ایک فلم میں اداکار علاؤالدین نے پوچھا تھا کہاں سے آئے
ہیں یہ جھمکے ؟ تو یہ ڈائیلاگ اتنا مقبول ہو اکو لوگ گلی گلی پوچھتے پھرتے
تھے حالانکہ جھمکے تو اب بھی ہزاروں میں بن جاتے ہیں آج جھمکوں کی بات نہیں
کھربوں کی کرپشن اور اربوں کی منی لانڈرنگ بارے پوچھا جارہاہے اس لئے جوں
جوں اپوزیشن کے خلاف عمران خان کا رویہ تلخ ہوتا جارہاہے توں توں حکومت
مخالف سیاستدانوں نے بھی گرجنا برسنا شروع کردیاہے اس کا ایک سبب تو حکومت
سے کسی بھی انداز میں مک مکا نہ ہونا ہے نیب کے شکنجے میں آئے ہوئے
سیاستدانوں پر مایوسی چھائی ہوئی ہے اسی عالم میں ان کے منہ میں جو آتاہے
کہتے چلے جاتے ہیں جس سے ثابت ہورہاہے محاذ ابھی اور گرم ہوگا کیونکہ ابھی
کل ہی وزیر ِ اعظم نے ایک بار پھر کہاہے اور بانگ ِ دہل کہاہے ان کے اقتدار
میں آنے کا مقصد کرپٹ لوگوں کو شکست اور ملک کو ترقی دینا ہے لہذا ملک
لوٹنے والوں کو کوئی معافی اور این آ ر او نہیں ملے گا۔ ملک چلانے کیلئے
پیسے نہیں، عوام تھوڑا سا صبر کریں تبدیلی نظر آنا شروع ہوجائے گی۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر اپوزیشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اس دوران
انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو صاحب کی بجائے ’’صاحبہ‘‘ کہہ ڈالا۔عمران خان
نے کہا کہ میں بلاول ’’صاحبہ‘‘ کی طرح پرچی پر نہیں آیا،آصف زرداری اور اس
کا بیٹا، شریف برادران اور ان کے بچے سن لیں کہ میں یہاں لمبی جدو جہد کے
بعد پہنچا ہوں، میری زندگی مقابلہ کرتے گزری ہے، جو لمبی جدوجہد کرکے اوپر
آتا ہے اس کو کوئی خوف نہیں ہوتا، میرے اقتدار میں آنے کا مقصد کرپٹ لوگوں
کو شکست اور ملک کو ترقی دینا ہے، جمہوریت بچانے کے نام پر سارے کرپٹ جمع
ہوگئے ہیں لیکن قوم مطمئن رہے تمام کرپٹ لوگوں کا اکیلے ہی مقابلہ کروں گا
وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمان کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا فضل
الرحمان کی سیاست کے 12 ویں کھلاڑی ہیں اس کی بڑی سستی قیمت ہے،ایک کشمیر
کمیٹی کی چیئرمین شپ اور ڈیزل کا پرمٹ۔ملک لوٹنے والے اکٹھے ہو گئے میں
سیاست …… میں فیکٹریاں محلات بنانے نہیں ان کا احساب کرنے آیا۔ وزیر ِ اعظم
کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری
کا کہنا تھا کہ غیرجمہوری طاقتوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت بنائی
ہے، عمران خان کمزور اور عدم تحفظ کا شکار ہیں جبکہ خارجہ پالیسی کو غیر
پیشہ ورانہ انداز سے چلانا انتہائی افسوسناک ہے۔ وزیراعظم بیرون ملک سیاسی
مخالفین کے خلاف بیانات دیتے ہیں، عمران خان نے چوری کے ووٹوں اور غیر
جمہوری طاقتوں سے مل کر حکومت بنائی جب کہ پیپلز پارٹی نے ضیاء الحق اور
دیگر کا مقابلہ کیا اب اس کٹھ پتلی کا بھی مقابلہ کریں گے۔بلاول بھٹو کا
کہنا تھا کہ عمران خان سیاسی مخالفین کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں تاکہ ان
کی مخالفت نہ کی جاسکے، حکومت نے کرپشن کے خاتمے کیلئے کچھ نہیں کیا، جو
کچھ ہورہا ہے وہ انتقامی سیاست ہے، اگر کرپشن کو ختم کرنا ہے تو بلا امتیاز
احتساب کیا جائے۔ایک مسلم لیگی رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے ہم حکومت گرانا
نہیں چاہتے لیکن عمران خان کے سو دن سو یوٹرن ثابت ہوئے اور قوم کو روزانہ
ان یوٹرن کی قیمت ادا کرنے پڑرہی ہے۔ 2013 میں پوری دنیا پاکستان کو خطرناک
ملک قرار دیتی تھی لیکن ہم نے دنیا کو یہ ثاب کیا تھا پاکستانی قوم اپنے
وسائل سے توانائی بحران کو شکست دے سکتی ہے اور یہ تصویر پیش کی تھی کہ
پاکستان کی مارکیٹ دنیا کی پرکشش ترین ہے اور یہاں سرمایہ کاری ہوسکتی ہے
جب کہ ہم نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان نے بہادری کے ساتھ دہشت گردی کو شکست
دی ہے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کو سب سے تیز ترقی کرنے
والے معاشی ممالک کی فہرست میں شامل کیا لیکن عمران خان کی قیادت میں سیاسی
سازش کے ذریعے ہماری کامیابی کو ناکام بنایا گیا، دھاندلی زدہ انتخابات کے
ذریعے عمران خان کو اس قوم پر مسلط کرکے ترقی کے تسلسل کو توڑ دیا گیا۔ اس
وقت حکومت نے پاکستان کے حوالے سے دنیا بھر میں منفی پروپیگینڈا شروع
کررکھا ہے، خدشہ ہے کہ ہمارے 5 سال کی محنت پر پانی پھرجائے گا۔ انہوں نے
عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے تھے، سی پیک منصبوں میں کرپشن
ہوئی، میں انہیں کہتا ہوں اب ایف آئی اے اور نیب کو استعمال کرو جو تمہارے
اشاروں پر چلتی ہے اور بتاو کہ کہاں کرپشن ہوئی ہے۔ ہمارے ہاتھ صاف ہیں، ہم
آپ کی دھمکیوں سے نہیں ڈرنے والے نہیں، البتہ آپ اپنی ناکامیوں پر ہماری
گرفتاریوں کے ذریعے پردہ ڈالیں گے یا اپنی نااہلی کو اپوزیشن کے خلاف
تنقیدی زبان سے چھپا لیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے، ہم آپ کو چھپنے نہیں دیں
گے۔ عمران خان اپوزیشن پر انگلیاں اٹھاتے لیکن وہ اپنے گریبان میں جھانکیں،
کرپشن کے سب مگر مچھ پی ٹی آئی کی چھتری کے نیچے ہیں۔ ملک پر مہنگائی کا جو
پہاڑ گرایا گیا اس کے پیچھے پی ٹی آئی حکومت کی ناتجربہ کاری ہے، عمران خان
صرف قوم کو بیوقوف بنارہے ہیں، وہ کہتے تھے کہ خودکشی کرلوں گا لیکن آئی
ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، ہم موجودہ حکومت کو سیاسی شہید نہیں بننے دیں
گے ہم انہیں پورا موقع دیں گے وہ اپنے وعدے پورے کرے۔ اپوزیشن رہنماؤں اور
وزیر ٍ اعظم کے تیز وتند بیانات اپنی جلہ لیکن اس کا کیا کریں اب تو شہباز
شریف فیملی کے ملازمین بھی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں قومی احتساب بیورو
لاہور کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف،
سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کیخلاف جاری آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ
منی لانڈرنگ کے کیس میں کلیدی پیش رفت کے طورپر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر
تاحال مجموعی طور پر 5 ملزموں کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔ تازہ
ترین گرفتار ہونے والے ملزم آفتاب محمود سے جاری تحقیقات میں مبینہ منی
لانڈرنگ کے حوالے سے انکشافات پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزم بیک وقت لندن اور
برمنگھم سے ’’عثمان انٹرنیشنل‘‘ نامی فارن کرنسی ایکسچینج آپریٹ کرتا رہا
اور غیرقانونی طور پر حمزہ شہباز، سلمان شہباز اور خاندان کے دیگر افراد کے
اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کی بوگس ٹی ٹی لگاتا رہا۔ گرفتار ملزم شاہد شفیق
اورملزم آفتاب محمود کزن ہیں تاہم دونوں باہمی رضامندی سے کروڑوں روپے غیر
قانونی طور پر شریف فیملی کے اکاؤنٹس میں منتقل کرتے رہے۔ ۔ نیب لاہور کی
کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیمیں تاحال شہباز شریف اور خاندان کے دیگر افراد
کیخلاف کم و بیش 3 ارب کی مبینہ منی لانڈرنگ کے شواہد حاصل کر چکی ہیں جبکہ
شنیدہے کہ شہبازشریف فیملی نے پندرہ سے بیس ارب روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ
کی گئی اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار بھٹو
ہاؤس کا ملازم ندیم بھٹو کمرہ عدالت میں رو پڑا اور کہنے لگا کہ وہ تو ایک
غریب ملازم ہے، پیسے کہاں سے آئے؟ مالکان سے پوچھیں۔ فاضل جج نے ریمارکس
دیے کہ ان سے بھی پوچھیں گے۔ ملزم کمرہ عدالت میں رو پڑا اور موقف اپنایا
کہ وہ تو ایک غریب ملازم ہے، وکیل بھی نہیں کر سکتا، پتا نہیں تھا جعلی
اکاؤنٹس سے پیسے آ رہے ہیں، غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا، نیب پراسیکیوٹر نے
بتایا کہ یہ ملازم ہے لیکن ان کے اکاؤنٹ میں 74 لاکھ 50 ہزار روپے کہاں سے
آئے، ملزم نے کہا کہ یہ پیسے خرچ کے لئے آتے تھے۔ فاضل جج نے کہا کہ کیا
گھر کا خرچ چلانے کے لئے اتنے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے؟ تو کیا آپ کو پتا
نہیں تھا کہ اتنے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں؟ یہ کوئی مذاق تو نہیں ہے، آپ کی
جیب سے ہیروئن نکل آئے تو قصور وار کون ہوگا؟ جس پر ملزم نے کہا کہ ظاہر ہے
قصور میرا ہوگا، میں سمجھا گھر کے مالک پیسے بھیج رہے ہیں، مجھے نہیں پتا
تھا کہ پیسے کون بھیج رہا ہے، میں تو ایک چھوٹا سا ملازم ہوں ایک فلم میں
اداکار علاؤالدین نے پوچھا تھا کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے ؟ تو یہ ڈائیلاگ
اتنا مقبول ہو اکو لوگ گلی گلی پوچھتے پھرتے تھے حالانکہ جھمکے تو اب بھی
ہزاروں میں بن جاتے ہیں آج جھمکوں کی بات نہیں کھربوں کی کرپشن اور اربوں
کی منی لانڈرنگ بارے پوچھا جارہاہے اور جن سے پوچھا جارہاہے وہ بتانے کیلئے
تیار نہیں ذرا سی سختی کرو تو جمہوریت کو خطرات کو لاحق ہوجاتے ہیں اب
حکومت کرے تو کیا کرے؟ آپ ہی بتائیں۔ |