مملکت خداداد کو درپیش مسائل کے حل میں ناکامی کا سبب
موجودہ وفاقی پارلیمانی نظام کو قرار دیا جا رہا ہے اور ایک دفعہ پھر ملک
میں نظام کی تبدیلی کی صدائیں زبان زد عام ہو رہی ہیں ،مقتدر حلقوں کی نجی
محفلوں سے لے کر ریاستی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے عوامی حلقوں میں
صدارتی نظام کی واپسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔بعض حلقوں میں صدارتی نظام
کوشخصی آمریت سے جوڑا جا تا ہے جبکہ بعض حلقے اسے اسلامی نظام سے تشبیہ دے
رہے ہیں ۔ملک میں ایک نئی بحث جنم لے چکی ہے جبکہ مقتدر حلقوں میں پاکستان
پیپلزپارٹی کے سوا کوئی سیاسی جماعت اس ایشو پر کھل کر بات نہیں کرپا رہی
یا کرنے نہیں دی جا رہی۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ قیام پاکستان کو سات دہائیاں گزر چکیں لیکن آ ج
بھی ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ریاست کو چلانے کے لیے کونسا نظام ہونا
چاہیے اور شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم مرض کی تشخیص کرنے کی بجائے
اندازوں پر مبنی ادویات کے تجربات کر رہے ہیں ۔ آج پاکستان قیام گاہ سے
زیادہ تجربہ گاہ نظر آرہا ہے جہاں ہر آنیوالی دہائی میں ایک نیا تجربہ کیا
جاتا ہے ، نئے نظام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ، نئی امیدیں وابستہ کی جاتی
ہیں، نئے خواب دکھائے جاتے ہیں اور نئی منزلوں کا تعین کیا جا تا ہے لیکن
ناکامی کے بعد دوبارہ واپسی اسی نظام کی طرف آجا تے ہیں ، یہ ہر دس سال بعد
ہی کیوں ہوتا ہے، ہم ایک ہی دائرہ میں کیوں گھوم رہے ہیں ؟
آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، قائد اعظم کے چودہ نکات کو پڑھ لیں
، قرارداد مقاصد کا متن لے لیں ،آ پ کو وفاقی جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ
صوبوں کو مکمل خود مختاری دینے کا عزم واضح نظر آئے گا لیکن قائد کی زندگی
نے وفا نہ کی ۔ان کی آنکھیں بند ہونے کی دیر تھی کہ اقتدار کے ایوانوں میں
بیٹھے حوس کے پجاریوں نے سازشوں کے ایسے جال بننا شروع کیے کہ خدا کی پناہ
۔47ءمیں ملک آزاد ہوا، ملکی آئین کی تیاری اپنے آخری مراحل میں تھی کہ
دستورساز اسمبلی توڑ دی گئی ، معاملہ عدالت چلا گیا ۔سندھ ہائیکورٹ نے
اسمبلی بحال کر دی لیکن چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس منیر احمد نے سندھ
ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کو درست قرار دے دیا
۔آزادی کے پانچ سال بعد 8مارچ 1953ءکولاہور کی حد تک پہلا مارشل لاءنافذ
ہوا اور جنرل اعظم خان کو لاہور کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا جو پانچ
سال بعد ایوب خان کے دور آمریت میںکابینہ کا رکن بنا، یہ مارشل لاءاحمدیوں
کے خلاف چلنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے لگایا گیا ، مولانا عبدالستار
نیازی اور مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی جو بعد میں واپس لے لی گئی
۔ حاضر سروس آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقر ر کر دیا گیا اور
پہلی باراقتدار کے ایوانوں میں فوجی بوٹوں کی گونج سنائی دینے لگی ۔بھارت
1950میں اپنا آئین بنا چکا تھا جبکہ اس کے برعکس پاکستان کو برطانوی سامراج
کے 1935ءکے ایکٹ کے تحت چلایا جا رہا تھا ۔ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے
بمشکل23مارچ 1956 ءکو پہلا آئین متعارف کروایا ، آئین کے تحت پارلیمانی طرز
حکومت کا فیصلہ کیا گیا لیکن دو سال کے بعد آئین معطل کر تے ہوئے پہلا
مارشل لاءنافذ کر دیا گیا ۔یوںآزادی کے گیارہ سال بعد اکتوبر 1958کوپہلی
فوجی آمریت نے اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھاجو1969تک برقراررہا۔اس دوران
جنرل ایوب خان نے نئے آئین کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ محمد شہاب
الدین کی زیر صدارت کمیشن قائم کیا ۔کہا جاتا ہے کہ 1962ءکا آئین کمیشن کا
تیار کردہ نہیں تھا بلکہ جنرل ایوب خان نے اس میں بہت سی خود ساختہ ترامیم
کیں۔غیر متفقہ آئین کی بدولت ملک دو لخت ہو گیا۔1973ئ میں ذوالفقار علی
بھٹو تمام اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے متفقہ آئین منظور کروانے میں
کامیاب ہوئے ۔یقینا یہ بہت بڑی کامیابی تھی ۔آئین کے مطابق پارلیمانی طرز
حکومت پر اتفاق کیا گیا اور یوں آزادی کے تقریباً 27سال بعد ملک کو پہلا
متفقہ آئین نصیب ہو الیکن یہ خوشی چار سال تک ہی برقرار رہی کہ سسٹم کا ایک
دفعہ پھر ڈی ریل کر دیا گیا ، جنرل ضیاءالحق نے آئین معطل کرتے ہوئے ملک
میں مارشل لاءنافذ کر دیا اور پھر گیارہ سال تک ایک ہی شخص ملک و قوم کے
سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا ۔1988ءمیں ایک دفعہ پھر جمہوریت بحال ہوئی
لیکن یہ بھی درپردہ سازشوں کا شکار رہی۔1999ئ تک چار جمہوری حکومتوں کو گھر
بھیجا گیا ،جنر ل پرویز مشر ف کے عرصہ قریب نو سالہ مارشل لاءکے بعد ایک
دفعہ پھر جمہوریت بحال ہوئی اورپیپلزپارٹی نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے
صوبوں کی مکمل خود مختاری دی اور 73ءکے آئین کو اصل شکل میں بحال کیا ۔جنرل
مشرف کے آمریت کے بعد لنگڑی لولی جمہوریت کے اس سفر کو آج پھر دس سال پورے
ہو چکے ہیں اور آج ایک دفعہ پھر نظام کی تبدیلی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں
۔ملک خطرے میں ہے ، پارلیمانی نظام فیل ہو چکا ہے ، جمہوری حکومتیں عوام کو
ڈیلیور کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں ، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہیں،
بیروز گاری نے پنجے گاڑ لیے ہیں، بیرونی جارحیت کا خطر ہ ہے وغیر وغیر ہ ۔یہ
تمام باتیں ہر دس سال بعد سننے کو ملتی ہیں ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ نہ تو
فوجی آمریت اور نہ ہی جمہوری حکومتیں عوامی مسائل کو حل کر سکیں اور شاید
اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم بحثیت قوم بے صبر،اور ہمارے ادارے کنفیوژڈ
ہیں، ہم آ ج بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ عوامی مسائل کا حل کس نظام
میں ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صدارتی نظام بھی جمہوری نظام ہی کی ایک شکل ہے
اور دنیا کے 75فیصدممالک جن میں ترکی اور امریکہ کی جمہوری ریاستیں بھی
شامل ہیں ، صدارتی نظام رائج ہیں۔ان ممالک کی عوام اپنے سربراہ مملکت کا
انتخاب براہ راست کرتی ہیںجبکہ پارلیمانی نظام میں یہ انتخاب بالواسطہ
ایوان نمائندگان کے ذریعے ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ برطانوی سامرا ج
سے آزادی پانے والے زیادہ تر ملکوں میں برطانیہ کے طرز پر پارلیمانی نظام
جمہوریت رائج ہے اور شاید اس کی بڑی وجہ ایک لمبے عرصے تک برطانوی سامراج
کی غلامی ہے لیکن جب کہا جا تا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام مشرقی عوام کے
مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے جبکہ اگر ہم اپنے
ہمسایہ ملک بھارت کی طرف دیکھیں تو وہاں یہ نظام تقسیم ہند سے لے کر آج تک
کامیابی سے چل رہا ہے جسکی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں بار بار آئین کا
مذاق نہیں اڑایا گیا بلکہ ریاست کے ہر فیصلے میں آئین کو مقدم جانا گیا ۔اس
کے برعکس پاکستان میں ہرایک دہائی کے بعد آئین شکنی کی مثالیں موجود ہیں
اور خدانخواستہ آج پھر ایسی ہی آوازیں سننے کو مل رہی ہیں جوخدا نخواستہ
پاکستان کے لیے کسی بڑے سانحے کا مرتکب ہو سکتی ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ
عوامی امنگوں کے خلاف کیے جانے والے فیصلوں سے رقبوں پر تو راج کیا جا سکتا
ہے لیکن عوام پر حکمرانی نہیں کی جا سکتی ۔عوام پر حکمرانی کے لیے عوامی
امنگوں کا احترام لازم ہے ۔میری رائے میں تو پارلیمانی نظام ہی بہترین نظام
حکومت ہے جو نتائج بھلے دیر سے دیتا ہے لیکن اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں ۔
اگر عوامی امنگیں صدارتی نظام کو ہی اپنے حق میں بہتر سمجھتی ہیں تو صدارتی
نظام کو ہی نافذ کر دیا جائے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ چاروں صوبوں کے
عوامی نمائندوں سے رائے لی جائے ،پارلیمنٹ میں بحث کی جائے اور ایک شفاف
ریفرنڈم کے ذریعے لی جانے والی عوامی رائے کو اس طرح نافذ کیا جائے کہ
آئندہ دس سال بعد پھر کسی نئے نظام کی طرف نہ دیکھنا پڑے ۔ |