دستور

روایات سے ثابت ہے اﷲ تعالی کے محبوب حضرت محمد ﷺکا فرمان ہے کہ قدیم زمانوں میں کئی قومیں محض اس وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں کے وہ جب کوئی بڑا جرم کرتا اسے مستسناء قرار دیتے اور غریب نادارلوگوں کو معمولی جرم پر بھی سخت سزائیں دیتے،اور یوں سزا وجزا کے امتیاز نے انہیں تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ،آئین دستور یا قوائد ضوابط انسانیت کا خاصا رہا ہے ،در اصل ابتداء انسانیت سے اختتام انسانیت تک حق وباطل کی کشمکش جاری رہے گی سزا وجزا کا عمل بھی برقرار رہیگا جس کا دارومدار قوائد و ضوابط پر ہوتا ہے ،یہ دنیا قائدے قانون ہی سے چلتی ہے چاہے چند معمولی گھرانہ ہو سینکڑوں افراد پرمشتمل قصبہ ہو ہزاروں لاکھوں کا شہر، کوئی آرگنائزیشن ہو یا ملک سبھی اپنے لئے روزمرہ زندگی کے امورآگے بڑھانے کے لئے کچھ قوانین وضع کرتے ہیں جواپنے لئے جتنا بہترین نظام ودستور بنائے اتنی ہی خوبصورت زندگی وخوشحال معاشرہ وجود میں آتا ہے چاہے کوئی قوم ہو یا ملک اس کی ترقی و کامیابی کا دارومدار اس کے بہترین آئین اور اس پر عملداری پر ہوتا ہے ۔

ہمارے پڑوس میں دو ممالک آزاد ہوئے بھارت نے چند برسوں میں اپنا آئین بنا لیا جب کہ پاکستان کو یہ سنگ میل عبور کرنے میں پچیس برس لگے ، 1973میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اپنے آئین کی منظوری دی لیکن بدقسمتی سے یہ آئین اپنی زندگی کے 45برسوں میں سے صرف 25برس آزاد جبکہ بیس برس تک معطل رہا اس دوران ملک ایک متوازی آئین کے تحت چلتا رہا ۔کوئی قوم ہو یا آرگنائزیشن اسکے لئے آئین ہی اس کا رہنما ہوتا ہے ،لیکن اس ملک کے سیاستدانوں اور کارکنوں نے اس دستور کے ساتھ کیا سلوک کیا اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکہتر برس کی مملکت آج تک اپنی سمت کا تعین نہیں کر نے سے قاصر رہی ،ہردور کے حکمران طبقات نے اقتدارکومحض دولت جمع کرنے کا ایک زینہ سمجھا ،بائیس کروڑ انسانوں کے حصے کی ساری دولت چند خاندانوں میں سمٹ کررہ گئی اور یہ دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے لئے حزاب اقتدار وحزب اختلاف نے معائدے کررکھے ہیں ۔ ملکی آئین کو ارباب اختیارزاتی تحفظ و مخالفیں کو جھکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ، مفاد پرستی کے ایسے کھیل سے قومی ادارے متاثرہوکر انہی راستوں پر چل پڑھتے ہیں اور حالات کی ماری عوام اداروں کے روئیے سے تنگ آکر اسی بدعنوان نظام کا حصہ بن جاتے ہیں نتیجتا بدعنوانی کا ناسور سول سوسائٹی میں منتقل ہو جاتاہے یہی وجہ ہے آج پاکستان دنیا میں حج و صدقہ خیرات کرنے والوں میں دوسرے نمبر پر ہے جب کہ ایمانداری میں ایک سوساٹھویں نمبر پر ہے ۔

آج اس ملک کے بازاروں میں لوگ ایک دوسرے کو زہر بیچتے ہیں ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی جگہ قصاب اور میڈیکل سٹورز میں موت بکتی ہے ،ملکی تعلیمی ادارے دکانوں کا روپ دھار چکے ہیں ۔عدالتی نظام ایسا کے جیلوں میں بند لوگوں کے انتقال کے برسوں بعد ان کی بے گناہی کے فیصلے آتے ہیں ۔تھانہ کلچر خوف کی علامت بن چکا ہے غربت میں بدریج اضافہ اور امیر مسلسل امیر ہورہے ہیں ۔اور ان ساری خرافات کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے کہ یہ قوم اپنے دستور کو طاق میں رکھ کر بھول چکی ہے یہ قوم سالانہ کھربوں روپئے عدل وانصاف و قانون نافذ کرنے والے اداروں پر خرچ کرتی ہے جبکہ وہی اس کا استحصال کرتے چلے آرہے ہیں ۔حال ہی میں پاکستان میں ایک تنظیم جس نے بائیس برس اسٹیٹس کو کیخلاف جدوجہد کی ،لیکن حکومت بنانے میں ناکام رہی تاہم مجبورا ً اسی بوسیدہ سسٹم کے سرخیل انہی الیکٹبل کا سہارا لینا پڑھا ،اور ایک ایسا شخص جسے پاکستانی تاریخ میں بے مثال طاقتور حکمراں کہاجاسکتا ہے مگر وہ اس دقیانوسی نظام کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے اور ملک لوٹنے والے یہ نہیں کہتے انہوں نے جرم نہیں کیا بلکہ سرعام للکارکر کہتے ہیں کہ ہمت ہے تو ثابت کرو ۔۔۔

آئین کی بے حرمتی وبے توقیری کی ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں بہر حال مملکت جموں کشمیر کے عوام جو اس دور کے بدترین جبرو استبداد کا شکار وبدترین غلامی سے نبردآزما ہیں اور اس مشکل ترین جدوجہد آزادی جہاں تین ممالک کے مفادات کا عمل دخل ہے اکہتر برسوں سے اپنی شناخت زندہ رکھتے ہوئے مصروف عمل ہیں جس میں اس قوم کے عظیم شہداء کی لازوال قربانیاں ہیں وگرنہ مملکت کی تمام آزادی پسند تنظیموں میں دستور کی عملداری کا حال کچھ قابل زکر نہیں رہاہے یہی وجہ ہے کہ آج ایک بھی آزادی پسند تنظیم ایسی نہیں جسے بین الاقوامی سطح پر الفتح ،حزب اﷲ یا حماس جیسی قبولیت حاصل ہو ،جب کے ان نامور تنظیموں کو ان کے اندرونی ڈسپلن و آرگنائزنگ کے نظام نے دنیا میں ممتاز بنایا یہاں تک کہ الفتح جسے دیار غیر سے چلایا جارہا تھا اس کے سربراہ یاسرعرفات کو بیرونی دوروں پر سربراہ مملکت کا پروٹوکول ملتاتھا۔ہمارے وطن جموں کشمیر کی آزادی پسند تنظیموں میں اہلیت، قوت ،صبراستقامت ،جذبہ ایثار ،جذبہ محب الوطنی بے مثال ہے بس فقط ڈسپلن کا فقدان ہے جو ان تنظیموں کو مستحکم نہیں ہونے دیتا جس روز کسی تنظیم نے اپنے اندر اپنے دستور اساسی کی مکمل عملداری کا اٹل ارادہ وفیصلہ کر لیا تو یقینا قومی جدوجہد آزادی کو جیسے پر لگ جائیں گے اور یقینا کسی ایک کے اسٹیبل ہوتے ہی باقی ماندہ تنظیمیں بھی خودکو انہی خطوط پر منظم کرنے پر مجبور ہونگی اپنے اداروں کی مضبوطی پر توجہ مرکوز کرنے لگیں گے،ادارے مضبوط ہوں تویقیناتنظیمیں’’ شخصیات‘‘ کے سحر و حصار سے آزاد ہوجاتی ہیں اور پھرادارے قومی پالیسیز بناتے ہیں وسیع تر قومی مفاد میں فیصلے کرتے ہیں اور بعد ازاں تنظیمیں قومی اتحاد کی جانب بڑھتی ہیں یہ تبھی ممکن ہیکہ’’ دستور اساسی‘‘ کی توقیر ہو۔بصورت دیگر ہم تاقیامت قومی اتحاد کا ورد کرتے رہیں یا وظیفے پڑھتے رہیں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے ۔بس ہم چند لوگوں کے سحر میں قید رہیں گے اور وہ ہماری رہنمائی کے بجائے ہانکتے رہیں گے اور دائروں میں گھومنے کا کھیل چلتا رہیگا۔
 

Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 82123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.