سے سال 1958 سے جڑے ہیں، اس دوران دونوں کے مابین 21 بار قرضوں
کے لین دین کے معاہدے ہوئے۔عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) ایک عالمی
تنظیم ہے، دنیا بھر کے 189 ممالک اس کا حصہ ہیں۔ آئی ایم ایف مختلف ممالک
کی اندرونی معیشتوں اور ان کی مالیاتی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ اور
بیرونی قرضہ جات پر نظر رکھتا ہے اور ان کی معاشی ترقی اور مالی خسارے سے
نبٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔دیے جانے والے بیل آوٹ
پروگرامز کے تحت آئی ایم ایف سرمائے کی فراہمی اور ان مراعات کو حاصل کرنے
والے ممالک سے مختلف اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ یہ ادارہ تین
طریقوں سے ممبر ممالک کی مدد یا قرضے فراہم کرتا ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ
ممبر ممالک کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں اور سرگرمیوں پر نظر رکھتا
ہے۔ایسے ممالک جنہیں معاشی بحران کا سامنا ہو، وہ ان ممالک کو کچھ شرائط پر
مبنی قرضہ فراہم کرتا ہے۔
آئی ایم ایف اپنی معاشی تیکنیکی معاونت سے ممبر ممالک کے اداروں اور لوگوں
کو سہولت فراہم کرتا ہے اور انہیں جدید حالات کے مطابق معاشی اور اقتصادی
پالیسیاں استوار کرنے میں مدد دیتا ہے۔پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے
اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے قرضے لے چکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ قرضے سال
2013ء میں لیے گئے تھے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مختلف صورتوں میں قرضے
فراہم کیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا ہمیشہ سے ہدف ہوتا ہے کہ سرکاری
اخراجات میں کمی کے ذریعے ادائیگیوں کا توازن بحال کیا جائے۔ آئی ایم ایف
حکومتوں کو خرچ کرنے میں اتنی زیادہ احتیاط برتنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس
کی وجہ سے مالیاتی نظام پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ معاشی ترقی
کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔جنرل ریسورس اکاونٹ کے تحت قرضہ لینا۔اس پروگرام
کے تحت امیر ممالک آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرسکتے ہیں۔پی آر جی ٹی کے تحت
قرضے کی فراہمی۔اس پالیسی کے تحت وہ ممالک جو غریب یا انتہائی غریب ہیں اور
اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے ممالک کو آئی ایم ایف کی
جانب سے نسبتاً کم انٹرسٹ ریٹ پر قرضہ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ قرضہ صرف غربت
کے خاتمے کیلئے کیے جانے والے اقدامات کی مد میں ہی استعمال ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف جی آر اے اور پی آر جی ٹی کے تحت 10 مختلف پروگرامز چلاتا ہے۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے جی آر اے اور پی آر جی ٹی کے تحت چلنے والے 4
پروگرامز کی مد میں قرضہ لیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم
ایف سے لیے جانے والے تمام 21 قرضے بیل آوٹ پیکجز نہیں، تاہم حالیہ لیا
جانے والا قرضہ اقتصادی ماہرین کی نظر میں بیل آوٹ پیکج ہے۔ پاکستان نے آئی
ایم ایف سے 12 اسٹینڈ بائے اگریمنٹس کیے تھے جنہیں معاشی ماہرین عرف عام
میں بیل آؤٹ پیکج کہتے ہیں۔
آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی واپسی کیلئے ساڑھے تین سے پانچ سال کا ہدف
مقرر کیا جاتا ہے، جس کے تحت چھوٹے اور درمیانی درجے کے قرضے فراہم کیے
جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضے کی فراہمی کیلئے تین سال کی مدت دی
جاتی ہے، تاہم 12 سے 18 ماہ میں ہی قرضہ فراہم کردیا جاتا ہے۔ جی آر اے کے
تحت ملنے والے قرضے صرف غریب ممالک کیلئے ہی نہیں ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے دیگر 9 پروگرامز کا مقصد غربت میں کمی لانا، بنیادی معاشی
ڈھانچوں میں اصلاحات لانا، ملکی مالیاتی بحران پر قابو پانا، اور کمزور
معیشتوں کو بہتر اور عالمی سطح پر استوار کرنا ہوتا ہے۔عام طور پر ہوتا یہ
کہ حکومتیں آئی ایم ایف سے قرض کی کڑوی گولی اسی وقت لیتی ہیں جب معیشت کے
حالت خراب ہو۔ ملک معاشی حالت کی خرابی ایک حد تک تو برداشت کر لیتے ہیں
لیکن جہاں انہیں احساس ہو کہ اب معاملہ معاشی عدم استحکام کی طرف جا رہا
ہے، وہ کسی بھی قیمت پر اس خرابی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں، معاشی عدم
استحکام بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ماہرین جو شرائط نامہ قرض کی
رقم کے ساتھ قرض خواہوں کے ہاتھ میں تھماتے ہیں اس میں فوری طور پر ایسے
اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جو معاشی عدم استحکام کو، جس میں
بیرونی قرضوں اور اندرونی اخراجات کی ادائیگی وغیرہ شامل ہے، ختم کیا جا
سکے۔ یوں پاکستان سمیت کئی ملکوں کی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ آئی
ایم ایف نے انہیں بحرانوں سے نکالا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کیلئے لیے جانے والے قرضوں کی بات کی جائے
تو ایک دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان
کو ملنے والے قرضے طویل اور بڑے ہوتے ہیں۔ طویل سے مراد قرضوں کی واپسی کا
عمل ہے۔ مثلاً سال 1958 سے 1977 کے درمیان اس کی مدت ایک سال تھی۔ دوسری
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران لیے گئے تمام قرضے بیل آوٹ پیکجز یا اسٹینڈ
بائے معاہدے تھے۔سال 1980 سے سال 1995 کے درمیان پاکستان آئی ایم ایف کے 7
پروگرامز سے منسلک رہا، جن میں سے ایک کے سوا سارے قرضوں کی واپسی کی معیاد
ایک سے دو سال رہی۔سال 1997 سے سال 2013 میں ن لیگی حکومت کے برسراقتدار
آنے کے بعد آئی ایم ایف سے 6.4 ملین کا لون لیا گیا، جو آئی ایم ایف کے 6
مختلف پروگرامز کے تحت حاصل کیا گیا، ان میں ایک کے سوا سارے پروگرامز کی
میعاد تین سال تھی۔ تاہم حالیہ دنوں میں پاکستان 13ویں بار بیل آوٹ پیکج
کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جائے گا، جو عالمی مالیاتی فنڈز کے تحت پاکستان
کا 22 واں قرضہ ہوگا۔
پاکستان نے پہلی بار ستّر کی دہائی میں آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا، جس کے
بعد سے اب تک ہر آنے والی حکومت نے اس قرض کا مزہ چکھا ہے، سوائے جنرل ضیا
الحق کے دور حکومت کے، کیوں کہ اس زمانے میں افغان جنگ کی وجہ سے ملک میں
ڈالر کی اتنی ریل پیل تھی کہ انہیں قرض لینے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں
ہوئی-
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کی سربراہ کریسٹین لیگارڈ
کی دبئی میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان میں زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے
ذخائر کے بارے میں مذاکرات ہوئے۔اب تک یہ ذخائر گر کر آٹھ ارب ڈالرز تک
پہنچ چکے ہیں جو صرف دو ماہ کی درآمدات کی ادائیگیاں کرسکتے ہیں۔آئی ایم
ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد ایک
بیان میں کہا ہے کہ 'اس ملاقات میں ہم نے حالیہ اقتصادی پیش رفت اور
پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات کی پیش رفت پر بات چیت
کی۔'’میں اس بات کو دہراتی ہوں کہ آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کیلئے تیار
ہے۔ میں ان فیصلہ ساز پالیسیوں اور اقتصادی اصلاحات کے پیکیج کی بھی
نشاندہی کرتی ہوں جو پاکستان کے مالی استحکام کو بحال کرے گا اور پسماندہ
طبقوں سمیت سب کی ترقی کیلئے ترقی ایک بنیادی ڈھانچہ بنائے گا۔'آئی ایم ایف
کی سربراہ نے مزید کہا کہ 'جیسا کہ نئی حکومت کے پالیسی ایجنڈا میں کہا گیا
ہے کہ غریب کو تحفظ دینا، بہتر گورننس کو موثر بنانا اور پائیدار انداز میں
عام لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا پاکستان کی کلیدی ترجیحات ہیں۔'
اسد عمر کا کہنا ہے کہ اب دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہوا نظر آرہا
ہے۔ہمارے اختلافات اب بہت کم ہو چکے ہیں'اب دکھائی دے رہا ہے کہ ہم ایک
معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔'
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کیلئے مذاکرات گذشتہ برس اگست
میں پی ٹی آئی کی حکومت کے بنتے ہی شروع ہو گئے تھے لیکن دونوں کے درمیان
اصلاحات کی نوعیت اور رفتار پر اختلافات کی وجہ سے امدادی پیکیج پر معاہدہ
پھنسا ہوا ہے۔پاکستان کے وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ اصلاحات پر آئی ایم سے
اب اختلافات کم ہو رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ پاکستان ٹیکس کی وصولی کے نظام کو بہتر کرے،
بیرونی ممالک کی کرنسیوں کے ذخائر میں اضافہ کرے اور بیرونی ادائیگیوں اور
آمدن میں خسارے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرے جو اس برس پانچ فیصد سے بڑھ
جانے کا امکان ہے۔پاکستان کے حکام کا موقف ہے کہ وہ اصلاحات کیلئے راضی ہیں
لیکن ایسی شرائط قبول نہیں کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے اقتصادی ترقی کے
راستے مسدود ہو جائیں، کیونکہ اس برس پہلے ہی سست شرح نمو، یعنی پانچ
اعشاریہ دو فیصد سے کم ہو کر چار فیصد کا ہدف ہے۔عمران خان بیرونی قرضوں کے
خلاف رہے ہیں۔ ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ مانگنے
کے بجائے خودکُشی کرنا بہتر سمجھیں گے۔تاہم پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر
کی کمی نے اور بیرونی ادائیگیوں اور آمدن کی کمی کی وجہ سے انھیں مجبور
ہونا پڑ رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی مدد حاصل کریں۔
اب جبکہ آئی ایم ایف سے پاکستان کا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے، پاکستان
اپنی کوششوں سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے عرب اتحادی ممالک اور دیرینہ دوست چین
کی مدد سے اب تک دس ارب ڈالرز کے قرضے یا تو حاصل کرچکا ہے یا ان کے
انتظامات کرچکا ہے۔
موڈیز نے بھی پاکستان کے بینکوں کی مالیاتی ساکھ کی ریٹنگ کم کی ہے۔پاکستان
کی گرتی ہوئی ساکھ پاکستان کی کمزور مالیاتی حالات اس بات سے ظاہر ہوتی ہے
کہ مالی ساکھ کو ماپنے والی بین الاقوامی ریٹنگ ایجینسی موڈیز نے پاکستان
کے بینکاری کے نظام کی ریٹنگ کم کردی ہے۔انھوں نے اس کی وجہ ان بینکوں کے
پاس سرکاری بانڈز کی تعداد بڑھ جانے کو بتایا ہے جس کی وجہ کم شرح سود پر
ان بانڈز کو خریدنا ہے۔موڈیز کا کہنا ہے کہ دسمبر سنہ 2017 سے لے کر فروری
سنہ 2019 تک پاکستانی روپہ کی قیمت امریکی ڈالرز کے مقابلے میں تیس فیصد
گری جبکہ اسی دوران شرحِ سود 450 بیسِس پوائنٹ بڑھی ہے۔اس کے علاوہ افراطِ
زر میں اضافہ ہوا ہے اور یہ وہ تمام باتیں ہیں جو سرمایہ کار کے اعتماد کو
کمزور کرتی ہیں۔اس سے پہلے ایک اور ریٹنگ ایجنیس سٹینڈرڈ اینڈ پُور بھی
پاکستان کی ریٹنگ کو یہ کہتے ہوئے کم کرچکا ہے کہ اقتصادی شرخ نمو کم ہے
اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔اسکے فوائد اور نقصانات کے بارے
میں دلائل کا سلسلہ جاری ہے لیکن بیشتر ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ
پاکستانی معیشت کو درکار کیش فوری طور پر نہ ملنے کی صورت میں جو نقصان ملک
اور بالخصوص غریب طبقے کو برداشت کرنا پڑتا اسکے مقابلے میں آئی ایم ایف کے
ساتھ اس معاہدے کی شرائط پر عمل کی صورت میں ہونے والے مضر اثرات کہیں کم
ہیں۔یہ وہ صورتحال تھی جس کی بنیاد پر حکومت نے اعلان کیا کہ وہ آئی ایم
ایف کے ساتھ ’بادل ناخواستہ‘ قرض کے حصول کے لئے معاہدہ کر رہی ہے۔ ایسا
حکومت نے تیسرے اور آخری آپشن کے طور پر کیا۔ پہلے دو آپشنز میں دوست ممالک
اور نرم شرائط پر قرض دینے والے ادارے شامل تھے لیکن یہ آپشنز زیر عمل نہیں
آسکے۔
آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی ادارے سخت مالیاتی نظم قائم کرنے اور
اخراجات کم کرنے پر زور دیتے ہیں جس سے بالعموم قرض لینے والے ممالک میں
اقتصادی ترقی کی شرح (جی ڈی پی) کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ جس سے بیروزگاری
کی شرح میں اضافے جیسے منفی اثرات معیشت پر پڑ سکتے ہیں۔
کمزور مالیاتی پوزیشن کے باعث پاکستان کو ویسے بھی اپنی اقتصادی شرح نمو کی
رفتار کم کرنی ضروری ہے کیونکہ تیز رفتار معیشت کو جس ’کیش فلو‘ کی ضرورت
ہوتی ہے وہ پاکستان کو دستیاب نہیں ہے۔ مزید یہ کہ تیز رفتار معیشت مہنگائی
کو بھی جنم دیتی ہے۔
اسکے برعکس اگر پاکستان یہ قرض نہ لیتا تو اگلے ماہ اسے غیر ملکی قرض واپس
نہ کر سکنے والے ممالک یا غیر ملکی قرض کے تعلق سے دیوالیہ ملکوں کی فہرست
میں شامل کر دیا جاتا۔
اسکے نتائج کی فہرست بہت طویل ہے جس میں غیرملکی سرمایہ کاری کا فقدان،
قرضوں کی عدم دستیابی، ترقیاتی پروگراموں کی بندش، تجارتی مسائل وغیرہ شامل
ہیں۔
افراط زر کی شرح میں ناقابل یقین حد تک اضافے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔بین
الاقوامی تجارتی اور مالیاتی روابط منقطع ہونے کے بعد پاکستان کو اپنے روز
مرہ کے اخراجات سے نمٹنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مقامی کرنسی چھاپنے کے
علاوہ کوئی اور آپشن نہ ہوتا اور نتیجہ یہ ہو سکتا تھا کہ افراط زر کی شرح
جو اس وقت پچیس فیصد کے قریب ہے، وہ بڑھ کر کئی سو فیصد تک ہو سکتی
تھی۔افراط زر میں اس غیر معولی اضافے کا سب سے زیادہ نقصان متوسط اور غریب
طبقے کو ہوتا ہے۔دوسری جانب مالیاتی نظم سخت کرنے سے افراط زر کی شرح میں
کمی کا سلسلہ بہت سست روی سے شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں اس
ہفتے اس کی شرح میں معولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔آئی ایم ایف کے پروگرام میں
شمولیت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پروگرام پر عمل کرنے کی صورت میں
اقتصادی نمو کی شرح کم ہونے کے علاوہ صنعتی پیداوار کا گراف بھی گرنا شروع
ہوتا ہے جس سے بیروزگاری کی شرح بڑھتی ہے۔حکومت کو بجلی، گیس وغیر پر دی
جانے والی رعایتی قیمت (سبسڈی) واپس لینا پڑتی ہے جس سے انکی قیمت میں بھی
اضافہ ہوتا ہے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کی کوشش میں ترقیاتی اخراجات بھی
کٹوتی کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر
ممالک کے آئی ایم کے ساتھ پروگرام شروع کرنے سے طویل مدت میں انکی معیشت پر
اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ پاکستان کا بھی ہے۔ |