بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب میں
پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھا ۔ یونیورسٹی میں لاہور کے طلباء
کی تعداد دیہی علاقوں یا پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت بہت کم تھی۔ میں
چونکہ لاہور کا رہائشی تھا اس لئے اپنی کلاسز اٹینڈ کر کے واپس گھر کو
آجاتا تھا البتہ ہفتے میں دو تین شامیں ضرور ہاسٹل میں دوستوں کے ساتھ گزرا
کرتی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کا گڑھ بلکہ گھر
سمجھی جاتی تھی، اسلامک سنٹر کی جانب سے منصورہ کی طرف کچھ راستے بھی جایا
کرتے تھے جن کو عام طلباء آمد و رفت کے لئے استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔ ہر
ہاسٹل میں جمعیت کے جھنڈے گڑے ہوا کرتے تھے، ایک طرف جہاں درس و تدریس کا
سلسلہ جاری ہوا کرتا تھا وہیں کچھ کمروں میں ساری ساری رات تاش کی بازی بھی
لگا کرتی تھی۔ قانونی طور پر تو ہاسٹلز میں غیر مقیم طلباء اجازت کے بغیر،
بطور مہمان بھی قیام پذیر نہیں ہوسکتے تھے لیکن ناظم صاحب یا ساتھی بھائی
کا دوست ہونا اور ہاسٹل میں سالہا سال تک رہائش پذیر ہونا کبھی قانون اور
”چھاپوں“ کی زد میں نہیں آیا کرتا تھا۔ ایک اہم بات جس کا اس وقت بھی ادراک
تھا اور آج بھی، وہ یہ کہ جمعیت کی موجودگی میں طالبات کی اکثریت اپنے آپ
کو یونیورسٹی میں محفوظ خیال کرتی تھی، بہت سے ایسے لوگوں کو میں جانتا ہوں
جو اس وجہ سے اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی میں داخلہ دلا دیا کرتے تھے کہ وہاں
جمعیت کی موجودگی میں کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ ہماری بیٹی کی طرف ٹیڑھی
آنکھ سے دیکھ سکے۔ جہاں ان کی سوچ صحیح تھی وہیں ایک اور حقیقت بھی ہوا
کرتی تھی کہ بہت سے دیہات اور چھوٹے شہروں سے جو طلباء یونیورسٹی میں داخلہ
حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرتے تھے یونیورسٹی پہنچ کر ان کی آن بان نرالی ہوا
کرتی تھی۔ ایک صاحب جن کا تعلق ایک چھوٹے سے گاﺅں سے تھا اور دنیاوی لحاظ
سے ایک چھوٹی ذات سے تھا(میں ذاتی طور پر ذات پات کا قائل نہیں ہوں، اللہ
تعالیٰ نے سب کو برابر پیدا کیا ہے، اللہ کے نزدیک یقیناً تقویٰ ہی عظمت کی
نشانی ہے)وہ اس وقت لاء کالج میں ہم سے جونیئر ہوا کرتے تھے، وہ اتفاق یا
اپنی کوششوں سے جمعیت کے ”رفیق“ بننے میں کامیاب ہوگئے (ویسے جمعیت کے
رفقاء آپس میں ایک دوسرے کو ”ساتھی بھائی“ کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہی
”ساتھی“ کا لفظ بعد ازاں ٹی وی پر ایک اشتہار کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنا
اور کسی حد تک متروک ہوگیا، کیونکہ وہ والے ”ساتھی“ بہت سستے ہوگئے تھے) ۔
وہی صاحب جو شروع شروع میں بہت سہمے ہوئے رہا کرتے تھے، انگلش تو زیادہ
مشکل تھی، اردو کا تلفظ بھی صحیح ادا کرنے میں اکثر ناکام رہا کرتے تھے اور
کلاس میں ہنسی مذاق کا ایک ذریعہ بھی بن جایا کرتے تھے، ”ساتھی بھائی“ بننے
کی وجہ سے اکثر کلف لگے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس کلاس روم کے باہر اور یونین
آفس میں نظر آنے شروع ہوگئے، پہلے تو انہوں نے اپنے کلاس فیلو طلباء کے
مسائل سے نبرد آزما ہونے کا سلیقہ تلاش کیا اور اکثر جمعیت کے ساتھ تعلق
ہونے کی وجہ سے لاء کالج کے آفس میں طلباء کی حاضریاں پوری کروانی شروع کیں
(یاد رہے کہ ایک خاص حد سے کم حاضری والے طلباء کا داخلہ نہیں بھیجا جاتا
تھا)اور بعد ازاں یہی ”سروسز“ طالبات کے لئے بھی فی سبیل اللہ مہیا کرنی
شروع کردیں۔ مسائل کا شکار اکثر طالبات ان ”بھائی“ صاحب سے مستفید ہوتی
رہیں۔ ان جیسے اور بہت سے ایسے ساتھی تھے جو کسی نہ کسی دیہات سے یونیورسٹی
میں وارد ہوئے اور پھر ان کی اڑان ہی کچھ اور تھی۔ وہ صاحب ایک مرتبہ
ڈیپارٹمنٹ کے قائم مقام ناظم بن گئے اور پھر اکثر مختلف طلباء سے موٹر
سائیکل ادھاری مانگ کر سیر کو یا مختلف کاموں پر جانے لگے اور ان کی واپسی
تبھی ہوا کرتی تھی جب موٹر سائیکل کا پٹرول ختم ہوجاتا اور اسے ٹیڑھا کر کے
یا کبھی کسی دوسرے ساتھی کا ہاتھ پکڑ کر واپس پہنچتے تھے۔ اسی دور کی بات
ہے کہ یونیورسٹی میں کسی بات پر ایک لڑکے کی لڑائی جمعیت کے چند ”کلف بردار“
لڑکوں سے ہوگئی، موصوف، جن کا ذکر خیر میں اوپر کرچکا ہوں، وہ چونکہ اس وقت
نظامت سنبھالے ہوئے تھے اس لئے وہ اس لڑائی میں پیش پیش تھے، ایک موقع پر
انہوں نے کہہ دیا کہ ”تم اپنی اوقات میں رہو تمہیں پتہ ہے تم کس سے بات کر
رہے ہو؟“ فریق مخالف اتفاق سے ان ”ساتھی بھائی“ اور ناظم صاحب کے شجرہ نسب
کو جانتا تھا، اس نے وہیں ڈیپارٹمنٹ میں نہ صرف ان ناظم صاحب کو کھری کھری
سنا ڈالیں بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ تم ذات کے ماچھی ہو اور تمہارے علاقے میں
، تمہاری انہی چھچھوری حرکتوں کی وجہ سے تمہیں کوئی منہ نہیں لگاتا وغیرہ
وغیرہ (ساری باتیں یہاں بیان کرنے والی نہیں ہیں) اس وقت تو بات آئی گئی
ہوگئی اور کچھ دوستوں نے صلح صفائی کرا دی جبکہ شام کو وہی ”ساتھی بھائی“
ہاسٹل میں اس طالب علم کے کمرے میں پہنچ گئے اور کچھ شرائط پر معافی تلافی
ہوگئی۔
طالب علمی کے دوران اور بعد میں چند ایک بار بیرون ملک سفر کا اتفاق ہوا تو
اکثر جگہوں پر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں ابھی بھی پنجاب یونیورسٹی
میں ہی موجود ہوں جہاں وہ لوگ دوسروں کو ”اوقات“ یاد دلا رہے ہوتے ہیں جو
اور جن کے خاندان اپنے علاقوں میں کچھ مخصوص کاموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں
اور وہ کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے کوئی ان سے رشتے داری تو دور کی
بات ہے دوستی کرنا بھی گوارا نہیں کرتا لیکن وہی لوگ جب دیار غیر میں پہنچ
جاتے ہیں تو اس طرح کا اظہار کرتے ہیں جیسے پاکستان کو انہی لوگوں نے
کندھوں پر اٹھا رکھا تھا اور بیرون ملک بھی بس وہی پاکستان اور کمیونٹی کے
خیر خواہ ہیں، بات بات پر دوسروں کو ”اوقات“ یاد دلانے کی کوشش کریں گے اور
یہ باور کروانے کی کوشش کریں گے کہ جیسے وہ ”جماندرو“ یعنی پیدائشی سونے کا
چمچ منہ میں رکھتے ہیں حالانکہ ہر انسان کو اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہئے
اور نہ ہی اپنی اوقات، مانا کہ پیسہ آج کل کی ایک بڑی حقیقت ہے لیکن یہ سب
کچھ نہیں، بہت سے کروڑ پتی ایسے ہیں جن کی کوئی سنتا نہیں، جن کی طرف کوئی
دیکھنا پسند نہیں کرتا اور بہت سے فقرے ایسے ہیں جو ہر وقت لوگوں کے ہجوم
میں رہتے ہیں، جنہیں لوگ کھوجتے رہتے ہیں، جن کو سننا پسند کرتے ہیں، جن کو
پڑھنا پسند کرتے ہیں....!
چند دن پہلے کی بات ہے کسی ٹی وی پروگرام میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
کی صدر عاصمہ جہانگیر، ایک نامور صحافی کو یہ فرما رہی تھیں کہ ”تم اپنی
اوقات میں رہو“ اس وقت مجھے شدت سے یونیورسٹی کا زمانہ یاد اور دیار غیر
میں بسنے والے اور ”اونچی“ اوقات رکھنے والے یاد آئے۔ اس سے پہلے سپریم
کورٹ بار ایسوسی ایشننز کے جتنے صدور نظروں سے گزرے ہیں ان میں شائستگی بھی
ہوا کرتی تھی اور تحمل بھی۔ اعتزاز احسن کی صدارت کا زمانہ ابھی اتنا پرانا
نہیں ہوا، مشرف کا جبر اپنے زوروں پر تھا، عام، جذباتی اور نوجوان وکیل جب
مشرف کے خلاف نعرے لگاتے تھے تو اعتزاز احسن ہمیشہ تلقین کیا کرتے تھے کہ
شائستگی کو نہیں چھوڑنا، کسی پر ذاتی حملہ نہیں کرنا، یہاں تک کہ تحریک کے
زمانے میں ایک مرتبہ شیر افگن نیازی، جو مشرف کے نو رتنوں میں سے ایک تھے
اور وکلاء تحریک اور عدلیہ بحالی کے بدترین دشمن، ان کو ہائی کورٹ کے قریب
چند نوجوان وکلاء نے دیکھا اور مخالفانہ نعرے بازی شروع کردی، دیکھتے ہی
دیکھتے وہاں عوام اور وکلاء کا جم غفیر جمع ہوگیا جو مشرف کے اس ”یار“ کے
خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے، جب اعتزاز احسن کے علم میں یہ
بات آئی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور اس شیر افگن نیازی کو اس ہجوم سے
بخیریت نکالنے کی کوشش کی، وہ اپنی کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی ٹھہرے
لیکن ”ایجنسیوں“ کے لوگوں کے ایک آدھ تھپڑ کی وجہ سے جب میڈیا پر اسے بار
بار پیش کیا گیا اور وکلاء کو بدنام کیا جانے لگا تو اعتزاز احسن نے اپنا
استعفیٰ پیش کردیا، جو بعد ازاں منت سماجت کے بعد واپس لیا گیا۔ اسی طرح
علی احمد کرد اور قاضی انور نے اپنی اپنی صدارت میں شائستگی، تحمل اور
بردباری کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ علی احمد کرد کو کون نہیں جانتا کہ وہ کتنے
جوشیلے ہیں اور ان کی خطابت کس طرح دلوں میں ایک نیا ولولہ اور جوش بھر
دیتی ہے لیکن انہوں نے بھی کبھی ایسی بات اپنے کسی مخالف کو نہیں کہی جس
میں ذاتیات کا عنصر دکھائی دیتا ہو۔ جہاں تک تعلق ہے عاصمہ جہانگیر کی ذات
کا، تو مجھے اور آپ کو ان سے بہت سے اختلافات ہوسکتے ہیں، ان کے عقیدہ سے،
ان کی سوچ سے، ان کی فکر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، وہ کیسے الیکشن جیتنے
میں کامیاب ہوئیں، اس پر بھی مخالفانہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ساری
قوتیں جو عدلیہ کی بحالی نہیں چاہتی تھیں، وہ سارے پی سی او ججز جو ذاتی
طور پر اس عدلیہ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں ، وہ سب عاصمہ جہانگیر کے ساتھ
کھڑے تھے اس کے باوجود ایک بات کا اعتراف ضرور کرنا چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ
بار ایسوسی ایشن کی منتخب صدر ہیں۔ سپریم کورٹ بار کی صدر ہونا ایک اعزاز
کی بات بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی! وکیل تو ویسے
بھی دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں، کسی کو حقیر اور اپنے سے کم تر سمجھنا،
دلیل کی بجائے، ہوش مندی کی بجائے خواہ مخواہ کے جوش سے کام لینا اور جذبات
کی تندی اور تیزی میں ہوش ہی گنوا دینا، کم از کم سپریم کورٹ بار کی صدر کو
زیب نہیں دیتا۔ شائد یہی بات تھی جس کو لاہور ہائی کورٹ کے وکلاء نے بھی
سخت ناپسند کیا اور حالیہ الیکشن میں عاصمہ جہانگیر کے صدارتی امیدوار کو
عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ فخر اور غرور صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے،
کسی کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت پر نہ تو اتنا ناز کرنا چاہئے
اور نہ اترانا چاہئے، یہ عہدہ صرف ایک سال کے لئے ہوتا ہے، اس کے بعد تو
پھر وہی پرانا کام ہے، امریکہ کی تابعداری، اسلامی اصولوں کی اور روایات کی
کھلی خلاف ورزی، اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بننے والے واقعات کو
اچھالنا اور ان کی مدد سے اپنی این جی اوز کے کاروبار کو وسعت دینا جبکہ
ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی گماشتوں کے بہیمانہ عمل کے خلاف آواز تک نہ
اٹھانا....کوئی کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہو، کتنا بڑا منصب جلیلہ رکھتا
ہو، اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ بھی انسان ہے، وہ بھی خطاءکا پتلا ہے،
اس سے بھی لغزشیں سرزد ہوتی ہیں، اسے بھی بطور انسان اپنی ”اوقات“ میں رہنا
چاہئے، صرف دوسروں کو ہی ”اوقات“ یاد نہیں دلانی چاہئے۔ |