سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو بھوپال سے بی جے پی کا امیدوار
بناکر نریندر مودی نے اپنا سیاسی دائرہ مکمل کرلیا ہے۔ اس خونی دائرے کے
مرکز میں مودی ہے۔ اس کے محیط پر ناحق خون کا پہلا قطرہ گودھرا میں گرا ۔
اس کے بعد وہ پوری ریاستِ گجرات پر پھیلتا چلا گیا ۔ ۲۰۰۲ سے ۲۰۰۷ تک
گجرات کے اندر قتل غارتگری کا ایک سلسلہ رہا جس میں مسلم کش فسادات کے بعد
ہرین پنڈیا کا قتل ہوا۔ اس کے بعد عشرت جہاں اور سہراب الدین کا انکاونٹر
اور بالآخر پرجا پتی کا انکاونٹر قابلِ ذکر ہے۔ ۲۰۰۷ کے بعد مودی جی نے
اپنے آپ کو قدرے محفوظ محسوس کیا اور صوبے کی ترقی کی جانب توجہ دی ۔
۲۰۱۲ انتخاب سے قبل وزیراعلیٰ مودی نے اپنی شبیہ بدلنے کے ارادے سے صوبے
میں امن ، اتحاد اور بھائی چارہ کے لیے۳ دن کاسدبھاونا ورت(خیرسگالی روزہ)
رکاش۔ اس کے بعد آدرش گجرات کا ہوا ّکھڑا کرکےصوبائی انتخابجیتا گیا ۔ اس
دوران میڈیا کا استعمال بڑی خوبی کے ساتھ کیا گیا ۔ یہیں سے مودی کو
وزیراعظم بننے کا خیال آیا اور ۲۰۱۳ میں وہ وزیراعظم کے امیدوار بن گئے۔
۲۰۱۴ کی انتخابی مہم ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ مذکورہ بالا سلسلے کی ایک
کڑی تھی۔ اس وقت رام مندر سمیت سارے متنازع موضوعات کو بالائے طاق رکھ کر
ملک کو گجرات کی مانند خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کا خواب دکھایا گیا۔
بدعنوانی کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کا خاتمہ اور خواتین کومظالم سے بچانے
جیسے دل لبھانے والے نعرے بلند کیے گئے لیکن نوٹ بندی کی حماقت نے ساری
بساط الٹ دی ۔ عوام کے اندر زبردست مایوسی اور بے چینی پھیل گئی۔ اتر پردیش
کا صوبائی انتخاب جیتنے کے لیے مودی جی کو پھر سے اپنے پرانی فرقہ پرستی کا
سہارا لینا پڑا۔ اس طرح معیشت کے بعد سیاست کے میدان میں بھی ان کے زوال کا
آغاز ہوگیا۔
اترپردیش انتخاب میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان سے دوسری غلطی یہ
ہوئی کہ اس اہم ترین صوبے کی باگ دور کسی لائق و فائق وزیراعلیٰ کے ہاتھوں
میں سونپنے کے بجائے یوگی کے حوالے کردی گئی۔ اس شخص کے خلاف الہٰ باد ہائی
کورٹ میں دنگا بھڑکانے کا مقدمہ ہے ۔ اس کو بدزبانی کے سوا کچھ نہیں آتا ۔
اس کے راج میں عصمت دری اور قتل کے الزام میں کلدیپ سنگھ سینگر نام کا بی
جے پی رکن اسمبلی جیل کی چکی پس رہا ہے۔ قتل کے الزام دوسرے رکن اسمبلی
اشوک سنگھ چنڈیل کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے اور عدالت سے فرار ہوجاتا
ہے۔ سابق وزیر مملکت سوامی چنمیانند کے خلاف آبروریزی کے الزامات واپس
لینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسے میں مودی جی نے تیسری اور سب سے بڑی غلطی
دہشت گردی کی ملزمہ سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو بھوپال سے اپنی پارٹی کا امیدوار
بنا کر کردی ۔ اس طرح ۱۷ سال بعد مودی وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے ۔
بی جے پی نے سادھوی کو امیدوار بنانے کا فیصلہ بڑے تذبذب کے بعد کیا ہے۔
کمل ناتھ نے جس دن یہ کہا کہ دگوجئے سنگھ کو راگھو گڑھ کی محفوظ نشست کے
بجائے بھوپال جیسے مشکل حلقہ ٔ انتخاب سے الیکشن لڑنا چاہیے اسی دن دگوجئے
سنگھ نے اس کے حامی بھر دی۔ اس نام کے آتے ہی ذرائع ابلاغ میں سادھوی کے
نام پر گفتگو ہونے لگی لیکن بی جے پی نے نہ تو تائید کی اور نہ اس کو اپنی
پارٹی کی رکنیت عطا کی ۔ کئی ہفتوں تک وچار منتھن کے بعد بالآخر جب بی جے
پی نے سادھوی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تو اسے باقائدہ پارٹی میں شامل کیا
گیا ۔ سادھوی کے بارے میں اول تو یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ اسے عدالت نے
بری کردیا ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔ مرکزی حکومت کے دباو میں این آئی اے نے
عدالت سے یہ ضرور کہا کہ اس کے پاس سادھوی کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے
۔ اس کے بعد عدالت نے اس پر سے مکوکا ہٹایا لیکن ہنوز اس پر یو اے پی اے کے
تحت دھماکوں کا الزام موجود ہے اور وہ بیماری کا بہانہ بنا کرضمانت پر گھوم
رہی ہے ۔
قومی سیاست میں جرائم پیشہ لوگوں کی موجودگی اب ایک عام بات ہوگئی ہے۔
موجودہ ارکان پارلیمان میں سے ۳۳ فیصدینے اپنے خلاف مجرمانہ معاملات کا
اعتراف حلف ناموں میں کیا ہے۔ان میں سے۱۰۶کے خلاف سنگین جرائم مثلاًقتل،
قتل کی کوشش، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا، اغوا اور خواتین کے
خلاف جرم جیسے معاملات درج ہیں۔جن دس ارکان پارلیمان نے قتل سے جڑے معاملات
کا اعلان کیا ہے،ان میں سے ۴کاتعلق بی جے پی سے ہے جبکہ کانگریس،این سی
پی،آر جے ڈی،ایل جے پی اور سوابھیمانی پکش سے ایک ایک ایم پی ہے اور ایک
ایم پی آزاد امیدوار پر بھی قتل کا الزام ہے۔ یہ سب حضرات رکن پارلیمان کو
حاصل شدہ مراعات پر عیش کررہے ہیں۔ قتل کی کوشش کرنے والے ۱۴ میں سے ۸ بی
جے پی اور کانگریس،ترنمول کانگریس،این سی پی، آر جے ڈی،شیو سینا اور
سوابھیمانی پکش کا ایک ایک ایم پی ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام
۱۴ کے خلاف ہے ان میں ۱۰ بی جے پی کے اور ٹی آر ایس ،پی ایم کے،اے آئی ایم
آئی ایم اور اے آئی یو ڈی ایف کے ایک ایک رکن پارلیمان شامل ہے۔
بی جے پی ہر معاملے سرِ فہرست اس لیے ہے کہ اس کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے
نیز اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پارٹی صدرامت شاہ کے خلاف دو مجرمانہ
مقدمات زیر التوا ہیں، ان میں سے ایک بہار اور دوسرا مغربی بنگال کی عدالت
میں درج ہے۔ دونوں ہی معاملات اشتعال انگیز تقریرکرنے سے متعلق ہیں۔ امت
شاہ کو کلکتہ ہائی کورٹ سے سزا دینے پر روک کا حکم ملا ہوا ہےلیکن اگر بی
جے پی اگلا قومی انتخاب ہار جاتی ہے تو یہ رکاوٹ بہ آسانی دور ہوسکتی ہے۔
امت شاہ پر پہلی بار الزام اس وقت لگا جب وہ گجرات میں وزیرمملکت برائے
داخلہ تھے۔ اس وقت کےوزیراعلیٰ نریندر مودی نے انہیں فوراً وزارت سے سبکدوش
کردیا لیکن وزیراعظم بننے کے بعد نریندر مودی نے ہی انہیں پارٹی کی صدارت
پر فائز کردیا ۔ یہ وقت وقت کی بات ہے لیکن اس سے قبل معاملہ قتل وغارتگری
تک محدود تھا ۔ اب بات دہشت گردی تک پہنچ گئی ہے۔ مودی جی اپنے ہر غیر ملکی
دورے پر دہشت گردی کے خاتمہ کا راگ الاپتے تھے اب اگر کوئی ان سے دریافت
کرے گا کہ دہشت گردی کے ملزم کو ایوان پارلیمان کی رکنیت دینے سے وہ فروغ
پاتی ہے یا ختم ہوتی ہے تو وہ کیا جواب دیں گے ؟
بھوپال پارلیمان حلقہ سے سادھوی کو ٹکٹ کیا ملا کہ گویا سورگ کا پروانہ مل
گیا اور اس نے خوشی میں آپے سے باہر ہوکراعلان کردیا کہ مہاراشٹر اے ٹی
ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی موت اس کے بددعا سے ہوئی ۔پرگیہ کے مطابق اس
سے پوچھ تاچھ کرنا ملک سے غداری اور مذہب کے خلاف کام تھااس لیے بددعا دی
گئی تھی کہ ہیمنت کرکرے کی نسل تباہ و برباد ہوجائے ۔ ہندو دھرم کے
مطابقہے، جب کسی کے یہاں پیدائش یا موت ہوتی ہے توٹھیک سوا ماہ بعد سوتک
لگتا ، پرگیہ جب میں وہاں گئی تو ہیمنت کرکرے کے یہاں سوتک لگ گیاتھا اور
ٹھیک سوا ماہ بعد انہیں دہشت گردوں نے مار گرایا، اس دن سوتک ختم ہوگیا ۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی ہیمنت
کرکرے کے گھر سوتک کی اثر پذیری دیکھنے کی خاطر گئے تھے یا تعزیت کرنے کے
لیے پہنچے تھے؟ شاید یہی وجہ تھی ہیمنت کرکرے کی اہلیہ کویتا کرکرے نے مودی
کی ایک کروڈ کی مدد کو ٹھکرا دیا تھا بلکہ اپنے دروازے سے انہیں بیرنگ لوٹا
دیا تھا ۔ کویتا کرکرے کی دور اندیشی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے اس وقت
اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص آگے چل کر ان کے شوہر سے نفرت کرنے والی اور
انہیں بددعا دینے والی سادھوی کو رکن پارلیمان بنانے کی سعی کرے گا۔
دہشت گردی میں ملوث اس پاکھنڈی سادھوی نے ایک دن بعد اپنے بیان سے مکر کر
بتا دیا کہ وہ کس قدر بزدل ہے۔ سادھوی نے جب دیکھا کہ اس کی مائی باپ بی جے
پی نے اس سے پلہ جھاڑ لیا ہے تو وہ خود بھی پلٹ گئی اور اپنا بیان واپس لے
لیا ۔ پرگیہ نے کہا، ’’یہ میرا ذاتی بیان ہے کیوں کہ اذیتیں میں نے سہی
ہیں۔ میں سنیاسی ہوں، یہ میرا مفہوم ہے اور ہم ملک کو کبھی کمزور نہیں ہونے
دیں گے۔ یہ اپنے گھر کی لڑائی ہے اور اگر اپنے گھر کی لڑائی میں میں نے کہا
کہ میرا استحصال کیا گیا تو وہ مفہوم غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر دشمنوں کو
میرے بیان سے تقویت حاصل ہو رہی ہے تو میں یہ کہوں گی کہ ہم دشمنوں کو
مضبوط نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ اس گھوم جاو میں اول تو تردید یا شرمندگی نہیں
ہے اوررجوع کی وجہ دشمنوں کا فائدہ اٹھانا بتایا گیا ہے لیکن جس کی بددعا
سے دہشت گرد آکر دشمنوں کا خاتمہ کردیتے ہوں اس کو کس بات کا خوف؟ وہ دگ
وجئے کے خلاف نیا سوتک شروع کرواکر ان کو بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک
کرواسکتی ہے۔ سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو صحیح کہتے ہیں اس بی جے پی حکومت نے
ہندوستان کو ساری دنیا میں مضحکہ خیز ملک بناکر رکھ دیا ہے۔ اس میں تازہ
اضافہ سادھوی پرگیہ یہ حماقت خیز اور نفرت انگیز بیان ہے۔
لال کرشن اڈوانی نے ۱۹۹۰ میں جب منڈل کے سامنے کمنڈل سنبھال کر سومناتھ
مندر سے رتھ یاترا شروع کی تھی ان کا ایک سارتھی (رتھ چلانے والا) نریندر
مودی بھی تھا۔ اس کے باوجود ۲۰۰۲ تک اس سارتھی کو سیاسی بن باس جھیلنا پڑا
کیونکہ کیشو بھائی پٹیل نے سنجے جوشی کو دیا ہوا وچن نبھاتے ہوئے مودی کو
گجرات سے نکال باہر کیا تھا ۔ مودی جی نے ایک طویل عرصہ دہلی کے مرکزی دفتر
اور دیگر صوبوں اور ملکوں کی خاک چھاننے میں گزارہ۔ ۱۲ سال بعد جب کیشو
بھائی پوری طرح ناکام ہوگئے تو اڈوانی جی کو اپنے سارتھی کی یاد آئی اور
انہوں نے مودی کو وزیراعلیٰ بناکر احمد آباد بھیج دیا ۔ یہ مودی یگ کا
آغاز تھا ۔ نریندر مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بی جے پی کو دوبارہ
انتخاب میں کامیاب کرنے کا تھا ۔ اس موقع پر گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس
کے اندر آگ لگی اور ۶ہ رام بھکت ہلاک ہوگئے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر
وزیراعلیٰ مودی نے پورے گجرات میں قتل عام کروایا ۔
اٹل جی اس وقت وزیراعظم تھے انہوں نے محسوس کیا کہ راج دھرم کا پالن نہیں
ہورہا ہےلیکن جب مودی کو ہٹانے کی کوشش کی تو اڈوانی جی سارتھی بن کر میدان
میں کود پڑے اور نریندر مودی کو چکرویوہ سے نکال لیا ۔ فی الحال یہ حالت ہے
کہ مودی جی نے اپنے سارتھی کو ہٹا کر اس کی جگہ چیلے کو گاندھی نگر کے رتھ
پر سوار کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل نریندر مودی کے ساتھ امیت شاہ
کیا سلوک کرتے ہیں؟ وہی جو مودی نے اڈوانی کے ساتھ کیا اس سے مختلف؟
مہابھارت میں ارجن کا رتھ کرشن کے اترتے ہی جل کر خاک ہوجاتا ہے۔ ارجن کے
سوال کرنے پر جواب ملتا ہے یہ تو برہماستر کی اثر سے کب کا تباہ ہوچکا تھا
۔ کرشن کی اس میں موجودگی کے سبب ٹکا ہوا تھا اور اگر ارجن پہلے نہیں اترتا
تو رتھ کے ساتھ وہ بھی جل کر راکھ ہوجاتا۔ بی جے پی کا یہ رتھ کب تک چلے گا
اور کب تباہ ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ اس لیے کہ کائنات ہستی میں ہر نفس
کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ |