انسانیت کی بے بسی کا نوحہ

New Page 2
انسانیت کی بے بسی کا نوحہ

غزہ… ایک نام، جو آج صرف ایک علاقے کا نہیں، بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر لگے بدنما داغ کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جسے دنیا نے تین سو پچاس مربع کلومیٹر میں قید کر رکھا ہے، مگر یہاں بستے اکیس لاکھ انسانوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے دنیا نے گویا کھلی جیل میں ڈال دیا ہے — ایسی جیل جس میں قیدیوں کو بھی جینیوا کنونشن کے تحت دی جانے والی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، مگر غزہ کے باسیوں کے لیے یہ سہولتیں خواب بن چکی ہیں۔

دو مارچ 2025 سے غزہ میں خوراک اور ادویات کی فراہمی بند ہے۔ بازار ویران ہیں، اسپتال راکھ کا ڈھیر ہیں، اسکولوں کی جگہ قبریں بن چکی ہیں اور گھروں کی چھتیں ملبے میں دفن ہو چکی ہیں۔ اس سنگین محاصرے کے نتیجے میں نو لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں ستر ہزار ایسے معصوم ہیں جنہیں اب طبی امداد بھی نہیں دی جا سکتی — جیسے وہ زندگی کی دوڑ سے نکال دیے گئے ہوں۔

خوراک کی تقسیم کے مراکز، جو کبھی امید کے چراغ ہوا کرتے تھے، آج موت کی گلیاں بن چکے ہیں۔ ایک ہزار پچاس افراد کو انہی مراکز پر شہید کر دیا گیا، جب کہ چھ ہزار پانچ سو گیارہ افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ وہ اعداد نہیں جنہیں پڑھ کر بھلا دیا جائے، یہ وہ کہانیاں ہیں جن کے پیچھے ٹوٹے خواب، اجڑی گودیں، سسکتی مائیں، اور انتظار کرتی نگاہیں چھپی ہوئی ہیں۔

غزہ آج ایسی جیل بن چکا ہے جہاں انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالات میں رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اگر کوئی پالتو جانور بھوک سے مر جائے تو قانون حرکت میں آتا ہے، مجرم کو سزا دی جاتی ہے، انصاف مانگا جاتا ہے۔ لیکن غزہ کے انسان — وہ انسان جو ہمارے جیسے خواب دیکھتے ہیں، جن کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے — ان کے لیے دنیا کے ضمیر میں کوئی جنبش تک پیدا نہیں ہوتی۔

آٹھ ارب انسانوں کی اس زمین پر، دو سو سے زائد ملکوں کی موجودگی کے باوجود غزہ کے لیے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔ عالمی ادارے خاموش، انسانی حقوق کی تنظیمیں مفلوج، اور مسلم دنیا کی قیادت بے حس ہو چکی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم صرف اعداد و شمار نہ گنیں، بلکہ ان کے پیچھے چھپی انسانیت کو پہچانیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ مسئلہ صرف فلسطین کا ہے۔ یہ انسانیت کا امتحان ہے — اور اگر آج ہم اس میں ناکام ہوئے، تو کل یہ آگ ہمارے اپنے آنگن تک آ سکتی ہے۔

غزہ چیخ رہا ہے، فریاد کر رہا ہے، رو رہا ہے۔ ہمیں اس کی آواز سننی ہے، اس کے درد کو محسوس کرنا ہے، اور ظالم کے خلاف بولنا ہے — ورنہ ہماری خاموشی بھی ایک دن ظلم کا ہتھیار بن جائے گی۔

غزہ صرف ایک قید خانہ نہیں — یہ انسانیت کی بے بسی کا نوحہ ہے۔

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 235 Articles with 202602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.