مختلف شعبہ جات میں صحافت ایک مشکل ترین شعبہ ہے،
جس میں نیوز سٹوری، رپوٹنگ، نیوز ایڈیٹنگ ، کمپوزنگ ،پروف ریڈنگ، پیسٹنگ،
کاپی میکنگ اور پرنٹنگ سمیت ہر ایک کام انتہائی محنت طلب ہوتا ہے، اور جب
ساری دنیا سوتی ہے تب صحافی جاگ کر اپنی قلم چلاتے ہیں۔اور جب ایک صحافی
عوام کو آگاہی دینے کے لئے، معاشرے کے ناسوروں کو ان کے انجام تک پہنچانے
کے لیے حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو انہیں سنگین نتائج تک کی
دھمکیاں دی جاتی ہیں،انہیں جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے ۔ مگر اس کے باوجود آج
بھی نظریاتی صحافی اور ادارے آزادی اظہار اور حرمت قلم کیلئے سر بکف ہیں۔
بلاشبہ صحافت ریاست کا ایسا چوتھاستون ہے جو باقی تینوں ستونوں، انتظامیہ،
مقننہ اور عدلیہ کو بھی طاقت مہیا کرتا ہے، جس سے ریاست کی امارت مضبوط
بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ صحافی نہ صرف عوامی مسائل اورانتظامی اداروں کے
بارے میں اطلاعات فراہم کرتے اور سچ کی کھوج لگا کر اسے عوام تک پہنچاتے
ہیں بلکہ حکومت اور رعایا کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں، اور اپنے
فرائض کی ادائیگی کے دوران بعض اوقات لقمہ اجل بھی بن جاتے ہیں۔جبکہ صحافتی
اداروں اور شخصیات کو ہر دور میں مختلف نوعیت کی پابندیوں کا سامنا رہا ہے،
بہت سے ظالموں نے شعبہ صحافت سے وابستہ کارکنوں پربدترین تشدد اور ظلم وجبر
کرکے انکی جانیں تک لینے سے گریز نہیں کیا۔ ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں
صحافت سے وابستہ ایسی تمام شخصیات کو جنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے جابر
حکمرانوں کے تمام مکروہ عزائم کو ناکام بنایا۔ بلاشبہ پرنٹ و الیکٹرانک
میڈیا وہ آئینہ ہے جس میں کرپٹ عناصر اپنا اصل چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے
ہیں اور پھر اپنا عمل اور کردار درست کرنے کی بجائے آئینہ توڑنے کی کوشش
کرتے ہیں۔جبکہ پاکستان میں صحافتی اداروں کو مالی گزند پہنچا کر انہیں
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا کوئی نئی بات نہیں، آمریت ہو یا جمہوریت ہر دور
کے حاکموں نے صحافت کی آزادی کے حق کو دبانے کی ناکام کوششیں کی ہیں ۔
موجودہ دور حکومت میں بھی پوری میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہے، اشتہارات
اور فنڈز نہ ملنے کے باعث اخبارات اور چینلز بند ہورہے ہیں اور لاکھوں
صحافی بیروزگار ہورہے ہیں۔ ملک بھر سے صحافی معاشی حقوق اور آزادی اظہار کے
تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی تشکیل دینے پر زور دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے
ہمارے ملک میں حکمرانوں کا مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ صرف اپنی شان میں قصیدے
پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ آمریت منتخب حکمرانوں کے بھی خمیر میں رچ بس گئی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑی سی تنقید بھی انہیں گراں گزرتی ہے۔ تحریک انصاف کی
حکومت نے بھی اقتدار میں آتے ہی بیحد گراں گزرتی تنقید کو کنٹرول کرنے کے
لیے ، قومی خزانے کے پیسے بچانے کا نعرہ لگا کر اشتہارات بند کر کے میڈیا
ہاؤسز اور اشاعتی اداروں کو شدید مالی نقصان پہنچایا جس سے ملک بھر میں
شعبہ صحافت سے وابستہ افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ بلاشبہ آزادی صحافت پر
قفل لگانا یوں ہے کہ جیسے انسانی ذہن کی آزاد سوچ کے کھلے دریچوں کو بند کر
نا۔ اگر ہم تاریخ کا جائز ہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پسماندہ یا
غریب ممالک کے لوگ جب ایک عرصے تک اپنی بدحالی میں مست رہے اور وہ اپنی
غربت ،جہالت، بیماریوں یا دیگر مسائل زندگی کوبرداشت کرتے رہے تو وہاں خاص
طور پر میڈیا ہی نے آ کر ان لوگوں کو فرسودہ خیالات سے آزاد کروانے میں اہم
کردار ادا کیا، اور ان ممالک کی عوام میں ایسا شعور بیدار کیا کہ وہ بھی
دوسرے ممالک کی طرح جدید سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھا کر اپنے معیار زندگی کو
بہتر بناسکیں۔ مارٹن لوتھر نے کہا تھا کہ’’ اگر آپ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں
تو اپنا قلم اٹھائیں اور لکھنا شروع کردیں اس وقت صحافت ہی ایک ایسا پیشہ
ہے جس کے ذریعے سے آپ عوام کے مسائل اور اپنے نظریات دونوں کا پرچارکرسکتے
ہیں، مگر یہ سفر اتنا آسان نہیں ہے جتنا لوگ اسے آسان سمجھتے ہیں اور خاص
کر اس عہد میں جہاں ہر شے کا مقصد مال بنانا یا بٹورنا ہو۔‘‘ تین مئی کے دن
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن’’ورلڈ پریس فریڈم
ڈے‘‘کے منانے کا مقصد بھی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں پرنٹ و
الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مشکلات،مسائل،اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش
خطرات سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا، آزادی صحافت پر حملوں سے بچاؤ کے لئے
حکمت عملی مرتب کرنا، اور فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل، زخمی یا متاثر
ہونے والے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ پاکستان کی صحافی برادری
نے ہمیشہ جمہوریت کی ترویج اوراستحکام کے لئے جدوجہد کی ہے ، مگر خود
صحافیوں کے تحفظ کے لئے کوئی موثر قانون نہیں بنایاجاسکا، اس کے باوجود بھی
سربکف صحافی عوام کو حق اور سچ سے باخبر رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ |