ایران میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ۔۔؟

 یہ خبر حیران کن تھی کہ اورماڑہ میں ہمارے نوجوانوں کوشہیدکرنے والے دہشت گرد ایران سے آئے تھے ،حیران کن اس لیے تھی کہ کبھی سوچابھی نہیں جاسکتاتھا کہ ہمارابرادرملک بھی اس راہ پرچل رہاہے جس راہ پرہمارے دشمن ممالک بھارت ،اسرائیل چل رہے ہیں ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں بتایاکہ اورماڑہ میں چند روز قبل ہمارے سپاہیوں کو جیسے ہاتھ باندھ کر شہید کیا گیا پوری قوم غم و غصہ میں ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا۔ ایک اتحاد سامنے آ چکا ہے جو بلوچستان لبریشن آرمی (بی آر اے )کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس میں کئی بلوچ دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں انھوں نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ہمارے پاس فورنزک شواہد موجود ہیں۔ جنہیں استعمال کرکے اس واقعے کے مجرمان کو پکڑا جا سکتا ہے ۔ اورماڑہ کے حملہ آوروں کی کمیں گاہیں ایران میں ایرانی سرحد کے اندر ہیں اور ایران کو اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔۔

وزیرخارجہ کی یہ پریس کانفرنس بہت کچھ عیاں کررہی ہے قوم پہلی بارسوچ رہی ہے کہ آخرایران بھارت ،اسرائیل ،امریکہ اوردیگراستعماری طاقتوں کے عزائم کی تکمیل کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف خطرناک کھیل کیوں کھیل رہاہے ؟ پاکستان نے صوبہ بلوچستان سمیت خطے میں امن و امان کی مخدوش صورت حال پرقربانیوں کے بعد قابو پایا ہے ۔مگرایران ، بھارت اوردیگراستعماری طاقتوں کویہ ہضم نہیں ہورہا،جس وقت کہ پاکستان نے بھارت کی پیشانی خاک آلود کر دی ہے اور بھارت کی عزت آسمان کی بلندیوں سے زمین پر آچکی ہے اورحالیہ پاک بھارت جنگ میں ذلت اٹھانے کے بعد مود ی تلملارہاہے توایسے حالات میں ایران پاکستان کے خلاف وہی اقدامات کررہاہے جوایک دوست ملک کے نہیں بلکہ دشمن کے ہوتے ہیں ۔حالیہ پاک بھارت جنگ میں ٹرپل اے ممالک کاپاکستان کے خلاف مشترکہ حملے اورمنصوبہ بندی کی خبربھی منظرعام پرآئی تھی تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق انڈیا،اسرائیل اورتیسراملک ایران تھا ۔

ہماری تمام ترہمدردیوں اورایثارواحسان کے باوجود ایران کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں اس کی واضح مثال سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان کے حالیہ دورے کے دوران ایران کامنفی پروپیگنڈہ ہے حالانکہ یہ وہی ایران ہے جو اسرائیل کے وزیرِ اعظم کے دورہ بھارت پراپنے دوست ملک بھارت کے خلاف بھی ایسا منفی پروپیگنڈہ نہیں کرتا؟ جب اسرائیل سے وفد بھارت جا کر کئی کئی ہفتے قیام کرتا ہے کیا کبھی ان کی آمد پر بھی ایران کو اتنی ہی تکلیف ہوئی ہے جتنی سعودی ولی عہد کے پاکستان آنے پر ایران کو ہوئی تھی؟ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد دینے پر سعودیہ کے خلاف ایران کے پیٹ میں مروڑکیوں اٹھتی ہے؟
یہ وہی ایران ہے کہ جب کلبھوشن یادیو نے اعتراف کر لیا تھا کہ وہ ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا تو ایران بھارت کی نہ صرف مذمت کرتابلکہ احتجاج بھی کرتا ۔ ایران بھارت سے اتنا تو کہتا کہ بھارت نے ایران کی سرزمین کو پاکستان میں جاسوس داخل کرنے کے لیے استعمال کر کے غلط کیا۔ مگر ایران چپ رہا۔ جب ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی تھی تو ایران نے کیوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیں؟ایران میں بھارتی مداخلت کے باوجود ایران نے کبھی بھی بھارت کو عالمی افق پر شرمندہ نہیں کیا ۔بجائے ایک ہمسایہ ملک ہونے کے ایران کا بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھاناسوائے اپنے قلبی بھڑاس نکالنے کے اور کس چیز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟

ایران نے چاہ بہار بندر گاہ کے پہلے فیز شاہد بہشتی پورٹ کا اپریشنل کا کنٹرول 18 مہینوں کے لیے بھارت کے سپرد کرکے مشرق وسطی اور پاکستان کے لیے نئی جنگ کی بنیادرکھی۔ اور85 ملین ڈالر کی انڈین انوسٹمنٹ گوادر سے صرف 90 کلو میٹر کی دوری پر کرکے دونوں ممالک نے اپنے عزائم کی نشاندہی کردی ہے ؟ حالانکہ کئی اہم مواقعوں پربھارت نے ایران کاساتھ نہیں دیا بھارت اورایران کے باہمی تعلقات کی ابتدا 1950 میں ہوئی ۔1979 کے خمینی انقلاب میں بھارت نے انقلاب خمینی کا ساتھ نہیں دیاتھا ۔اور عراق ایران جنگ میں بھی بھارت نے ایران کی بجائے عراق کو سپورٹ کیا تھااس کے باوجود پاکستان کے خلاف ایران اوربھارت متحد ہیں ۔1990 میں افغانستان کی جنگ میں بھارت اور ایران نے افغان طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کا ساتھ دیا اور اب تک افغانستان میں بھارت اور ایران کا باہمی انفراسٹراکچر کے کاموں میں تیزی اور دونوں ممالک کا افغانستان پر خاص کرم پاکستان کے لیے خطرناک خدشات کو مہمیز دے رہا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ تاپی TAPI ) )منصوبہ جو 2019 تک مکمل ہوناتھا ۔اور اس سے ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان پھر بھارت کو گیس سپلائی کی جانی تھی ۔یہ ایران کے اپنے منصوبے (IPI ) سے متصادم ہے۔(TAPI) ملک کو ناصرف مائع گیس کے بحران سے نکالے گا بلکہ خطے کی معاشی ،سیاسی اور ثقافتی شعبوں کو بھی باہم جوڑنے میں مدد گار ہوگا ۔ (TAPI)کی سیاسی اہمیت اور (IPI ) کا مخدوش مستقبل ایران کو ہضم نہیں ہورہا ۔ پیپلزپارٹی کے دور میں سابق صدر آصف علی زرداری نے (IPI )منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں پاکستان ،ایران،بھارت شامل تھے۔کیوں کہ اس وقت پاک بھارت تعلقات کا دور اچھا تھا ۔ لیکن بعد میں بھارتی حکومت نے زائد اخراجات کا بہانہ بنایااور (IPI )منصوبے سے الگ ہو گیا ۔ایران نے اس علیحدگی کاالزام پاکستان پر عائد کر تے ہوئے کہتاہے کہ پاکستان بھارت سے کشیدگی کو ختم کرے اور اپنے حصے کی پائپ لائن بچھائے۔

وقت کی اہم ضرورت اور جنوبی وسطی ایشیا کی عوام اور حکومتیں بھی چاہتی ہیں کہ پاکستان دنیا کے لیے تجارت ،توانائی اور مواصلاتی رابطوں کا ذریعہ بنے جو کہ پاکستان چین اکنامک کوریڈار سے ممکن ہے۔اور اس منصوبے کی شکل میں سنجیدہ حلقوں کو گوادر مستقبل کا دبئی نظر آرہا ہے۔چین کی اتنی بڑی سرمایہ کاری انڈیا ایران ،امریکہ ودیگراستعماری طاقتوں سے برداشت نہیں ہو رہی ۔دوسری طرف ایرانیوں کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی عدم تکمیل کا غصہ اپنی جگہ موجود ہے ۔

ایران اور امریکا سمیت دیگر مغربی اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں جوہری معاہدہ ہوا تھا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر بننے کے بعد گزشتہ برس اس معاہدے سے دست برداری کا فیصلہ کرتے ہوئے ایران پر پابندیاں بحال کردی ہیں جس کی وجہ سے بھی ایران مسائل کاشکارہے ۔ ایران میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے زیادہ ہے اور 8 کروڑ آبادی کے حامل ملک میں 30 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔مگراس کے باوجود ایران اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے بازنہیں آرہاہے ان حالات میں بھی ایران پاکستان ،یمن ،شام ،سعودی عرب ،عراق ،افغانستان ،لبنان میں مداخلت کررہاہے اوران ممالک میں دہشت گردی کامرتکب ہورہاہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ ایران کادشمن کوئی اورنہیں وہ خود اپنادشمن ہے ۔۔

پاکستان نے بھارت ،افغانستان سے ملحقہ بارڈرکے بعد اب ایرانی بارڈرپربھی کچھ اقدامات اٹھائے ہیں جوکہ خوش آئندہیں ایک نئی سدرن (جنوبی)کمانڈ تشکیل دی گئی ہے جو علاقے میں نگرانی اور فوری رد عمل کا کام کرے گی۔ اس کا مرکز تربت میں قائم کیا گیا ہے۔ایران سے ملحقہ سرحد کی بہتر انتظام کے لیے پاکستان نے ایک نئی کور فرنٹرئر کور بھی بنائی ہے۔ایران اور پاکستان کی سرحد کو پر امن رکھنے کے لیے چند بارڈر سنٹرز بنائے جائیں گے۔سرحد پر باڑہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ مہنگا اقدام ہے مگرقوم کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے ۔ 950 کلو میٹر طویل یہ باڑ ہ لگائی جائے گی۔سرحدی گشت میں ربط پیدا کیا جائے گا۔سرحد نگرانی کے لیے ہیلی سروس بھی شروع کی جائے گی۔

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 32624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.