’’اَنا‘‘کی بھینٹ چڑھتا پنجاب․․․!!

پاکستانی قوم پریشان ہے۔حکومتی تمام پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں ۔سیاسی میدان جگت بازی اور لطیفہ بن کر رہ گیا ہے ۔تبدیلی کا نعرہ دم توڑ چکا ہے،اب تو شاید تبدیلی لانے والوں کی تبدیلی پر سوچ بچار شروع ہو چکی ہے ۔کسی بھی سیاسی پارٹی کو سر پر حکومتی تاج سجانے کے لئے پنجاب میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور پنجاب ہی سیاسی پارٹی کو گہری کھائی میں دھکیل بھی دیتا ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا ۔یہی وجہ تھی کہ یہاں کمزور ترین وزیر اعلیٰ اور نااہل کابینہ کو منتخب کیا گیا۔ان کی ناقص کارکردگی اور نا اہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ حزب اختلاف پنجاب حکومت سے بھر پور تعاون کرنے کے در پر ہے،مگر حکومتی ارکان انتشار کی سیاست چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی بطور سپیکر پنجاب اسمبلی کا کردار مثالی ہے ،حکومت اور اپوزیشن کے مابین پیدا ہونیوالے کسی بھی تنازعہ کو ہاؤس کے اندر ہی ختم کر دیا جاتا ہے ۔زیر حراست رکن پنجاب اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے علاوہ حزب اختلاف کے ممبران خوب اختلافات بھی کرتے ہیں،مگر کیونکہ سپیکر ’’کسٹوڈین آف دی ہاؤس ‘‘ہوتا ہے،ان کے فرائض میں شامل ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کو برابر لے کر چلا جائے۔سیر حاصل گفتگو بھی ہوتی ہے اور قانون سازی کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے معاملات پر بحث اور حکومت کے غلط معاملات پر تنقید بھی ہو جاتی ہے ۔فلور آف دی ہاؤس پر حکومتی اور حزب اختلاف بنچوں کی جانب سے مختلف ایشوز پر اختلاف رائے کا اظہار اور اصلاح کے نکتہ نظر سے ایک دوسرے کی پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنانا جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ۔حکومت اور اپوزیشن کی ہم آہنگی سے ہی جمہوری نظام چلتا ہے۔سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی اَنا اور دشمنی کا رنگ دینے سے جمہوریت کی عملداری مخدوش ہو جاتی ہے ۔عدم برداشت اور غیر جمہوری سوچ رکھنے والے عناصر جمہوریت کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہیں۔حکومتی اور اپوزیشن بنچوں میں محاذ آرائی کی فضا پیدا کر کے ماورائے آئین اقدام کے راستے نکالنے کی کوششوں میں ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنیوالے سیاستدانوں کے ہاتھوں ہوا ہے۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا قول مبارک ہے کہ ’’دولت ،رتبہ اور اختیار ملنے سے انسان بدلتا نہیں ، اس کا اصلی چہرہ سامنے آ جاتا ہے‘‘ ۔اس قول کی دلیل جمعۃ المبارک کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں دیکھنے کو ملی ،جہاں ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری بطور سپیکر چیئر کر رہے تھے۔محکمہ زراعت کے متعلق سوالات کا سیشن ہو رہا تھا۔مسلم لیگ (ن) کے معزز ممبر صوبائی اسمبلی چودھری اشرف علی کی جانب سے پوچھے گئے اہم سوال کے متعلق پارلیمانی سیکرٹری سے جواب نہیں بن پایا،کیونکہ ان کی بالکل تیاری نہیں تھی،پھر وزیر زراعت نے بھی کوشش کی ،مگر وہ بھی سوال کا جواب نہ دے سکے ۔پورے ہاؤس نے محسوس کیا کہ دونوں معزز حضرات ہاؤس کو مطمئن نہیں کر سکے ،اس کی وجہ ان کی نا علمی تھی۔پھر لوکل گورنمنٹ کے بارے قانون سازی کے بل پر بات ہوئی ،جسے اپوزیشن کو بلڈوز کر کے نافذ کیا جا رہا ہے،راجہ بشارت نے ہاؤس میں برملا کہا کہ لوکل گورنمنٹ کا بل ان کی اَنا کا مسئلہ ہے ۔عظمٰی زاہد بخاری جو کہ تین بار پنجاب اسمبلی کی ممبر رہی ہیں،وہ ایک قانون دان کے ساتھ ساتھ سیاست کو باخوبی سمجھتی بھی ہیں ،ان کے ساتھ ملک محمد احمد خاں اور دیگر نے سپیکر کی توجہ معاملات کی سنگینی کی جانب دلوانے کے لئے بات کرنا چاہی،مگر انہیں اجازت نہیں دی گئی ۔ عظمٰی بخاری کو ڈپٹی سپیکر نے بری طرح سے ’’شٹ اَپ کال‘‘دی ۔راجہ بشارت وزیر قانون نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ،دونوں جانب سے تلخ کلامی بڑھی ۔جس پر پیر اشرف رسول برہم ہوگئے ،سپیکر نے معاملے کو سنبھالنے کی بجائے،سردارانہ رویہ اپنایااور پیر اشرف رسول کی ممبر شپ معطل کر دی۔اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی۔ اجلاس ملتوی ہو گیا ۔ بعدازاں عظمٰی زاہد بخاری اور عبدالرؤف کی رکنیت بھی ملتوی کر دی گئی ۔

یہ حالات ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی کے ہیں۔جہاں حکومت ہر معاملے کو اَنا کا مسئلہ بنا کر ایک بڑی سیاسی جماعت کو خاطر میں نہیں لارہی،وہاں حکومت کیسے چلائی جا سکتی ہے۔کیونکہ اسمبلی میں موجود حکومتی جانب سے زیادہ تر ممبران کو پارلیمانی قوائد وضوابط کا بالکل اندازہ نہیں ہے ۔انہیں گزشتہ حکومتوں پر لعن طعن کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ہر بات کو عوام سے چھپایا جا رہا ہے ،جھوٹ پر جھوٹ کی روایت بن چکی ہے ۔وہاں ڈپٹی سپیکر نے جانبداری کا رویہ رکھا ہوا ہے ۔تحریک انصاف نے اپوزیشن کے دور میں محاذ آرائی کو اسمبلی کے اندر اور باہر نکتہ عروج پر پہنچایا تھا۔حکومت وقت کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز اور عامیانہ زبان استعمال کی جاتی رہی ہے ،مگر اپنی باری پر زرا سی جنبش پر چیخیں نکل جاتی ہیں۔

حکومت سیاسی استحکام کی بجائے انتشار پیدا کرنے کے در پر ہے۔حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے ایجنڈے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہے ۔موجودہ معاشی عدم استحکام نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔عمران خان کا عوام کو یہ تاثر دینا کہ انہوں نے اپنے درینہ دوستوں کا کابینہ میں ردوبدل ملکی مفاد میں کیاہے ،سب سے بڑا لطیفہ ہے۔حکومت خارجی معاملات میں بھی فیل ہو چکی ہے ۔افغانستان کے ساتھ تعلقات مشکل سے بہتر ہو رہے تھے کہ وزیر اعظم کی غیر سفارتی انداز نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورت حال پیدا کر دی ۔ایران نے ہمیشہ داخلی خرابی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا ہے اور عمران خان نے اس بات کو دنیا کے سامنے تسلیم کر لیا۔دہشت گردی کی جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانیاں اور ملکی معشیت کو تباہ کر لیا ،جسے موجودہ حکومت اپنی نا اہلی کی وجہ سے برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے ۔

تحریک انصاف کی قیادت نے غیر پارلیمانی اور نشائستہ الفاظ کو کنٹرول نہیں کیا،اپنی سیاسی انتقامی سوچ کو ختم نہ کیا ،حکومتی اور اپوزیشن بنچوں میں افہام و تفہیم کی فضا استوار کرنے کے لئے موثر اور با مقصد اقدامات نہ کئے گئے ،تو جمہوری نظام کے مستحکم ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔اگر عوام نے تحریک انصاف کو اسی ڈگر پر چلتے دیکھا تو سمجھ لیا جائے گا کہ جو ماضی میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لئے اقدامات کرنے میں لوگ شامل تھے ان میں ایک عمران خان کا اضافہ بھی ہو گیا اور یہ لگتا ہے کہ ایک اورشخص اسی تاریخ کا حصہ بننے جارہا ہے۔

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.