روسو کامشہورقول ہے کہ (نمائندگان جمہورکوایک محدود مدت
کے لئے)اقتدارمنتقل ہوتا ہے،منشا ومرضی منتقل نہیں ہوتی!موجودہ حکومت ایک
طرف مہنگائی کے ذریعہ عوام کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے تودوسری طرف نظام
حکومت چلانے کے لئے مزیدقرض لینے پرمجبورہے۔جس کے لئے جگہ جگہ دوست ممالک
سے مدد مانگنے کے بعد اب قرض لینے کے لئے گارنٹی کے طورپرمزیدمہنگائی
اورٹیکس درٹیکس سمیت ہرقسم کے دیگر ظلم پرمبنی اقدامات پر اتفاق کیاجارہا
ہے۔مگریہ بات ارباب اختیار کوخوب جان لینی چاہیے کہ مملکت کے ہرباشندے کی
عزت وآبرو،جائیدا د،مال و جان کی حفاظت، حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ
روزگار کی فراہمی، ضروریات زندگی کے حصول میں آسانی پیداکرنا ،مہنگائی
کنڑول کے اقدامات سمیت دیگردرپیش مسائل اورمشکلات کا حل مملکت کے فرائض میں
شامل ہے۔بے شک مالی مسائل سے صرف نظرممکن نہیں،مگرنیک عزائم کی تکمیل کے
لئے نیت ،ارادے،جذبے اور انسانی کاوشوں کی بڑی اہمیت ہے۔
عوام کے ووٹ اورحمایت سے بننے والی حکومتیں عوام کوریلیف دینے کے بجائے ،اُلٹاانہی
کے لئے مشکلات میں اضافہ کاباعث ہی کیوں بنتی ہیں۔اقتدارمیں آنے کے
بعدحکمران کیوں بھول جاتے ہیں کہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے
جووعدے کئے تھے ،مکمل نہ ہونے کی صورت میں وہ نااہل تصورہوں گے اوراپنی
کوتاہیوں اورغفلت کے سبب اﷲ عزوجل کی پکڑسے بچ نہیں سکیں گے۔
پٹرول مہنگا ہونے سے کرایوں میں اضافہ اور ترسیل اشیاء میں اخراجات بڑھنے
سے عام استعمال کی ہرچیزمہنگی ہونالازمی بات ہے ۔اس کے ساتھ بجلی ،گیس کے
بل اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ متوسط طبقہ کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے، بلکہ
عملی طور اس وقت ملک میں دوہی طبقات رہ گئے ہیں، جاگیردار، وڈیرے،اشرافیہ
وحکمران اور سرمایہ دار یا پھرخط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے بے بس
وبے کس عوام،جن کی کمر روزبروزبڑھتے بلوں اورمہنگائی نے توڑڈالی ہے۔بے حسی
اوربے رحمی کی حدہوگئی کہ وہ دوائیں مہنگی کردی گئیں جوایمرجنسی میں کام
آتی ہیں۔ نئے مالی سال کے بعدمزیدمہنگائی کاسیلاب نظرآئے گا۔مسائل زدہ عوام
کی موجودہ حکومت سے مایوسی روزبروزبڑھتی جارہی ہے۔ابھی توگرمیوں کا آغاز ہے
،جوں ہی گرمی میں اضافہ ہوگا،انرجی بحران سراُٹھائے گا،عوام کے
دکھوں،تکلیفوں میں رہی سہی کسرپوری ہوجائے گی۔نئے پاکستان میں نیاکچھ بھی
نہیں،یہ بات صرف سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ اب تو حکومت کے اپنے حمایتی
بھی کہنے لگے ہیں کہ ان لوگوں کے بھی نعرے اورتبدیلی کے ڈھکوسلے صرف اقتدار
حاصل کرنے کے لئے تھے۔
آخرہربارعوام ہی پیٹ پرپتھرکیوں باندھیں؟جبکہ سرمایہ داروں کومراعات دی
جارہی ہیں اورجنہوں نے پاکستان کولوٹا،قرضے لے کرہڑپ کئے، اُن سے تواب تک
ایک پائی بھی وصول نہیں کی گئی،ان کے کرتوتوں کی سزاغریب عوام کوکیوں دی
جارہی ہے؟قرضے کھانے والوں کی آئندہ نسلیں بھی سنورگئیں اور اس ملک کی غریب
عوام کی آنے والی نسلیں بھی مقروض سے مقروض ترہوتی جارہی ہیں۔عوام کی حالت
قابل رحم ہے،بے روزگاری میں خطرناک حدتک اضافہ ،لاکھوں بے روزگار نوجوان
نوکری کے لئے دربدرپھررہے ہیں۔حکمران نئی نوکریاں اورروزگارکیا دیتے ،جن
لوگوں کاجوتھوڑابہت روزگارچل رہاتھا،وہ بھی مہنگائی کے ہاتھوں ختم ہوکررہ
گیاہے۔
غریب کسان اورکاشتکار پانی نہ ملنے کی وجہ سے چاول کی فصل کاشت نہ کرسکے
اوراب گندم کی وہی سابقہ قیمت برقرار ہے جبکہ کھادوں کی قیمت آسمان سے
باتیں کررہی ہے، ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توکسان ہے، کسان بیچارادن رات
انتھک محنت کرنے کے باوجوداپنے بچوں کی کفالت تک نہیں کرپاتا،تعلیم ،صحت
اوربنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔بلکہ حقیقت تواس سے بھی کہیں زیادہ
اذیت ناک ہے کہ غریب کاشتکار اپنے بچوں کا دووقت پیٹ بھی صحیح طورپرنہیں
بھرسکتا۔غریب انسان خود توبھوک برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے بچوں کواس حال
میں نہیں دیکھ سکتا۔مزدوراورتنخواہ دار طبقہ کا حال بھی اس سے مختلف
نہیں،سرمایہ دار، تاجرطبقہ ان غریب کسانوں کااستحصال کررہا ہے۔اس مسلسل
استحصال، حق تلفی ،ٹیکسوں کی بھرمار اورمہنگائی ملک کی اکثریت کواحساس
محرومی کی طرف لے کرجارہی ہے۔
سابق وزیراعلی پنجاب میاں محمدشہبازشریف کے دور میں پانچویں اورمڈل سینڈرڈ
امتحان میں پوزیشن ہولڈرز کو نقد انعامات ، وظائف اورمالی امداد دی جاتی
،لیپ ٹاپ جیسی سکیم کے ذریعہ غریب والدین کے بچوں کے لئے ایک حدتک سہولت
پیدا ہوئی اورجوعام گھرانوں کے بچوں کے لئے جدیدطریقہ تعلیم میں کافی حدتک
معاون ومددگاررہی،اسی طرح چوہدری پرویزالہی جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے
توتمام درسی کتب بلاقیمت بچوں کومہیاکی جاتیں اوربعض سکولوں میں دوپہرکا
کھانامہیاکرنے کابھی تجربہ کیاگیا۔فرض کریں ان اقدامات کے نتائج توقعات کے
مطابق سوفیصدمثبت نہ بھی نکلے ،پھربھی کسی حدتک عام عوام کی جائزمددکاذریعہ
توتھا۔جس سے غریب والدین کے لئے اپنے بچوں کومزیدتعلیم جاری رکھنے کاحوصلہ
پیدا ہوتا اورمعصوم بچے پڑھائی میں مزیددلچسپی لیتے۔ ابتدائی سطح پرتعلیمی
میدان میں مقابلے اورایک دوسرے سے سبقت لینے کی فضاء پیداہوتی،یہی بچے شوق
سے تعلیم حاصل کرتے اورغریب والدین بچوں کوکام پرلگانے کے بجائے سرکاری
سکولوں میں داخل کروانے لگے،ان اقدامات سے سرکاری سکولوں میں داخلہ کی شرح
میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔
تخت لاہور کے موجودہ حکمرانوں کا ویسے توہرشعبہ میں نااہلی اورناکامی
کاجادوسرچڑھ کربول رہاہے ۔لیکن کم ازکم تعلیم کے شعبہ میں توکچھ مثالی
کردارادا کرتے ،کہ اس شعبہ میں توسابقہ حکمرانوں سے سبقت لے جاتے
اورمفادعامہ کے اقدامات سے کمی کوتاہیوں کودورکرکے ان میں بہتری لاتے،مگر
موجودہ حکومت کی تعلیم دوستی کا یہ حال ہے،کہ اس تبدیلی سرکار نے پانچویں
اور مڈل سٹینڈرڈ امتحانات میں پوزیشن ہولڈرزکے لئے انعامات ،وظائف اورحوصلہ
افزائی تودورکی بات ،اس سال فنڈزکی کمی کابہانہ بناکر )مڈل
سینڈرڈامتحانات2019 ) کے نتائج پرسرے سے کوئی تقریب ہی منعقدنہیں کی گئی۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ تعلیم کے حصول میں معاونت کے طورپراچھے نمبرحاصل
کرنے والے بچوں کی جائزحوصلہ افزائی کی جاتی اوروظیفہ کی صورت میں امدادکے
طورپردی جانے والی رقم میں جائز اضافے کے ساتھ پانچویں اورآٹھویں کے طلباء
و طالبات کی حوصلہ افزائی کاسلسلہ جاری رکھتی، مگرحکومت پنجاب نے وہ وظائف
جومیاں محمد شہبازشریف کے دور ِ حکومت میں جاری ہوئے تھے اُن کے بھی فنڈروک
دیئے ۔
کیا یہ غریب عوام کے معصوم بچوں کی حق تلفی نہیں؟آخرہرمعاملے میں عوام کی
حق تلفی کیوں اورصرف غریب عوام ہی پیٹ پرپتھرکیوں باندھیں؟ اقتدارمیں آنے
کے بعدحکمران کیوں سمجھتے ہیں،کہ اب ہماری حکومت ہے ،لہذا ہماری مرضی ومنشا
،ہم جوچاہیں کریں ،ہمیں روکنے ٹوکنے والاکوئی دوسراکون ہوتاہے ۔ مگریادرہے
حکومت کے قائم ہونے سے لے کرحکومت کے استحکام تک عوامی حمایت درکارہوتی ہے
۔عوامی حمایت سے محرومی کے بعداقتدارسے محرومی میں دیرنہیں لگتی ۔ عوامی
حمایت کا راز مفاد عامہ میں ہے،کوئی انہیں بتائے کہ جمہوریت میں ذاتی منشا
ومرضی نہیں چلتی ۔مروسو کامشہورقول ہے کہ (نمائندگان جمہورکوایک محدود مدت
کے لئے)اقتدارمنتقل ہوتا ہے،منشا ومرضی منتقل نہیں ہوتی! |