پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں وزراء
کے قلمدانوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کردیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
وزیر اطلاعات فواد چودھری کو وزیر برائے سائنس اینڈ ٹکنالوجی کا قلمدان دیا
گیا ہے جبکہ وزارتوں میں ردوبدل سے چند گھنٹے قبل وزیر خزانہ اسد عمر وزیر
خزانہ کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے تھے کیونکہ انہیں وزیر خزانہ کے بجائے وزیر
توانائی کا قلمدان سنبھالنے کیلئے کہا گیا تھا ، اسد عمر وزیر توانائی کی
حیثیت سے عہدہ کا جائزہ لینے سے انکار کرتے ہوئے کابینہ ہی چھوڑنے کا اعلان
کیا۔مستعفی ہونے کے بعد انہو ں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیراعظم
عمران خان کابینہ میں رد و بدل چاہتے تھے اور انہیں وزارت خزانہ کے بجائے
وزیر توانائی کا قلمدان سنبھالنے کیلئے کہا گیا تھا۔ اسد عمر نے کہا کہ
انہوں نے وزیر اعظم کی مرضی سے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کابینہ میں کوئی بھی
عہدہ نہیں لینگے۔ اس طرح اسد عمر اپنے آپ کو کابینہ سے علحدہ کرلینے میں ہی
بہتری محسوس کرتے ہوئے عمران خان سے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ
مجھے یقین ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشاء اﷲ نیا
پاکستان ضرور بنے گا ، انکا کہنا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف نہیں چھوڑ
رہے ہیں بلکہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسد عمر کے مستعفی ہونے کے
بعد تجزیہ نگاروں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی جانب سے مختلف بیانات
کا سلسلہ جاری ہے ۔وزارتِ خزانہ کیلئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیر مقرر کیا گیا
جبکہ ابھی وزیر خزانہ کا قلمدان کسی کو بھی تفویض نہیں کیا گیا ہے۔ وزیر
اعظم عمران خان نے پاکستانی معیشت سے جڑے تمام تر امور سدھارنے کیلئے پانچ
ماہرین پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیئے ہیں جس میں شوکت ترین، شبر زیدی، سابق
گورنر اسٹیٹ بینک سلیم رضا ، صادق سید اور شبیر اعظم مزاری شامل ہیں جبکہ
پارٹی کے سینئر رہنماء جہانگیر ترین اس بورڈ کے کنوینئر ہونگے اور یہ بورڈ
وزیر اعظم عمران خان کو رہنمائی فراہم کرے گا۔ اس طرح پاکستان میں عمران
خان اپنی کابینہ میں ردوبدل کرتے ہوئے جس طرح کا بھی فیصلہ کئے ہیں وہ
بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کی سلامتی و خوشحالی اور ترقی کیلئے کن افراد کو کس
قسم کی ذمہ داری سونپنا چاہیے ۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان کے اس فیصلہ کے
بعد ملک کی ترقی و خوشحالی میں کس قسم کی تبدیلی آتی ہے اور ملک کی معیشت
کتنی مستحکم ہونگی۰۰۰
مصر ی آئین میں ترامیم ۰۰۰ عبدالفتاح السیسی کا اقتدار 2030تک یقینی۰۰۰
مصر کی پارلیمان نے آئینی ترامیم منظور کرتے ہوئے موجودہ صدر عبدالفتاح
السیسی کو 2030تک اقتدار میں رہنے کی راہیں فراہم کردی ہیں۔ صدر عبدالفتاح
السیسی کو 2022ء میں دوسری چار سالہ مدت کے ختم ہونے پر اقتدار سے علحدہ
ہونا تھا لیکن پارلیمان کی نئی ترامیم کے باعث آئندہ تیس دن کے اندر
ریفرینڈم کرایا جانا ہے جس کے بعدانکی حالیہ اقتدار کی مدت چار سال سے بڑھ
کر چھ سال ہوجائے گی اور انہیں ایک اور مدت کے لئے انتخابات میں حصہ لینے
کی اجازت بھی مل جائے گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان ترامیم کے ذریعہ صدر
السیسی کو مزید اختیارات حاصل ہوجائیں گے اور وہ سیاست میں فوج کے کردار کو
یقینی بنانے میں اہم رول ادا کریں گے۔ واضح رہے کہ مصر میں 2012میں جمہوری
طور پرمنتخب پہلے مصری صدر محمد مرسی کوعوامی احتجاج کے دوران اس وقت کے
فوجی سربراہ و موجودہ صدر السیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعہ جولائی 2013ء میں
اقتدار سے بے دخل کردیا تھا ۔اخوان المسلمین سے وابستہ سابق صدر محمد مرسی
کی تائید میں انکی بے دخلی کے بعد ملک بھر میں اخوان المسلمین کے کارکنوں
نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کے خلاف فوج نے کارروائی کرتے
ہوئے ہزاروں افراد کو ہلاک و زخمی کیا اور کئی ہزار افراد کو گرفتار کرکے
جیلوں میں بند کردیا گیا اور ان پر مختلف الزامات عائد کرکے عمر قید یا
پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں۔ آج بھی محمد مرسی جیل میں قید ہیں اور انہیں
بھی موت کی سزا سنائی گئی تھی جو بعد میں کالعدم قرار دی گئی ۔مصر میں اس
وقت عبدالفتاح السیسی کی گرفت اقتدار پر مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ عبدالفتاح
السیسی نے سنہ 2013ء میں فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار حاصل کرلیا تھا لیکن
2014ء میں وہ پہلی بار مصر کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئے اور پھر 2018ء
میں 97فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسری میعاد کیلئے صدر منتخب ہوئے ۔ یہاں یہ
بات قابلِ ذکر ہے کہ السیسی کو انتخابات میں کسی سے سخت مقابلہ نہیں تھا اس
کی وجہ انکے مخالفین کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں قید ہے یا وہ انتخابات میں
حصہ نہیں لئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پارلیمان میں بھی صدر السیسی کے
حمایتیوں کا غلبہ ہے اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں یہ کہہ کر اسے تنقید کا
نشانہ بناتی رہی ہیں کہ یہ ان کے اقدامات کی رسمی منظوری کا ہی کام کرتی
ہے۔السیسی کے حمایتیوں کا کہنا ہیکہ ایک ایسے موقع پر جبکہ ملک میں سیاسی،
اقتصادی اور حفاظتی اقدامات اور پڑوسی ممالک لیبیا اور سوڈان میں جاری
بدامنی ہے اسی کے پیشِ نظر انہیں ترامیم کے ذریعہ اصلاحات کی اجازت دینی
پڑی۔ ادھر لیبرل ’ال دستور‘ پارٹی کے خالد داؤد نے ان ترامیم کو مضحکہ خیز
بتاتے ہوئے اسے مسترد کردیا اور انہوں نے بتایا کہ یہ اصلاحات صدر السیسی
کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش کو ظاہر کرتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
انٹرنیٹ مانیٹر نیٹ بلاک کا کہنا ہیکہ ایک کیمپین کی ویب سائٹ تک رسائی کو
محدود کرنے کی کوشش میں جس نے مبینہ طور پر ترامیم کے خلاف 250000دستخط جمع
کئے تھے ، مصری حکام نے 34000ویب سائٹس کو جزوی یا مکمل طور پر بند کررکھا
ہے۔ ان ترامیم کے ذریعہ السیسی اقتدار پر ایک طویل عرصہ تک براجمان رہنا
چاہتے ہیں کیونکہ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ آئین کے آرٹیکل 140جسے ایک
ریفرنڈم کے ذریعہ 2014ء میں منظور کیا گیا تھا کے مطابق صدر نے چار سالہ
مدت پوری کرلی ہے اور انہیں مزید صرف ایک بار اور منتخب کیا جاسکتا ہے ،
لیکن 16؍ اپریل کو ایم پیز کی جانب سے منظور کردہ اصلاحات کے پیشِ نظر صدر
السیسی کی مدتِ اقتدار بڑھ کر چھ سال ہوجائے گی ۔ بتایا جاتا ہیکہ آرٹیکل
241کے ذریعہ ایک عبوری انتظام کے تحت صدر السیسی کی موجودہ مدت میں دو سال
تک کا اضافہ ہوگا جس کے ذریعہ وہ 2024تک اقتدار پر فائز رہینگے یہی نہیں
بلکہ 2024میں ایک اضافی مدت یعنی آئندہ چھ سالہ مدت کیلئے کھڑے ہونے کی بھی
انہیں اجازت ہوگی۔فوجی سربراہ رہنے والے عبدالفتاح السیسی مصر کے حکمراں
بننے کے بعد فوج کو وسیع تر اختیارات دے دیئے تھے ، بتایا جاتا ہے کہ بڑے
انفراسٹکچر پراجکٹس کا انتظام انکے پاس ہے اور حکومت میں اہم عہدوں پر
جرنیلوں کا قبضہ ہے۔ مزید اصلاحات کے لئے آرٹیکل 200کے مطابق ملک کی حفاظت
اور سیکیوریٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی حفاظت فوج کے تفویض
کردی گئی اورآرٹیکل234میں اصلاحات دفاعی وزیر کی منظوری کیلئے مسلح افواج
کی سپریم کونسل کے کردار کو یقینی بنائیں گی ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا
جارہا ہے کہ اصلاحات کی وجہ سے مصر کی عدلیہ بھی متاثر ہوگی ۔ ترامیم کے
ذریعہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مصر کے صدر کی سربراہی میں ایک
ایگزیکٹیو باڈی عدلیہ کی نگرانی کرے گی اور صدر کو اہم عدالتوں میں تقرریوں
کا اختیار حاصل ہوگا ، ان میں کے سیشن عدالت، عدالتِ عظمیٰ اور عوامی
پراسیکیوٹر بھی شامل بتائے جارہے ہیں۔بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی
انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی آزادی کو کمزور کردے گا۔ اصلاحات سے بڑے
پیمانے پر اسٹیٹ کونسل ججز کے اس اختیار کو ختم کردیں گی جس کے تحت وہ
قانون سازی میں کسی ترمیم پر قانون بننے سے قبل نظر ثانی کرسکتے تھے۔ اس کے
ساتھ ساتھ فوجی عدالتوں کو وسیع تر اختیار فراہم کرنے کیلئے بھی تبدیلیاں
کی جائیں گی۔ بتایا جاتا ہیکہ ان تبدیلیوں کے بعد فوجی عدالتیں، فوجی
تنصیبات ، فیکٹریوں، سازو سامان، زونز، سرحدوں اور فوجی عملے کے علاوہ کسی
بھی ایسی عمارت جو فوج کی حفاطت میں ہو پر حملے کے جرم میں سویلین افراد پر
بھی مقدمہ چلاسکیں گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ویسے 2011ء سے اب تک ہزاروں
سویلین افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاچکے ہیں۔ان سب کے علاوہ
پارلیمنٹ میں بھی تبدیلی بتائی جارہی ہے ، اصلاحات کے ذریعہ نئے آرٹیکل کے
مطابق دوبارہ ایک ایوانِ بالا قائمکیا جائے گا جو 2014میں ختم کردیا گیا
تھا۔ صدر نئے چیمبر کے 180ارکان میں سے ایک تہائی ارکان کا انتخاب کریں گے
جو سینٹ کے نام سے جانا جائے گا ، باقی ارکان براہ راست منتخب ہونگے۔ ایوانِ
زیریں یعنی ایوان ِ نمائندگان میں سیٹوں کی تعداد 596سے گھٹ کر 450ہوجائے
گی جس میں کم سے کم 25فیصد خواتین کیلئے مخصوص ہونگی۔اس طرح موجودہ صدر مصر
عبدالفتاح السیسی اقتدار پر مضبوط گرفت بنائے ہوئے ہیں وہ ایک طرف سعودی
عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بنائے ہوئے ہیں تو دوسری جانب
اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار دکھائی دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ
عبدالفتاح السیسی زیادہ دنوں تک اقتدار پر فائز رہتے ہیں تو مصر کے عوام کی
انہیں تائید و حماعت حاصل رہے گی یا پھر ایک بہارِ عرب کی کارروائی انکے
خلاف بھی ہوسکتی ہے اور وہ بھی دیگر ممالک کے حکمرانوں کی طرح اقتدار سے بے
دخل کردیئے جاسکتے ہیں ویسے اتنی جلدی ایسا ممکن نہیں کیونکہ موجودہ حالات
میں عبدالفتاح السیسی مصر کے اقتدار پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔
لیبیا کے باغی فوجی سربراہ حفتر سے مصری صدر السیسی کی ملاقات
لیبیا کی صورتحال دن بہ دن بدتر ہوتی جارہی ہے ، ملک میں فوجی سربراہ خلیفہ
حفترکی حامی فوج اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ لیبیا کی یونٹی حکومت
کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے ۔خانہ جنگی کی اس صورتحال کے پیشِ نظر مصری
صدر السیسی نے لیبیا میں دہشت گردی کے خاتمے اور سلامتی کی صورتحال کو بہتر
بنانے کی کوششوں میں مصری حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ذرائع ابلاغ کے
مطابق عبدالفتاح السیسی نے قاہرہ میں لیبیا کے کمانڈر خلیفہ حفتر سے ملاقات
کی،بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات کے دوران لیبیا کی موجودہ صورتحال پر گفتگو
کی گئی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ لیبیا
کی یونٹی حکومت اور لیبیا کے کمانڈر خلیفہ حفتر کی فورسز کے مابین جنگ جاری
ہے اس لڑائی میں اب تک سو سے زائد افراد ہلاک بتائے جارہے ہیں جبکہ سینکڑوں
کی تعداد میں لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔خلیفہ حفتر کے حامی جنگجو 4؍ اپریل سے ملک
کے دارالحکومت طرابلس پر قبضے کیلئے کوشاں ہیں ۔ دونوں طرف سے شدید لڑائی
جاری ہے ۔ اس موقع پر مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی جانب سے خلیفہ حفتر سے
ملاقات اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ لیبیا
کی یونٹی حکومت کے بجائے حفتر کے حامی ہے اسی لئے انہوں نے حفتر سے ملاقات
کی اور انہیں لیبیا میں دہشت گردی کے خاتمے اور سلامتی کی صورتحال کو بہتر
بنانے کی کوششوں میں مصری حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ خلیفہ حفتر لیبیا
کے سابق حکمراں کرنل معمر قذافی کی حکومت کو بے دخل کرنے کے لئے جانے جاتے
ہیں، اب دیکھنا ہیکہ وہ لیبیا میں اقتدار حاصل کرلیتے ہیں یا نہیں۔
افغانستان میں لڑکیوں کا اسکول نشانہ پر
افغانستان میں ان دنوں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے عمل کی
تیاریاں جاری ہیں، قطر میں ہونے والی کانفرنس میں افغان طالبان کے نمائندے
شرکت کریں گے جبکہ حکومت کی جانب سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ اس
طرح امریکہ چاہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح افغانستان سے اپنی فوج کا تخلیہ
کرلے۔گذشتہ دنوں افغانستان میں نامعلوم مسلح افراد نے دھماکا خیز مواد سے
لڑکیوں کے ایک اسکول کو تباہ کردیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق حکام نے بتایاکہ
افغانستان کے صوبے فراہ کے گاوں توسک میں از سرنو تعمیر ہونے والے بنفشہ
گرلز ہائی اسکول میں نامعلوم مسلح افراد نے داخل ہوکر دھماکا خیز مواد سے
اسکول کی عمارت کو دوسری بار تباہ کر دیا اور اندھا دھند فائرنگ بھی کی۔اس
اسکول کو دو سال قبل بھی مسلح افراد نے نذر آتش کردیا تھا اس کے باوجود
اسکول میں درس و تدریس جاری تھی اور 500 لڑکیاں زیر تعلیم تھیں۔ اسکول کی
تباہ حال عمارت کو ازسرنو تعمیر کیا گیا اور مرمت شدہ عمارت میں درس و
تدریس کا آغاز ایک ماہ قبل ہی ہوا تھا۔صوبے فراہ کے ترجمان نے میڈیا کو
بتایا کہ شدت پسند تنظیموں کی جانب سے اسکول انتظامیہ کو مسلسل دھمکیاں
موصول ہورہی تھیں، دو سال قبل بھی اس اسکول کو نذر آتش کردیا گیا تھا تاہم
اس حملے کی ذمہ داری کسی جنگجو تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔افغانستان کی
وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے تحت اب بھی ساڑھے 3 لاکھ سے زائد بچے تعلیم
سے محروم ہیں اور ملک بھر میں تقریبا 900 سے زائد اسکول سیاسی حکومتوں کے
قیام کے باوجود تاحال بند ہیں۔
سوڈان میں اقتدار ، کس کے ہاتھ میں
سوڈان میں تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنے والے صدر عمر البشیر کوآخر کار
انکے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ عوامی احتجاج کے سامنے وہ بے بس ہوگئے تھے
اور انکی جگہ سوڈان کی فوجی کونسل کے سربراہ و وزیر دفاع عود ابن عوف نے
جگہ لے لی تھی لیکن دوسرے ہی دن انہیں بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا
کیونکہ عوام عمر البشیر کے قریتی ساتھی کو اقتدار پر دیکھنا نہیں چاہتے۔
عود ابن عوف نے اپنی جگہ لیفٹینینٹ جنرل عبدالفتاح عبدالرحمان برہان کو
اپنا جانشین نامزد کیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فوج کا کہنا ہے کہ وہ دو
سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد انتخابات کرائے گی جبکہ عوام چاہتے ہیں کہ
ملک میں سویلین حکومت قائم ہوں ۔1989ء سے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے عمر
البشیر کے خلاف گذشتہ چار ماہ سے عوامی احتجاج کا سامنا تھا گذشتہ جمعہ
انکے خلاف احجاج میں مزید اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد انہیں اپنے صدارتی
عہدے سے مستعفی ہونا ضروری ہوگیا تھا۔ سابق صدر عمر البشیر کے خلاف عالمی
عدالت برائے جرائم کی جانب سے حراست میں لئے جانے کا عالمی وارنٹ جاری کیا
گیا جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ سوڈان کے علاقے دارفر میں جنگی
جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔سوڈان کی معیشت اس وقت بُری طرح متاثر ہے یہی
وجہ ہے کہ عوام عمر البشیر کو صدارت سے بے دخل کرنا چاہتے تھے جس میں انہیں
کامیابی حاصل ہوگئی ہے لیکن دیکھنا ہے کہ مستقبل میں ملک کی معیشت کو بُری
حالت سے نکالنے کیلئے کس قسم کے اقدامات کئے جاتے ہیں ۔
|