مل کی بنیاد پر انسان کی زندگی کندن بنتی ہے۔خیر اور شر
دونوں ہی انسان کی جبلّت میں ہیں ۔ موجودہ حکومت نے عوام کو بدعنوانی سے
پاک پاکستان کا خواب دیکھایا،یہی وجہ تھی کہ عوام نے ان کا بدعنوانی کے
خلاف جنگ کے نعرے پر بھر پور ساتھ دیا ۔لیکن بد قسمتی سے جو خواص اس جنگ کے
لئے ضروری تھے، وہ حکمرانوں میں موجود نہیں ہیں۔یعنی بدعنوانی کے خاتمے کے
لئے ایمان داری،محنت،حب الوطنی اور خلوصِ نیت بہت ضروری تھا،مگر ان میں تو
اخلاقی اقدار تک موجود نہیں ہیں ۔حکومت کو آٹھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود
ملک میں بدعنوانی ختم ہونا تو دور اور زیادہ دلیری سے ہو رہی ہے ۔کسی جانب
نظر اٹھا کر دیکھ لیں بدعنوانی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا،بلکہ بدعنوانی
کے ساتھ ساتھ نا اہلی بھی واضح نظر سے گزرے گی ۔
صفائی ہمارے ایمان کا نصف حصہ ہے اور صفاف ستھرا ماحول ہی شفاف ذہن پیدا
کرتا ہے ۔انسان کی صاف ستھری سوچ مثبت کام کی بنیاد ہوتی ہے۔اسی وجہ سے
ترقی یافتہ ممالک صفائی اور شفاف ماحول کی جانب زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔مسلم
لیگ (ن)کی حکومت نے بھی اسی سوچ کے تحت 2010ء میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی
کی بنیاد رکھی ، تاکہ ملک بھر کے لئے صاف لاہور کا ماڈل پیش کیا جائے سکے ۔خطیر
رقم کے ساتھ ایل ڈبلیو ایم سی وجود میں آیا۔لیکن اس کمپنی نے کرپشن کی
داستانیں رقم کرنے کے سوا کچھ پیش نہیں کیا ۔کمپنی کو چار ملین روپے ماہانہ
پر شاہین کمپلیکس میں اعلیٰ معیار کا آفس دیا گیا ۔لیکن یہاں عہدیداروں نے
اپنے عہدوں کا نا جائز استعمال کیا اورجوکہ اب بھی جاری ہے ۔افسران کا گروپ
کرپشن ،پیسے لے کر نوکریوں پر بھرتی ، گھوسٹ ملازمین کی تنخواہیں لینے ،کوڑے
کے وزن میں ہیر پھیر،اس کمپنی کا ہر شعبہ کرپشن کی داستانیں سنا رہا ہے ۔انٹرنیشنل
کنٹرکٹرز کو مبینہ طور پر اپنا حصہ لے کر زائد ادائیگیوں کے الزامات کی
لمبی تفصیل ہے ۔یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ افسروں کی کروڑوں روپے کی لوٹ
مار تاحال جاری ہے ۔عوام نئے پاکستان کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہے،کہ
بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے والوں نے چشم پوشی کیوں کر رکھی ہے ۔ایم ڈی نا
خدا بنا بیٹھا ہے،وہکسی سے ملنے اور اس کی بات سننے کا روادار نہیں ہے ۔جناب
وزراء تک کو کھاس نہیں ڈالتے،عام آدمی کی شکایت سننے کا وقت کہاں ہو
گا۔لیکن ان کے نیچے کام کرنے والے عوام کے پیسے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے
ہیں ۔اسسٹنٹ مینیجر عباس، مینیجر کمیونیکیشن جمیل خاور اور دیگر عملے کی
مبینہ کرپشن کی شکایات ہوئیں ،مگر اس پر ایم ڈی کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں
لیا گیا ۔عباس نامی شخص سات سال سے اسسٹنٹ مینیجر تعینات ہے ۔لیکن ایک
معمولی سی نوکری رکھنے والا شخص آج کروڑوں کی جائیداد کا مالک ہے۔اسے کوئی
پوچھنے والا نہیں کہ اپنی آمدن سے زائد اثاثے کہاں سے بنائے ہیں۔اس حوالے
سے نیب خاموش کیوں ہے ؟اسی کمپنی میں جمیل خاور جیسے لوگ بھی ہیں جو برملا
کہتے ہیں کہ ’’پرانے ایم ڈی کی کرپشن کی فائل میں نے بنائی تھی‘‘۔اسے کوئی
پوچھنے والا نہیں کہ وہ ریکارڈ کہاں ہے اور تمہیں کہا سے ملا․․․؟کیونکہ
جمیل خاور جیسے لوگ کرپشن کی جڑ ہوتے ہیں،جب ان کی زرا سی گردن دبوچی جاتی
ہے،تو کرپشن دوسروں کے نام ڈال کر اپنی جان بچا لیتے ہیں ۔اس کمپنی میں
شکیل واحد جیسے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے آفس میں کام کرنے والی خاتون کو نشہ
آور مشروب پلا کر جنسی ہراساں کیا اور کمپنی سے برطرف کیا گیا ،لیکن وہ
اپنے زور دار اثر و رسوخ کی وجہ سے دوبارہ کمپنی میں بحال ہو گئے۔اس کے
علاوہ خلاف قانون بھرتیوں ،میرٹ سے ہٹ کر ترقیوں اور دیگر بے ضابطگیوں کے
انتہائی سنگیں الزامات بار بار سامنے آئے ہیں ۔اس کرپشن میں حاضر سروس
افسران ملوث ہیں بلکہ اعلیٰ افسران کی مبینہ طور پر پشت پناہی حاصل ہے ۔ان
افسران نے اپنے رشتہ داروں کی اضافی بھرتیاں بھی کروا رکھی ہیں ،جس کا مقصد
ان کی معاونت سے نا جائز مقاصد کی تکمیل ہے۔یہ ایک ایسا کرپٹ مافیا ہے، جس
کی جڑیں پورے ادارے میں پھیلی بلکہ انتہائی گہری ہیں ۔ اگر انہیں کوئی
چھیڑنے کی کوشش کرے تو اپنا نقصان کروا بیٹھتا ہے ۔کیونکہ ایم ڈی اس شپ کا
سربراہ ہے ،ان کی خوشنودی کے بغیر یہاں بد عنوانی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ
نا ممکن ہے ۔ ایل ڈبلیو ایم سی کا وجود بہترین منصوبہ تھا ،مگر اس میں
شیطانی ذہنوں نے بہتر نتائج کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔لاہور کی صفائی کیا
ہونا تھی،عوام کے ٹیکس سے حاصل شدہ خزانے کی صفائی کی جا رہی ہے۔
ایل ڈبلیو ایم سی کو لاہور شہر کا کوڑا اٹھانے ،ری سائیکلنگ ،کھاد اور بجلی
بنانے کا ہدف دیا گیا تھا۔جو پورا نہ ہو سکا،کیونکہ اس میں عہدیداروں کی
بھرتی میرٹ پر نہیں کی گئی۔اس کمپنی کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس کو سربراہ
دیانتدار اور محنتی نہیں ملے ۔جس کی وجہ سے نیچے بھی کرپشن نے جنم لیا ۔جو
ورکر یہاں کام کرتے ہیں انہیں مروجہ تنخواہیں نہیں دی جاتیں اور ان کا
اخلاقی اور معاشی استحصال کیا جاتا ہے ۔ان سے ناروا سلوک بھی کیا جاتا ہے
،نا انصافی پر لب کشائی پر نوکری سے برخاست تک کر دیا جاتا ہے ،لیکن جو
کرپشن کر رہے ہیں ان کو سہولیات اور بڑی تنخواہیں دی جا رہی ہیں ۔اس کمپنی
نے معاہدے کے تحت روزانہ چار سو ٹن پھل اور سبزیوں کے فضلے سے کھاد بنانی
تھی۔جس سے کمپنی کو کمائی ہونی تھی وہاں خسارہ ہوتا گیا۔کچرا اٹھانے میں
کرپشن اتنی بڑھی کہ کوڑے سے بجلی پیدا کرنے ،بائیو گیس کے پلانٹ ،سائنسی
لینڈ فل سائٹ اور دیگر منصوبوں کی کوئی خبر نہیں رہی ۔
اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو ایسے ایک بھرپور اور فائدہ مند
منصوبہ کہا جا سکتا ہے ۔لیکن اس میں اربوں روپے کی کرپشن ہو چکی ہے ۔موجودہ
حکومت اور نیب کو صرف سیاسی انتقام سے ہٹ کر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے
۔یہاں قومی خزانے کو معمولی اسسٹنٹ منیجر عباس اور جمیل خاور جیسے عہدیدار
کروڑوں روپے کا چونا لگا چکے ہیں اور بڑے عہدیدار اربوں روپے ہڑپ کر چکے
ہیں ۔یہ لوگ کرپشن کرنے کے باوجود اپنے عہدوں پرنہ صرف قائم ہیں بلکہ مبینہ
طورپر مسلسل کرپشن کر رہے ہیں۔ریاست کہاں ہے ․․․نیب کے ادارے کی خاموشی
سوالیہ نشان بنی ہے ․․․؟شریف برادران اور زرداری فیملی کے علاوہ بھی نظر
دوڑائیں ۔وزیر اعظم کمپلین سیل اور وزیر اعلیٰ کمپلین سیل میں لوگ شکایات
درج کروارہے ہیں ،مگر کسی کی شنوائی نہیں ہو رہی ۔اس کمپلین سیل کا کردار
بھی حکمرانوں کی بیان بازی سے زیادہ نہیں ہے ۔اگر کوئی کرپشن کے خلاف شکایت
کرتا ہے تو وہی شکایت اس غریب کے گلے پڑ جاتی ہے ۔کیونکہ درخواست گزار کی
شکایت ازالے کے لئے انہیں کرپٹ افسران کے پاس جاتی ہے ،جس پر کارروائی کی
بجائے ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا جاتا ہے ۔ کرپشن کے خلاف جہاد پر نئی
جنریشن زیادہ حساس ہے،مگر جب وہ کمپلین سیل شکایت کرتے ہیں تو انہیں اپنی
نوکری کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔ان حالات میں کرپشن کا خاتمہ نا ممکن ہے ۔
المیہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو کشتی ملت کا نا خدا بنایا گیا ہے ،انہوں نے
طوفاں کی حقیقت سے قوم کو غافل رکھا۔جب مقتدر حضرات ہی کرپشن زدہ ہو چکے
ہیں تو ایک عام شہری سے ایمان داری اور دیانت داری کی کیا توقع کی جا سکتی
ہے ․․․؟لالچ اور ہوس نے مخصوص طبقے کو امیر ترین اور باقی عوام کو غریب تر
بنا کر رکھ دیا ہے ۔
دنیا کی سب سے بڑی عدالت ہمارا ضمیر ہے ۔جس قوم میں ضمیر مردہ ہو جائے
،احساس مروت جاتا رہے ،وہ قوم مسائل میں گھر جاتی ہے۔معاشرے سے بے عتدالی
کے خاتمہ کے لئے ہر کسی کو اپنا فرض قومی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنا ہو
گا،ایل ڈبلیو ایم سی کرپٹ مافیہ کا مسکن بنا ہوا ہے ،نیب سمیت دیگر مقتدر
ادارے کرپٹ مافیہ پر مضبوط گرفت ڈال کر ادارے کی کارکردگی کو بہتر اور فعال
بنانے میں نمایاں کردار اداکرسکتے ہیں ۔
|