کتنے سورج تڑپ کے ڈوب گئے
شب ہجراں تیری سحر نہ ہوئی
محترمہ عائشہ مسعود کی کتاب کشمیر 2014کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ
’کتاب میلہ ‘ میں ’’مسئلہ کشمیر تاریخی تناظر میں‘‘ کے عنوان سے مجلس
مذاکرہ کے انعقاد سے ہمیں مل بیٹھ کر بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ محترمہ
عائشہ مسعود نے اپنی کتاب میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ
ہزاروں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں لیکن انہیں اقوام متحدہ کا
تسلیم شدہ حق ’حق خود ارادیت‘ آج تک کیوں نہ مل سکا ہے اور مسئلہ کشمیر کا
مستقبل کیا ہے اور اس کے حل کیلئے کیا قابل عمل لائحہ عمل (Strategy)اختیار
کیا جا سکتا ہے ؟
خواتین و حضرات! ان سوالات میں ، میں ایک اور سوال بھی شامل کرتا ہوں کہ
اور کب تک کشمیریوں کا خون بہتا رہے گا۔ آزاد یٔ کشمیر کیلئے کشمیریوں کی
قربانیوں کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں مل سکتی ۔1947ء میں پانچ لاکھ
انسانوں کا لہو اور گزشتہ 25سال میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی جانوں کی
قربانی، ہزاروں نامعلوم قبریں ، ہزاروں Half widows، اور بھارتی فوج کی
پیلٹ گنز کا شکار ہو کر بینائی کھونے والے بچے، لیکن وہ پھر بھی کہتے ہیں
کہ
کتنے تم آفتاب چھینو گے
کتنے تم مہتاب چھینو گے
چھین لیتے ہو ان کی آنکھیں بھی
پر کہاں ان کے خواب چھینو گے
لیکن کشمیر میں بہنے والا خون وہاں رُکتا نہیں ہے ۔ یہ خون مختلف دریاؤں کے
ذریعے آزاد کشمیر اور پاکستان میں آتا ہے۔ یہاں کی فصلوں کو سیراب کرتا ہے
اور یہ لہو رنگ پانی کہتا ہے۔
یہ صرف نہیں پانی ، ان پاک زمینوں کا
شامل ہے لہو اس میں کشمیری شہیدوں کا
لیکن یہ خون جب اِس طرفLOCکراس کرتا ہے تو اس کے ہر قطرے میں ایک سوال
پنہاں ہوتا ہے جو آزاد کشمیر اور پاکستان کی قیادت سے پوچھتا ہے کہ یہ لہو
رائیگاں کیوں جا رہا ہے؟ اتنا لہو اور اتنی قربانیوں کے باوجود آزادی کی
منزل کی طرف ایک قدم بھی کیوں نہ بڑھ سکا۔ یہ خون ،خاک نشیناں کب تک رزقِ
خاک ہوتا رہے گا۔
معزز خواتین و حضرات! میدان ِ جنگ سے لوٹتے ہوئے اﷲ کے آخری رسول ﷺ نے
فرمایا ۔ آؤ ہم جہادِ اصغر سے جہاد اکبر کی طرف چلتے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے
پوچھا یا رسول اﷲ ؐ ! یہ جہادِ اکبر کیا ہے ؟ تو نبی پاکؐ نے فرمایا ’’اپنی
روحوں کے میلے رحجانا ت کو دھوڈالنا ، جھوٹ، انتقام ، حسد ، غیبت اور ادنیٰ
آرزوں سے نجات، نبی پاک ﷺ کے ان ارشادات کو ہم مجموعی طور پر تزکیۂ نفس ،
کا عمل کہہ سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر بھی آج اپنا تزکیہ چاہتا ہے۔ ہم ایک
دوسرے کو بتاتے ہیں کہ دنیا بڑی بے حس ہو گئی ہے۔ ہماری بات نہیں سنتی۔
عالمی ضمیر مردہ ہو گیا ہے ۔ لیکن دنیا کا ضمیر جگانے کیلئے بقول فیضؔ اِس
ارضِ وطن کے چہرے کو گلنار کرنے کیلئے اور کتنا لہو چاہیے ہو گا۔ میرے خیال
میں کشمیریوں کا گل رنگ لہو اُس وقت تک بہنے سے نہ رُکے گا اور نہ ہی اس کی
آبیاری سے آزادی کے پھول کھِل سکیں گے جب تک ہم اپنی موجود ’’کشمیر پالیسی
‘‘ کا تزکیہ اُس طرح نہیں کرتے جس طرح کا تزکیہ کرنے کا حکم ہمارے نبی ﷺ نے
ہمیں دیا ہے اور بقول اقبال ؛
جہاں تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
¨ لیکن اگر لاکھوں انسانوں کے بے گناہ خون کی قربانیوں کے باوجود بھی صورت
حال یہ ہو کہ
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ پھر بھی کم نہیں ہوتا
تو پھر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کو Re-visitکریں اس پر
نظر ثانی کریں ۔ اپنے ارد گرد کی دنیا کے حالات کو دیکھیں اور ہر لمحہ
تبدیل ہونے والی بین الاقوامی صورتحال میں اپنی منزل کے حصول کیلئے بہتر سے
بہتر Strategyتشکیل دیں۔
معزز سامعین ! آج کی صورتحال یہ ہے کہ یورپ ، امریکہ اور ایشیائی ممالک کے
ساتھ بھارت کے تعلقات تو ایک طرف رکھیں آپ اُن کی طرف دیکھیں کہ جن پر
ہمارا تکیہ ہے اور وقت آنے پر وہ پتے بھی ہوا دینے لگ جاتے ہیں۔ ابھی ایک
ماہ پہلے UAEمیں ہونے والی اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں
صورتحال یہ تھی کہ پاکستان اس اجلاس میں غیر حاضر تھا اور بھارت کی خاتون
وزیر خارجہ مہمان خصوصی کے طور پر وہاں شرکت کر رہی تھی ۔ جس کے ہاتھ
لاکھوں کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہاں کا حکمران دنیا کے سب سے
بڑے بت خانے کا اِفتتاح کر رہا تھا ۔
راز پہنچے ہمارے غیروں تک
مشورہ کر لیا تھا اپنوں سے
( یا بقول شاعر کے کہ
یہ جو تیرے ہیں سب تیرے نہیں ہیں
ہم نے انہیں اک اور بھی گھر دیکھا ہے
ایسے واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں ۔ ہماری تحریک آزادی کو
اگر ہندوستان ’دہشت گردی کی جنگ‘ کے طور پر دنیا میں پیش کرنے میں کامیاب
ہو رہا ہے تو ہمیں اس کا توڑ کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانا ہو
گا ۔ کشمیریوں کے بہنے والے خون کو صرف خبرنامے کی زینت بنانے سے بات نہیں
بنے گی یہ قربانیاں اپنا ثمر مانگتی ہیں۔
ابھی اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کے بعض اداروں کی جانب سے کشمیری عوام پر
ہونے والے بھارتی مظالم پر کئی تفصیلی رپورٹس بھی آئی ہیں لیکن ورلڈ
کمیونٹی میں انہیں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ملنا چاہیے تھی اور وہ رپورٹس
بھی کسی الماری کی زینت بن کر رہی گئی ہیں ۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے ہمیں اس
کی وجوہات تلاش کرنا ہونگی ۔ حالات کا گہرا تجزیہ کرنا ہو گا۔
معزز خواتین و حضرات ! دنیا میں ماضی میں بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں اور آج
بھی ہو رہی ہیں لیکن آخر معاملات بات چیت کے ذریعہ ہی حل ہوتے ہیں ۔ کسی
بھی آزادی کی تحریک کا سیاسی پہلو کم اور عسکری پہلو زیادہ ہو جائے تو وہ
قابض ملک اور اس کی فوج کیلئے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے کہ وہ آزادی کی
تحریک کو تشدد کے ذریعے کچلنے اور وہ تحریک آزادی فائدہ کے بجائے نقصان
اٹھاتی ہے ۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مسئلہ فلسطین کیلئے اوسلو
اکارڈ نے فلسطین کی آزاد ریاست کی بنیاد رکھی لیکن حماس کی Militencyنے
فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کو آسانیاں فراہم کیں ۔ اس لئے ہمیں اُس نازک لکیر
کا خیال رکھنا ہو گا کہ آزادی اور عوامی حقوق کا جدوجہد کس طرح چلے کہ وہ
حقوق کی جنگ کہلائے گی اور کس حد کو پار کر جائیں تو قابضین اُسے دہشت گردی
کے طور پر Paintکرینگے اور آزادی کے حتمی حصول کیلئے وہ بے ثمر (Counter
productive)ہو جائے گی اور اس سے ہندوستان ساری دنیا میں تحریک کو بدنام کر
کے اسے دنیا کے سامنے دہشت گردی کے طور پر پیش کرے گا اور کشمیر کی آزادی
کا معاملہ پھر پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کا سارا فائدہ بھارت اٹھائے
گا۔
ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ کشمیر کی آزادی کیلئے مسئلہ کشمیر پر سب سے
پہلے ایک گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جائے ۔ آج کے علاقائی اور بین اقوامی
حالات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر پر لگے بندھے بیانات اور مکالمے دھرانے کے
بجائے اِس پر آزادانہ رائے اور مکالمہ کا حق بحال کیا جائے۔ علمی دلائل ہی
فکر کی کھیتی کو سیراب کرتے ہیں اور کامیابی اور آزادی کے راستے ہموار کرتے
ہیں۔ قوم کو بتایا جائے کہ اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادیں اِس صورت میں
کشمیریوں کیلئے ایک نعمت ہیں کہ یہ قراردادیں کشمیریوں کے بنیادی انسانی حق
حقِ خودارادیت کو Authenticateکرتی ہیں لیکن یہ قراردادیں اقوامِ متحدہ کے
متعلقہ قوانین کے اُس چیپٹر میں شامل نہیں ہیں جن پر اقوامِ متحدہ By
Forceعمل کر اسکتی ہواور عمل نہ ہونے کی صورت میں اقوام متحد ہ کی افواج
سرینگر پر حملہ آور ہو سکیں (ویسے جہاں جہاں یہ فوجیں اُتری ہیں جیسے
لیبیا، عراق اور شام وہاں کے کھنڈرات بہت کچھ بتا رہے ہیں جن میں عقل والوں
کیلئے بہت نشانیاں ہیں) اِن قراردادوں کی موجودگی میں معائدہ تاشقند ، شملہ
معائدہ اور اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے بے شمار
CBMاور بیک ڈور چینل ڈپلومیسی اِس بات کا ثبوت ہیں کہ مسئلہ کشمیر ، بھارت
پاکستان اور اس مسئلہ کے بنیادی فریق کشمیریوں نے ہی مل بیٹھ کر حل کرنا
ہے۔ اور مذاکرات میں کسی کی فتح یا شکست نہیں ہو تی بلکہ سارے فریقوں کیلئے
فیس سیونگ اورWin Win Sitiuationپیدا کرنا پڑتی ہے ۔اِس پس منظر میں آج بھی
بعض اہل دانش کی یہ رائے ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں کو مزید قتل
عام سے بچانے کیلئے کشمیر پر Status Quoکو توڑنے اور آزادی کی منزل کی طرف
روانہ ہونے کیلئے پہلے قدم کے طور پر CBMsوہیں سے دوبارہ شروع کئے جائیں
جہاں پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں تعطل کا شکار ہوئے تھے اور 4نکاتی پرویز
مشرف فارمولے پر عقل و شعور سے صرف ٹھنڈے دماغ کے ساتھ ہی دوبارہ غوروخوض
کیا جائے جو LoCکے خاتمے ، متحدہ کشمیر کی اسمبلی کے قیام ، کشمیر سے
Demilitarizationجیسے امور پر مشتمل تھا اور آرپار دونوں طرف کی حریت قیادت
(ماسوائے علی گیلانی صاحب کے) اس پر رضامند ہو چکے تھے اور بقول سابق وزیر
خارجہ خورشید محمود قصوری کے کہ اگر پرویز مشرف مزید6ماہ اقتدار میں رہتے
تو بھارت اور پاکستان کے درمیان اس معاہدہ پر دستخط ہو جانے تھے۔
فاختہ کی مجبوری ، یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے ؟کس کے آشیانے میں
بروقت فیصلے قوموں کے عروج و زوال میں اہم کردار اداکرتے ہیں ۔ نبی پاک ﷺ
کا ارشاد ہے کہ ’’مومن اپنے دور کی بہترین حکمت عملی تیار کرتا ہے ‘‘آئیں
ہم اپنی کشمیر پالیسی کا دوبارہ تزکیہ کرنے اور کشمیر آزاد کرانے سے پہلے
مسئلہ کشمیر کو آزاد کرائیں۔ |