نئی کابینہ کی ہئیت ترکیبی دیکھ کر جنرل پرویز مشرف کا
چہرہ آنکھوں میں گھوم رہا ہے کیونکہ ان کے دورِ حکومت کے کئی مشیر اور
وزراء ایک ایک کر کے عمران خان کی کابینہ کو فخر عطا کرہے ہیں جسے پی ٹی
آئی تبدیلی کا نام دے رہی ہے۔منتخب افراد کو دھیرے دھیرے کھڈے لائن لگا یا
جا رہاہے اور ان کی جگہ ٹیکنو کریٹ کی صلاحیتوں کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا
ہے۔ایک ایسا نعرہ جو پچھلی کئی دہائیوں سے اپنی جگہ نہیں بنا سکا تھا لیکن
عمران خان کی قیادت میں یہ نعرہ حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔کرم فرماؤں کی
بڑی خواہش تھی کہ تین سالوں کے لئے ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کی جائے اور ایک
مرتبہ سارا گند صاف کیا جائے لیکن لگتا ہے کہ یہ تجربہ بھی ناکامی سے
ہمکنار ہو گا کیونکہ گند تو خود اس حکومت میں اکٹھا ہو رہا ہے ۔ یاد رہے کہ
ٹیکنو کریٹ احساس سے عاری ہوتے ہیں جبکہ احساس سے عاری لوگ کوئی بڑا معرکہ
سر نہیں کر سکتے۔ سیاستدان احساس کا دوسرا نام ہوتا ہے اسی لئے وہ بڑے
معرکہ سر کرتے ہیں۔ذولفقار علی بھٹو محض اسی لئے تاریخ میں زندہ ہیں کہ
انھوں نے عوامی محبت کی خاطر جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا
تھا،کیا کوئی ٹیکنو کریٹ اتنی بڑی قربانی کا سوچ سکتا ہے؟ انھیں تو ہمہ وقت
اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہوتی ہے جبکہ سیاستدان لمحہ لمحہ خطرات سے
کھیلنے میں فخر محسوص کرتے ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو یہ جانتے ہوئے کہ ان کی
جان کو شدید خطرات تھے اپنے عوام اور وطن کی محبت کی خاطر پاکستان لوٹی
تھیں۔ان کی جان تو چلی گئی لیکن ان کی قربانی سے طالع آزما کو اقتدار سے
رخصت ہونا پڑا۔ بیوو کریسی ایک حقیقت ہے لیکن پارلیمانی نظام میں انھیں
منتخب اراکین پر فوقیت دینا غیر جمہوری روش ہے ۔ حکومت چلانا منتخب ممبرانِ
پارلیمنٹ کا کام ہے کیونکہ وہی عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اگر اہم وزارتوں
کو ٹیکنو کریٹ کے حوالے کر نے کا سلسلہ دراز ہو گیا تو پھر جمہوریت مزید
کمزور ہو جائیگی ۔کل کو اگر وزارتِ عظمی بھی اسی بنیاد پر کسی ٹیکنو کریٹ
کے حوالے کر دی گئی تو کیسا رہیگا ؟ وزیرِ اعظم عوامی امنگوں کا ترجمان ہو
تا ہے لہذا اس پر کمپرو مائز نہیں ہو سکتا۔سیاسی قائدین سے اختلاف ہو سکتا
ہے لیکن جمہوریت کی بقا اور اس کی ترویج پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔پی
ٹی آئی پانچ سالوں کے لئے منتخب ہو کر آئی ہے اور اس کا سہرا عمران خان کے
سر ہے لہذا اگر کوئی انھیں ہٹا کر ٹیکنو کریٹ وزیرِ اعظم لانے کی کوشش کرے
گا تو اس کی مزاحمت کی جائے گی۔ عمران خان ٹیکنو کریٹ نہیں ہیں؟انھیں کرکٹ
کے علاوہ کسی دوسر ے شعبہ کا تجربہ نہیں ۔ ملکی معاملات چلانا ان کی بساط
سے باہر ہے۔کیونکہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔وہ صحیح کہتے
تھے کہ اگر پی ٹی آئی کو ۲۰۱۳ میں اقتدار مل جاتا تو ہم ناکام ہو جاتے
کیونکہ ہمیں تو انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ناکام تو وہ اب بھی
ہیں کیونکہ سیاست ان کا میدان نہیں ہے لیکن چونکہ عوام انھیں چاہتے ہیں
لہذا ہمیں ان کا احترام کرنا ہوگا۔سیاست ٹیکنو کریسی نہیں بلکہ عوامی
احساسات سے جڑی ہوتی ہے اور ہمیں لیڈر چائیے کوئی سرکاری ملازم اور غلام
نہیں چائیے۔نریندر مودی کون سا ٹیکنو کریٹ ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت
کانمائندہ ہے ؟ ڈولنڈ ٹرمپ کی ٹیکنو کریسی کے بارے میں کیا رائے ہے؟
سیاستدان عوامی امنگوں کے پاسبان ہوتے ہیں ، فلا ح و بہبود کے ضامن ہوتے
ہیں ،ان کے دکھ درد کے ساتھی ہو تے ہیں لہذا عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔جن
قائدین کی کارکردگی عوامی مفاد ات کی آئینہ دار ہوتی ہے عوامی محبت کا محور
بنتے ہیں لیکن وہ قائدین جو عوامی مفادات کو در خورِ اعتناء نہیں سمجھتے
اور اپنی انانیت کی شکار رہتے ہیں عوام انھیں بے رحمی سے مسترد کر دیتے
ہیں۔ٹیکنو کریٹ منتخب قیادتوں کو جوابدہ ہوتے ہیں ، منتخب قیادتیں انھیں
جوابدہ نہیں ہوتیں۔عمران خان ٹانگے کے پیچھے گھوڑا جوت رہے ہیں جو غیر فطری
ہے ۔ ٹیکنو کریٹ کا خیال آج کی جمہوری دنیا میں بوسیدہ ہو چکا ہے۔ ہمارے
ہاں اکثر وزرائے خزانہ باہر سے امپورٹ کئے جاتے ہیں لیکن کیا کسی کو علم ہے
کہ اقتدار کا سنگھاسن چھن جانے کے بعد وہ سارے کے سارے کہاں بھاگ جاتے ہیں؟
شوکت عزیز،حفیظ پاشا،معین قریشی،شوکت ترین سب کے سب امریکی نوازشات سے
اقتدار کی منزل طے کرتے ہیں اور اس منزل سے فراغت کے بعد پھر اپنے آقاؤں کے
پاس واپس چلے جاتے ہیں۔ جو انسان عوام کو جوابدہ نہیں وہ ملک کی خدمت کیا
سر انجام دے گا؟
فواد چوہدری کی جگہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کومشیرِ اطلاعات بنا دیا گیا ہے
۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی تھیں ،وزیرِ اعظم یو
سف رضا گیلانی کے ساتھ بھی تھیں اور اب عمران خان کے ساتھ بھی ہیں۔ میں
اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہمارے سیاستدان موقعہ پرستی کی آڑ میں اپنے کرم
فرماؤں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں دیر نہیں لگاتے لیکن جیسے ہی
اقتدار کی کشتی بھنور میں پھنستی ہے تو اپنی جماعت سے بغاوت کر کے نئے گھو
نسلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔انھیں اپنے فیصلہ پر نہ تو کوئی
پشیمانی ہو تی ہے اور نہ ہی کوئی پچھتاوا ہو تا ہے بلکہ وہ اپنی مکاری کو
ذاتی کامیابیوں میں شمار کرتے ہیں۔کمال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ جب جنرل پرویز
مشرف کو داغِ مفارقت دے کر پی پی پی میں وارد ہوئیں تو پھر پی پی پی کی
تعریف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔اب عمران خان نے وزارت پر فائز کیا
ہے تو وہ جماعت جس کی عظمت کے گیت گاتے گاتے ان کی ہچکی بندھ جاتی تھی اب
وہی جماعت ان کی تنقید کا شکار ہے ۔ڈاکٹر صاحبہ جب پی پی پی میں تھیں تو
اپنی ہر تقریر جئے بھٹو کے نعرہ سے شروع کرتی تھیں ۔ان کے انداز سے ایسے
محسوس ہو تا تھا کہ کسی دن وہ بھٹو ازم کیلئے اپنی جان بھی قربان کر دیں گی۔
یہ نعرے یہ وابستگی صرف نمائشی تھی اور آصف علی زرادری کو شیشے میں اتارے
کی کوشش تھی ۔ مجھے خود بھی ان کے ساتھ کئی پروگرام کرنے کا اعزاز حاصل ہے
۔اس زمانے میں ان کی نظر میں آصف علی زرداری انتہائی پارسا تھے لیکن اب
جبکہ وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں تو آصف علی زرداری کو دنیا کا انتہائی کرپٹ
انسان ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔پانچ سالوں تک وزارت کے مزے لوٹنے کے
بعد اسی جماعت کو کرپٹ کہنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ایک ایسا فرد جوپی ٹی آئی
سے نظریاتی وابستگی سے کوسوں دور ہے اس کیلئے پی ٹی آئی کی مدح سرائی بے
اثر ثابت ہو گی۔پی ٹی آئی سے وابستگی رکھنے والے کارکن بھی نیم دلی سے یہ
سارا تماشہ دیکھیں گے کیونکہ لوگ بے وفائی کی بجائے وفاداری کو پسند کرتے
ہیں اور یہاں وفاداری کا کہیں شائبہ تک نہیں ہے ۔وزیرِ خزانہ ورلڈ بینک سے
ہونا ضروری ہوتا ہے۔شعیب احمد، شوکت ترین،شوکت عزیز،معین قریشی۔حفیظ پاشا
اور کئی زعماء اسی طرح پاکستانی سیاست میں وارد کئے گے تا کہ امریکہ بہاد
پاکستانی معیشت اور خزانہ پر نظر رکھ سکے ۔ذولفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ
حکومت میں مبشر حسن کو وزیرِ خزانہ بنایا تو امریکہ بہادر کو بہت غصہ آیا
جس کا بدلہ بعد میں انھیں عبرت کا نشان بنا کر لے لیا گیا۔وزیرِ داخلہ بر
یگیڈ ئیر (ر)) اعجاز شاہ کی بحثیتِ وزیرِ داخلہ نامزدگی انتہائی متنازعہ ہے۔
وہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت کے اہم ستون تھے ۔اعجاز شاہ محترمہ بے
نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہیں ۔ ان کا نام خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے
اپنے خط میں درج کیا تھا۔ عمران خان تو شفافیت اورمیرٹ کا ڈھنڈو را پیٹ رہے
ہیں۔کیا یہی شفافیت ہے کہ ایک متنازعہ شخص کو انتہائی اہم ذمہ داری سونپ دی
جائے؟ جنرل پرویز مشرف کے وفاداروں کی بہار آئی ہوئی ہے لیکن وہ خود پاک
سرزمین پر قدم رکھنے کے اہل نہیں ۔ ملک کی ساری جماعتیں جنرل پرویز مشرف کے
ٹرائل کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن ان کے مطالبہ کو شنوائی نہیں ہو رہی ۔ہمیں
بھی خامشی سے یہ سارا تماشہ دیکھنا ہے کیونکہ لب کشائی کی ممانعت ہے۔یہی
کرم فرماؤں کا دستور ہے جو فی الحال تبدیلی سے ماورا ء ہے ۔،۔ |