ایران پر اقتصادی پابندی لگاتے وقت امریکہ نے آٹھ ملکوں
کو اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی عرض سے
عارضی استثنیٰ دے دیا تھا۔
ان میں چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا، ترکی، اٹلی، یونان اور تائیوان
شامل تھے۔ ان میں تین ملکوں اٹلی، یونان اور تائیوان نے تو متبادل ذریعہ
تلاش کر لیا لیکن چین اور امریکہ کے اتحادی ملکوں انڈیا، جاپان، جنوبی
کوریا اور ترکی نے ایران سے تیل خریدنا بند نہیں کیا۔
امریکہ کی طرف سے استثنیٰ واپس لیے جانے کے بعد اگر ان پانچوں ملکوں نے دو
مئی تک ایران سے تیل کی درآمد بند نہیں کی تو ان پر امریکی اقتصادی
پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔
ایران سے روزانہ 13 لاکھ بیرل تیل سرکاری طور پر برآمد کیا جاتا ہے جس کے
علاوہ بڑی مقدار میں تیل چھپ چھپا کر بھی بیچا جاتا ہے۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکہ کا مقصد مئی کی دو تاریخ کے بعد ایران کے
تیل برآمدات کو مکمل طور پر بند کرنا ہے۔
تیل کی عالمی پیداوار کا ایک بڑا حصہ آبنائے ہرمز سے گزر کر مختلف ملکوں تک
پہنچتا ہےاس کے لیے ضروری ہے کہ پانچوں ملک اس کی پابندی کریں جبکہ ترکی
اور چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انھیں پابند کیا
جائے کہ وہ کیا درآمد کر سکتے ہیں اور کیا درآمد نہیں کر سکتے۔
الیگزنڈر بوتھ کے مطابق چین اور ترکی کے بغیر جن کا ایران کے تیل کے مجموعی
برآمدات میں حصہ تقریباً پچاس فیصد ہے، ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر پر
نہیں لایا جا سکتا۔
استثنیٰ ہٹانے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اس کا
مقصد ایران پر قابض حکمرانوں کو پیسہ حاصل کرنے کے سب سے بڑے ذریعے سے
محروم کرنا ہے۔
کسی حد تک پامپیو کی بات درست تھی کہ تیل زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے ایران
کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن واحد ذریعہ نہیں ہے۔
تیل پیدا کرنےوالے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے مطابق گزشتہ سال ایران کی
پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات کا کل حجم 52 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا جبکہ اس کی
مجموعی برآمدات کی مالیت 110 ارب ڈالر تھی۔ ایران باقی زرِمبادلہ کیمیکلز،
دھاتیں اور دیگر اشیا برآمد کر کے حاصل کرتا ہے۔
امریکہ کے استثنی اٹھائے جانے کے اعلان سے قبل ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ
نے کہا تھا کہ ایران کی معیشت اس برس چھ فیصد تک سکڑ جائے گی۔
ایران کی آٹھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی ملک کی تیل کی برآمدات میں کمی اور
توانائی، جہاز بنانے کی صنعت اور بینکنگ کے شعبے پر عائد ہونے والی امریکی
پابندیوں کی وجہ سے معاشی بوجھ کے تلے دبے جا رہی ہے۔
ایران میں افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اوسطاً ایک عام گھرانے کو
گزشتہ سال کے مقابلے میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 47 فیصد زیادہ خرچ
کرنا پڑ رہا ہے۔
تیل کی عالمی سطح پر فراہمی میں خلل پڑنے کے خطرے کا ایک قدرتی نتیجہ تیل
کی عالمی منڈی میں قیمت میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ پیر کو تیل کی
قیمت 74 ڈالر فی بیرل سے بڑھ گئی تھی۔ تیل کی یہ قیمت گزشتہ نومبر سے اب تک
بلند ترین سطح پر ہے-
امریکہ نے تیل کے خریداروں اور عالمی منڈی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے
کہ تیل کی عالمی سطح پر رسد میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
مائیک پومپیو نے دعوی کیا کہ امریکہ کے اتحادی سعودی عرب اور متحدہ عرب
امارات اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کر کے اس کمی کو پورا کرنے میں مدد
دیں گے لیکن تیل پیدا کرنے والے دو دوسرے بڑے ملکوں کی طرف سے تیل کی
فراہمی پہلے ہی خلل کا شکار ہے، وینزویلا جس کو امریکی پابندیوں کو سامنا
ہے اور لیبیا جس کو تشدد کی تازہ لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
الیگزنڈر بوتھ نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس کمی کو پورا
نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ روس کو بھی اپنی پیداوار بڑھانی پڑے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر تیل پیدا کرنے والے کسی اور ملک میں کوئی غیر
متوقع بحران پیدا ہو گیا مثلاً نائیجریا میں تشدد شروع ہو گیا تو تیل کی
صنعت کافی غیرمستحکم ہو سکتی ہے۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپ کو اپنی گاڑیوں میں تیل بھروانے کے لیے
زیادہ پیسے دینے پڑیں گے؟
الیگزنڈر بوتھ کے مطابق امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں میں صارفین کو آنے والے
دنوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس سے اس صورت حال پر رد عمل قابل دید ہو گا
کیونکہ یہیں سے صدر ٹرمپ تیل کی قیمتوں کو کم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔
ایران کے پاس مذاکرات کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ لیکن اس کا محل وقوع
(سمندری گزرگاہ آبنائے ھرمز) اس کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
تیل کی عالمی پیداوار کا ایک بڑا حصہ آبنائے ہرمز سے گزر کر مختلف ملکوں تک
پہنچتا ہے اور آبنائے ہرمز خلیج کی ریاستوں اور سعودی عرب تک جانے والی وہ
گزرگاہ ہے جو ایران کے مغربی ساحل سے متصل ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تیل کی برآمدات یہیں سے گزرتی ہیں۔
ایران کئی مرتبہ آبنائے ہرمز کو بند کر دینے کی دھمکی دے چکا ہے جس کی ایک
جگہ سے چوڑائی صرف 33 کلو میٹر ہے اور اس میں جہاز رانی کے قابل حصہ صرف دو
میل چوڑا ہے۔
امریکہ کی طرف سے ایرانی تیل پر استثنی ختم کیے جانے کے بعد بھی ایرانی
بحریہ کے کمانڈر نے اس آبی گزرہ گاہ کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے لیکن کیا
ایران نے اس آبی گزرہ گاہ کو بند کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا ہے۔ اس کا
جواب ہے نہیں اور کیا وہ ایسا کر سکتا ہے، اس کا جواب بھی نہیں ہے۔
امریکی ریاست ورجینیا کے سینٹر آف ایرانین سٹڈیز کے ڈائریکٹر مائیکل کونیل
کا کہنا ہے کہ دو وجوہات کی بنا پر یہ بات مشکوک ہے کہ ایران کبھی آبنائے
ہرمز بند کرنے کی کوشش کرے گا۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایران کی اپنی برآمدات بھی اس راستے سے گزرتی ہیں اور
اس کو بند کرنے کی صورت میں ایران کی اپنی تجارت بھی بند ہو جائے گی۔ دوسری
وجہ یہ کہ ایران کے اس انتہائی اقدام سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو
ایران پر فوج کشی کرنے کا بہانہ ہاتھ آ جائے گا اور جنگ کی صورت میں ایران
کا بہت نقصان ہو سکتا ہے گو کہ اس جنگ میں شامل ہونے والی دوسری قوتوں کو
بھی نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔
انھوں نے کہا جو بات زیادہ قرین از قیاس نظر آتی ہے وہ ہے آبنائے ہرمز میں
اصلی اسلحہ و بارود کے ساتھ فوجی مشقیں شروع کرنا جس سے یہ راستہ عارضی طور
پر بند ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ایران کچھ نہ کچھ دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہو جائے
اور جنگ سے بھی بچ جائے گا۔ |