ایک شخص ہانپتا کانپتامحلے سے باہر واقعہ دکان پر پہنچا
دکاندار سے بولا مجھے پانی دو،اس نے پوچھا خیریت ہے اتنے گھبرائے ہوئے کیوں
ہو اس نے کہا میں نے شیخ صاحب کا قرضہ دینا تھا اکثر وہ مجھ سے مانگتے میں
ٹال جاتا تھا آج ہم گھر سے نکلے تو راستے میں شیخ نے ہمیں آلیا اور جان کے
درپے ہو گیا کہ آج رقم دو گے یا میں تمھیں پکڑ کے رسی سے باندھ دوں گا
دکاندار نے اس سے کہا تم نے اچھا کیا کہ بھاگ نکلے ورنہ اگر وہ پکڑ کر
باندھ دیتا تو بری بے عزتی ہوتی ،مقروض نے جواب دیا ہاں یار شکر خدا کا کہ
اس نے ابا جی کو پکڑ لیا میں عزت بچا کر بھاگ آیا اب ابا جی ان کے قبضے میں
ہیں مگر شکر ہے میں بچ گیا اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو یہی کچھ ہمارے
ساتھ تبدیلی سرکار نے کیا میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ یہ بے چارے اتنے
جوگے ہر گز نہیں تھے انہیں تو گمان بھی نہیں تھا کہ یوں حکومت ان کی جھولی
میں آن گرے گی اور آ ہی گری تھی تو کاش کہ یہ اتنی معمولی سی بات ہی سمجھ
جاتے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت تک کبھی بھی معاشی استحکام نہیں آ سکتا جب
تک وہ سیاسی طور پر مستحکم نہ ہو،مگر کیا کہیے ان تبدیلی کے کلا کاروں کو
جنھوں نے کنٹینر خان کو کنٹینر سے اترنے ہی نہیں دیا،اپوزیشن لیڈر ہو ،اپوزیشن
کے منتخب عوامی نمائندے ہوں بڑی سیاسی جماعتیں ہوں یا کوئی بھی ان کا وہ
مخالف جس نے ان کے سامنے سچی بات کرنے کی جرات کی انہوں نے اس کی ساتھ
پشتوں کو وہ غیر غیر نکالے جنہوں نے ہیرا منڈی کی طوائفوں اور ٹریفک سگنلز
پر فحش گوئیاں کرتے خواجہ سراؤں کو بھی مات دے دی،کوئی سیاستدان
تھا،بیروکریٹ تھا یا صحافی جس نے بھی ذرا سا آئینہ دکھانے کی کوشش کی انہوں
نے نے نہ صرف آئینے کو چکنا چور کر دیا بلکہ اس ہاتھ کو بھی کندھے سے
اکھاڑنے کی کوشش کی جس میں آئینہ پکڑاگیا ، ایک سے ایک بڑھ کر نالائق اور
گپی ہمارے سوں پر سوار کر دیا کسی نے کہا عمران خان آئے گی دو سو ارب ڈالر
واپس لائے گی بیرونی دنیا کے منہ پر مارے گی دودھ شہد کی نہریں بہا دے
گی،دوسرا بولا میں نرگس کو حاجی بناؤں گا تیسری بولی بارشیں ہماری ہی وجہ
سے تو ہو رہی ہیں،اسد عمر جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے سب سے بڑا
معاشی جادو گر ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا ماہر،پانی میں آگ لگانے والا،روپے
کو پونڈ سے بھی اوپر پہنچانے کا ہنر جاننے والا کاریگر،وقت پڑا تو کیا
ہوا،کہاں گئے وہ وعدے اور دعوے کہ پٹرول چالیس کا ہونا چاہیے گیس فری ہونی
چاہیے چینی بیس روپے اور گھی تیس روہے کلو ہونا چاہیے لوگوں کو پیتیس
پینتیس سال کا طعنہ دینے والوں سے پینتیس ماہ بھی نکلتے نہیں دکھائی دے رہے
کیا یہ تبدیلی تھی جس کا قوم سے وعدہ کیا گیا تھا کیا یہ وہ خواب تھے جن کا
دن رات کنٹینر پر چڑ ھ کر واویلا کیا جاتا تھا،چار منی بجٹ پیش کر کے جی
ہاں صرف آٹھ ماہ میں چار بجٹ ڈالر ایک سوپچاس پر پہنچا کر پٹرول 100روپے
لٹر کر کے 38ہزار ارب قرضہ لے کر، سوئی گیس اور بجلی کے بلوں کے نام پر اس
غریب قوم کی جیبوں پر اربوں روپے کا ڈاکہ مار کر تسی بیٹھو میں آیا کہہ کر
آپ چلتے بنے نہیں جناب آپ کو بھی حساب دینا ہو گا ،اگر میاں اور زرداری آج
احتساب احتساب بھگت رہے ہیں تو آپ کا احتساب تو اس سے بھی زیادہ سخت ہونا
چاہیے انہوں نے قوم کا پیسہ لوٹا آپ نے قوم کا اعتبار لوٹ لیا قوم کی امید
لوٹ لی،ہمیں تو اسی دن سمجھ آ گئی تھی جس دن آپ نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے
سوئی گیس کی مفت فراہمی کا اعلان کیا تھا اسی دن سمجھ لگ گئی تھی کہ جناب
کتنے پانی میں ہیں،اسی طرح پٹرولیم کے وزیر موصوف نے جس دن کہا تھا کہ گیزر
جیسی عیاشی نہیں کرنی چاہیئے عوام کو اگر کوئی ان کا کپتان ہوتا تو اسی دن
کم از کم اسے تو گھر بھیج دیتامگر جہاں ملکی مفاد کی بجاے ضد انا اور ہٹ
دھرمی کا راج ہو وہاں ایسے ہی ستیاناس کے بعد سوا ستیاناس کا انتظار کیا
جاتا ہے اور جب پانی سر سے گذر جاتا ہے تو سمجھ تب آتی ہے مگر اس وقت ہاتھ
پاؤں مارنے سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا،کمال حیرت کا مقام ہے کہ اوپر والوں
کی دیکھا دیکھی نیچے بھی شیخ چلیوں کی بھرمار ہے اوپر انڈے بچے مرغیاں
بکریاں پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں ہیں تو نیچے دو سو ارب آئے گی
والے مراد سعید کے بعد فیصل واوڈا فرماتے ہیں چار ہفتوں بعد نوکریوں کی وہ
ریل پیل لگے گی کہ ڈھونڈنے سے بھی بندہ نہیں ملے گاجی ہاں صرف چار ہفتوں
بعد،شیخ رشید ایک ٹرین کا پنڈی سے افتتاح کرتے ہیں اس سے پہلے بہاولپور
پہنچ کر اسی ٹرین کا بہاولپور سے پنڈی کے لیے دوبارہ افتتاح کر دیتے ہیں ،ن
لیگ کے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگانے کے شوق کاعالمیہ ہے کہ ایک ایک منصوبے
کا چار چار بار افتتاح ہو رہا ہے کل ہی ایک بھولے بھالے منسٹر صاحب نے تلہ
گنگ میں اس پولیس خدمت مرکز کا دوبارہ افتتاح کیا جس کا ان سے قبل ن لیگ کے
زعما سابقہ ڈی پی او کے ساتھ کر چکے ہیں اور وہ سال بھر سے ورکنگ ہے،مشیر
داخلہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے گویا ہوئے گھبرائیں نہیں
میری کل ہی صدر ہاشمی رفسنجانی سے بات ہوئی ہے ہم جلد ہی ملکر دہشت گردی کا
کوئی حل نکال لیں گے بعد میں پتہ چلا ہاشمی رفسنجانی کو آنجہانی ہوئے مدت
گذر گئی نہ جانے عالم ارواح میں مشیر داخلہ کی مرحوم سے کیسے ملاقات ہوئی
لگتا ہے سب نشے میں ہیں یوں ملک چلتے ہیں اور ایسے لوگ جو ایک کمپنی چلانے
کا تجرہ نہ رکھتے ہوں بلکہ کمپنی کا بھی بیڑہ غرق کر چکے ہوں ان کے ہاتھ
میں جب قوم کی تقدیر آئے گی تو نتیجہ ایسا ہی آنا تھا جو سب کے سامنے نکلا
پڑا ہے،سابقہ ادوار میں اسد عمر دکھا دکھا کر اپوزیشن اور مخالفین کو ڈرایا
جاتا تھا کہ ہمارے پاس اسد عمر ہے ایک بار اسے وزیر خزانہ بننے دو پھر
دیکھنا اور واقعی قوم نے دیکھا کہ کیا کمال کیا اسد عمر صاحب نے واہ بھئی
واہ جتنی بھی داد ان کو دی جائے کم ہے ہم اکثر کہتے ہیں کہ شاہد آفریدی کی
جگہ ہمیں کرکٹ ٹیم میں شامل کیا جاتا تو قوم کا پیسہ بچتا ہم اس سے آدھے
پیسے لیکر قوم کے لیے کرکٹ کھیلتے یار دوست پوچھتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے ہم
نے ہر بار کہا کیوں نہیں ممکن بالکل ممکن ہے وہ بھی زیروپر آؤٹ ہوتا ہے ہم
بھی زیروپر آؤٹ ہوں گے البتہ قوم کافائدہ یہ ہو گا کہ ہم پیسے آدھے لیں گے
،ویسے حیرت کی بات ہے کہ جن کو اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ معاشی
استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے وہ کیا تبدیلی لائئیں گے،یہ باہر نہ
سہی اسمبلی کے اندر ہی شہباز شریف اور بالول سے ہاتھ ملا لیں اسٹاک
ایکسچینج کے وارے نیارے ہو جائیں گے مگر یہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیوں کہ
ضد انا ہٹ دھرمی بے وقوفی کا دوسرا نام ہیں ،اس کے علاوہ خوشامدی ٹولہ کبھی
یہ نہی کرنے دے گا وہ یہ کہہ کر ڈراتا ہے کہ جناب لوگ کیا کہیں گے کہ کل آپ
کیا کہتے رہ ہیں جبکہ وہ یہ نہیں دکھاتے کہ شیخ رشید ،پرویز الٰہی اور ایم
کیو ایم کے بارے میں لوگ کیا کہہ رہے ہیں،خود جناب اتنے جوگے ہیں نہیں ورنہ
بائیس سالہ جدو جہد کے بعد اگر بات گھوم پھرکر پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ
تک آ سکتی ہے تو اسمبلی کے اندر قوم ہی کے دیگر منتخب لوگوں سے بات کرنے
میں کیا مضائقہ ہے مگرمجال ہے،یہ لوگ سو پیاز بھی کھا رہے ہیں اور ساتھ سو
جوتے بھی،ابھی رمضان کی آمد آمد ہے گرمی اس کے علاوہ ہو گی مہنگائی اور
گرمی سے ستائی قوم تبدیلی خان کی طرف دیکھے گی ڈر ہے کہیں اسد عمر کی طرح
یہ صاحب بھی یہ نہ کہہ دیں تسی بیٹھو میں آیا،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے
|