عالم عرب کا بحران امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی سازش

عالم عرب انقلابی بحر الکاہل میں غوطہ زن ہے۔ تبدیلی کی برق رفتار موجوں کا زور ہے۔ بادشاہوں کے تخت لرز رہے ہیں۔ تاج چھینے جارہے ہیں۔ تبدیلی کے طوفان پتہ نہیں کیا کیا گل کھلاتے ہیں؟ شاعر نے خوب کہا تھا ۔ چلی ہے رسم جو تم سے چلی باعث تنقید بنی۔ تبدیلی کی لہر اور بڑھے گی۔ تیونس اور مصر کے بعد بحرین یمن شام اور متحدہ عرب امارات اور لیبیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ عرب نیشنل ازم کے بانی جمال ناصر کے بعد انور سادات مصر میں سربرائے سلطنت ہوئے۔ سادات کے سانحہ ارتحال کے بعد تخت حسنی مبارک کے مقدر کا سکندر بن گیا۔ جمال ناصر کی لبرل پالیسیوں اور قوم پرستی کی پیروی انور سادات اور حسنی مبارک نے پوری دل جمعی سے کی مگر نصف دہائی کے بعد خطے میں عرب نیشنل ازم کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مڈل ایسٹ میں تبدیلی کی ہوائیں اور عوامی غیض و غضب کا جوش عالم عرب کے کئی حکمرانوں کے تاج اچھالے گا ۔ تاریخی محققین کا کہنا ہے کہ تبدیلی کے اس عمل کو انقلاب نہیں کہا جا سکتا۔ عالم عرب میں قیادت کا فقدان ہے۔ کوئی شخص رہنما یا حکمران ایسا نہیں جو خطے میں بیروزگاری بھوک کرپشن غربت تنگدستی اور جہالت کے رقص بسمل کے جن کو بوتل میں بند کرسکے۔ علاوہ ازیں امہ کے اکثر رہنماؤں کا دامن فرقہ واریت لسانی جھگڑوں اور قوم پرستی کی سیاہی سے داغدار ہے۔ خلافت عثمانیہ امت مسلمہ کی آخری نشانی تھی ۔ امریکہ اور برطانیہ نے قوم پرست عرب رہنماؤں کی معاونت سے خلافت کے حصے بخرے کردئیے۔ خلافت عثمانیہ پہلی جنگ عظیم1914 تا1918 کے بعد دم توڑ گئی۔ خلافت کو یہود و ہنود کی ریشہ دوانیاں اور امت مسلمہ کا خلفشار لے ڈوبا۔۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں ایسا بحران پیدا کردیا کہ اندیشہ اور خدشہ ہے کہ وہ عربوں کو دوبارہ قومیتوں اور لسانیت کے نام پر تقسیم کرے گا اور یہ عمل2012 تک مکمل کیا جانا ہے۔ گو کہ یہ موجودہ عالمی اور علاقائی واقعات اور حالات کی روشنی میں اندیشے خدشے اور وہم و وسوسے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر مسلم حکمرانوں نے ہنگامی طور پر ملی یکجہتی کو یقینی نہ بنایا فرقہ وارانہ تضادات اور امریکہ کی تابعداری کے شکنجے سے جان نہ چھڑوائی تو امہ ذلت کی ایسی پستی کا نشانہ بنے گی جسکا تصور بھی محال ہے۔ لیبیا میں عوامی بغاوت کا الاؤ روز بروز دہک رہا ہے۔ کرنل قذافی جو ماضی میں اپنے استعمار مخالف اقدامات سے روئے ارض کے ہر کونے میں مقبول تھے تاہم لیبیائی حکومت نے افواج کی مدد سے عوامی بغاوت کو رفو کرنے کے لئے سطوت جبروت اور ریاستی جبر کا سفاکانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ایک ہزار سے زائد لوگ سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے۔ لیبیا میں عوام پر وحشت و بربریت ڈھانے اور اقتدار سے ہر صورت میں چمٹے رہنے کی ہٹ دھرمی نے قذافی کی مقبولیت اور شہرت کو بھاپ کی طرح منٹوں میں فضا میں تحلیل کردیا۔ امریکہ نے مصر میں جو منافقانہ کردار ادا کیا ہے وہ مسلم دنیا سے انکے تعصب کی مثال ہے۔لطف تو یہ ہے کہ امریکہ کا کردار بے نقاب ہوچکا ہے۔ مصر میں ڈکٹیٹر شپ اور آزادی اظہار کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال تھی۔ امریکہ تذبذب کا شکار تھا کہ عوامی اژدہام اور ڈکٹیٹر شپ میں سے کس کی حمایت کی جائے۔ امریکہ کو اپنی سرحدوں سے دور جمہوریت حقوق انسانی اور سیاسی استحکام سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ڈکٹیٹرز یا سیاسی حکمرانوں میں سے جو کوئی اپنی پالیسیوں کو امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے تشکیل دیتا ہے وہ امریکہ کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔ اگر کوئی جمہوری حاکم امریکی مفادات پر قومی مفادات کو فوقیت دیتا ہے وائٹ ہاؤس اسکا جانی دشمن بن جاتا ہے۔یوں امریکی پشت پناہی سے اقتدار کے ایوانوں میں گل چھڑے اڑانے والے مسلم حکمرانوں کو وائٹ ہاؤس کی نوکری و چاکری کی بجائے اپنی قوم سے والہانہ پیار کرنا چاہیے ورنہ انکا حشر بھی تیونس مصر اور کرنل قذافی سے مختلف نہیں ہوگا۔ کرنل قذافی کوئی معمولی حکمران نہیں ہیں۔ اپنی سنگ کے حوالے سے انکے کئی قصے مشہور ہیں۔ وہ جب کبھی بیرونی دوروں میں خیمہ لیکر جاتے ہیں۔ وہ2007 میں فرانس گئے تو قذافی نے ایوان صدر کے باغیچے میں لگائے گئے خیمے میں وقت گزارا۔ کہا جاتا ہے کہ قذافی ہمیشہ اپنے قبیلے سے منسلک رہنے اور خاندانی روایات کو زندہ رکھنے کی خاطر خیمے استعمال کرتے ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی تو قذافی1969 میں عالم عرب میں انے والے فوجی انقلابات کے نتیجے میں لیبیا کے بادشاہ بنے۔ وہ جمال ناصر کو سیاسی پیشوا اور اپنے آپکو اسکا حقیقی جانشین سمجھتا ہے۔ وہ ماضی میں اسرائیل کو نیست و نابود کرنے، امریکہ کو شکست دینے کی ہاہاکار مچایا کرتا تھا مگر نائن الیون کے بعد سے وہ بتدریج کمزور سے کمزور تر ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔ قذافی اور حسنی مبارک کے درمیان کئی مشترک اوصاف پائے جاتے ہیں۔ دونوں اپنے بیٹوں کو جانشین بنانا چاہتے تھے۔ قذافی اپنے فرزند سیف الاسلام جبکہ مبارک اپنے لخت جگر جمال مبارک کو مستقبل میں زمام اقتدار دینے کے خواہاں تھے۔ قذافی نے حال ہی میں پاکستان کے خلاف توہین آمیز کلمات کی بھر مار کی ہے۔ قذافی احتجاج کرنے والوں کو باغی سمجھتا ہے۔۔ قذافی نے سیکیورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ باغیوں کو چوہوں کی طرح کچل دو ورنہ لیبیا ایک دن افغانستان یا پاکستان بن جائے گا۔ پاکستان کو افغانستان سے تشبیہ دینا غلط ہوگا۔ پاکستان ایک آزاد و خود مختیار ملک ہے جو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے۔ پاکستانیوں نے ڈیرہ بگٹی فاٹا اور لال مسجد میں بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے ڈکٹیٹر مشرف کو ووٹ کی طاقت سے شکست دی۔ پاکستانی قوم نے چار ڈکٹیٹرز ایوب خان یحیی خان ضیاالحق اور مشرف کو سیاسی تحریکوں اور عوامی قوت کے بل بوتے پر بھگانے کا ریکارڈ قائم کررکھا ہے۔ قذافی بھٹو کے قریبی دوست تھے۔ قذافی نے1974 میں پاکستان کے جوہری پروگرام کی حمایت کی۔ قذافی نے بھٹو کی سربراہی میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں ذوق و شوق سے شرکت کی۔ قائد عوام بھٹو نے ایٹمی قوت کی پرزور وکالت کرنے پر پاکستان کے سب سے کرکٹ اسٹیڈیم کو قذافی کے نام سے منسوب کردیا ۔ افغان سوویت جنگ میں لیبیا کے سینکڑوں نوجوان جہاد کے لئے پاکستان آئے۔ جنگ ختم ہوئی تو لیبیائی مجاہد پاکستان اور افغانستان میں بس گئے۔قذافی سوویت یونین یعنی کیمونسٹ بلاک میں شامل تھا۔ اسی لئے طرابلس نے افغان جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین کو دہشت گردوں کا لقب دیکر انکی شہریت منسوخ کر دی۔ قذافی نے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی تو ان مجاہدین کی وطن واپسی ناممکن ہوگئی تھی۔ قذافی نے مخالفین کو باغیوں اور چوہوں سے تشبیہ دیکر اتاولے پن کا ثبوت دیا ہے۔ ہوسکتا ہے انکا اپنا کردار کھسیانی بلی ایسا ہو۔ انکی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ قتل کردئیے جانے کا خوف ہر وقت انکے اعصابوں پر چھا چکا ہے۔ قذافی کو اپنی سیکیورٹی فورسز تک اعتبار نہیں۔قذافی کی پرسنل سیکیورٹی کا ذمہ انکے فرزند کے سپرد ہے۔ ملکی ایجنسیوں کی سربراہی انکے رشہ داروں کے پاس ہے۔ قذافی شاہ ادریس کو معزول کر کے لیبیا کا پردھان منتری بنا۔ اس نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا اور شراب پر پابندی عائد کردی۔ کہا جاتا ہے کہ قذافی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی چاہتا تھا مگر اسکی دال نہ گل سکی۔ قذافی بھٹو شاہ فیصل اور یاسر عرفات کو آزادی فلسطین کی بے لاگ وکالت کرنے پر مسلم اقوام میں خاصی شہرت عزت و تکریم ملا۔ قذافی ایک طرف فلسطینی عقیدت کے پیش نظر اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بڑھکیں مارتا تھا تو دوسری طرف وہ قول و فعل کی بدچلنی اور دوہری حکمت عملی کا اسیر بن چکا تھا۔اس نے 30 ہزار بے سائباں و بے خانماں فلسطینیوں کو بے سروسانی کے عالم میں لیبیا سے نکال دیا۔ لیبیائی فورسز نے ہمسائیے چاڈ کے علاقے پر قبضہ کیا تو فلسطینیوں نے جارحیت اور چاڈ پر حملے کی مخالفت کی تو قذافی آگ بگولہ بن گیا اور جلاوطن فلسطینی بھائیوں اور ماؤں کو رسوائی کے عالم میں دربدرکر دیا۔ امریکہ نے1986 میں قذافی کے محل پر میزائل داغے۔اسکی بیٹی ہلاک ہوگئی ۔ قذافی نے امریکہ سے بدلہ لینے کا اعلان کیا مگر یہی شعبدہ باز2009 میں نیویارک پہنچ گیا ۔ قذافی نے اسرائیل کو امریکی صدر کینڈی کے قتل کا مجرم قرار دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ملوکیت کا علمبردار چاہے حسنی مبارک ہو یا بادشاہت کی کوکھ سے جنم لینے والا رضا شاہ پہلوی ہو۔ ڈکٹیٹر شپ کا پیاسا مشرف ہو یا ضیاالحق شخصی آمریت کا پیروکار معزول تیونسی صدر زین العابدین ہو یا جمہوریت کے نام پر انسانیت کا خون کرنے والے بش جونیر ہوں یا ڈیڈی بش وہ قذافی ہو یا ایوب خان یہ سارے ایک ہی تھیلی کے کچھے چھٹے ہیں۔یہ ٹولہ نہ صرف اپنی اقوام کے لئے وبال جان بن جاتا ہے بلکہ یہ مسلمانوں اور انسانوں کے لئے بدنامی کا باعث ہیں۔ قذافی کے خلاف 1998 میں بغاوت کا شعلہ جوالا دہک اٹھا مگر جلد ہی راکھ بن گیا۔ تاہم چنگاریاں سلگتی رہیں اور آج وہ الاؤ کا روپ دھار چکی ہیں۔ قذافی نو دو گیارہ کے بعد امریکی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر وائٹ ہاؤس میں قالین کی طرح بچھ گیا۔ پاکستان نے ریمنڈ ڈیوس کو امریکی دھمکیوں کے باوجود جیل بھیج دیا۔ کیا قذافی اور کرزئی کو پاکستان کے ساتھ منسوب کیا جاسکتا ہے؟ قذافی چاہے انقلابیوں کو چوہے کہہ کر موت کے سپرد کرنے کا فرعونی حکم دے یا ٹی وی چینل پر فرسودہ اور بنجر قسم کی تقریر سے لاکھوں مظاہرین کی سلگتی ہوئی نفرت کے الو کو سیدھا کرنے کا دھوکہ دے مگر حقیقت یہ ہے کہ کامیابی نہیں مل سکتی۔ اسکی ملوکیت اور شہنشاہیت کی 30 سالہ شب دیجور چند دنوں میں صبح پرنور بننے کے قریب ہے۔ قذافی اگر ٹھڈے کھا کر صدارتی محل کو خالی کرنے کا خواہاں ہو یا وہ کسی چوراہے پر مصلوب ہونے کا شوق رکھتا ہے تو اسکی مرضی ورنہ لازم ہوچکا ہے کہ وہ فوری پر سعودی عرب میں پناہ کی ایڈوانس بکنگ کو یقینی بنائے کہیں ایسا نہ ہو کہ سعودی عرب ہاؤس فل کا بورڈ آویزاں کردے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.