تقسیم پاک و ہند سے پہلے یہ
سلسلہ عالیہ بنگال میں شاہ
عبدالحئی رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے بعد لکھنو
میں حضرت شاہ محمد نبی رضا رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے بعد اجمیر شریف میں
حضرت شاہ محمد عبدالشکور رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے مرید کامل سید احمد
صدیق المعروف شاہِ قاتل (باطل کا قلع قمع کرنے والا) رحمتہ اللہ علیہ تک
پہنچا۔ بعد ازاں بعد الذّکر دونوں بزرگ پاکستان میں علی الترتیب لاہور اور
کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ حضرت شاہ محمد عبدالشکور رحمتہ اللہ علیہ کا
مزار پاک لاہور(پنجاب) کے علاقے گارڈن ٹاؤن کے ایک قصبہ جیون ہانہ میں ہے
اور حضرت سید احمد صدیق شاہ صاحب المعروف شاہِ قاتل رحمتہ اللہ علیہ کا
مزار اقدس جامعہ کلاتھ کراچی میں مرجع خاص و عام ہے۔ آپ کے وصال کے بعد آپ
کے مرید خاص جناب پیر فضل حسین المعروف افضل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو
اذنِ خاص اور نورِ ہدایت نصیب ہوا۔ جن کا مزارِ اقدس تلہ گنگ ضلع چکوال میں
ہے۔
جناب پیر فضل حسین افضل شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام
میں اپنے ایک خاص الخاص مرید کامل جناب صوفی محمداسحاق شاہ صاحب مدظلہ
تعالیٰ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا اور اذنِ خاص اور نورِ ہدایت عطا کیا جوکہ
انتہائی پرہیزگاری ، اطاعت گزاری اور بنی نوع انسان سے بے لوث اور واسطے
اللہ محبت کرنے کی وجہ سے اپنے ہزاروں مریدین میں انتہائی عقیدت اور محبت
کی نگاہ سے جانے جاتے ہیں۔
آپ مدظلہ تعالیٰ موجودہ دور میں ایک انتہائی سچے عاشق رسول اور اللہ ربّ
العالمین کی ذات سے بے پناہ محبت کرنے والے راست باز اور صاف گو انسان ہیں۔
ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ظاہروباطن سچائی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپ
کے مرشد کامل جناب پیر فضل حسین المعروف افضل شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو
افضلی قلندر کا لقب عطا کیا۔ آپ اپنے تمام مریدین ، عقیدت مندان اور سلسلہ
عالیہ قادریہ چشتیہ پاکستان کے تمام چاہنے والے لوگوں میں اسی لقب سے بے حد
مقبول ہیں بلکہ بہت سے دوسرے سلسلہ ہائے کرام سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی
آپ مدظلہ تعالیٰ کو انتہائی عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسی
نام سے پہچانتے ہیں۔ آپ مدظلہ تعالیٰ کی عاجزی و انکساری کا یہ عالم ہے کہ
اپنے بارے میں ایک بار بات کرتے ہوئے آپ مدظلہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”میں
رسول کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خاکِ پا کے
برابر بھی نہیں ہوں“ اور نہ ہی کبھی آپ نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ
لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ موجودہ زمانے میں آپ ایک کامل صوفی بزرگ ولی
اللہ ہیں بلکہ مزید ایک موقع پر آپ نے گفتگو کے دوران اس طرح فرمایا کہ
”میں کچھ بھی نہیں ہوں“ کُل وہ ذات ہے (آسمان کی طرف شہادت کی انگلی سے
اشارہ کرتے ہوئے)۔ اُس کا نام ہے ربّ۔ ربّ المشرقین بھی ہے اور ربّ
المغربین بھی۔ وہی مجھے بھیجتا ہے جہاں بھی جانا چاہوں۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ ربّ العالمین جب اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو
حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میں (اللہ تعالیٰ) فلاں قبیلے کے
فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں۔ لہٰذا اے جبرائیل ! تو بھی اُس سے محبت کر۔
جبرائیل امین آسمان عرش سے زمین پر اترتے ہیں اور منادی کرتے ہیں کہ عرش و
فرش کا مالک اللہ ربّ العالمین فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، اے لوگوں! تم سب
بھی اُس سے محبت کرو۔
اللہ ربّ العالمین جسے چاہے عزت دے۔
جناب صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ گزشتہ 38سال سے سلسلہ عالیہ
قادریہ چشتیہ پاکستان کے روح رواں ہیں اور گزشتہ 30سال سے نیویارک (امریکہ)
میں مقیم ہیں۔ جہاں پر آپ کی سرپرستی میں 1992ء میں ایک اسلامی و تبلیغی
ادارہ ”انٹرنیشنل اسلامک مرکز طریقت(INC)نیویارک“ میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔
جس کے تحت ہر ماہ ماہانہ محافل گیارہویں شریف منعقد کی جاتی ہیں۔ جن کا
انداز انتہائی سادہ اور صوفیانہ ہوتا ہے۔ یہ محافل عاشقانِ مصطفی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اور عاشقانِ اولیاءاللہ کو روحانی غذا فراہم کرتی ہیں۔ اِن
محفلوں میں بزرگانِ دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا
جاتا ہے تاکہ انسان اپنے نفس کا غلام بننے کی بجائے اللہ کا غلام بن جائے
اور اُس کی عبادات ریاکاری سے مبرّا ہوکر اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت
کا شرف حاصل کرسکیں۔ یاد رہے کہ محافل گیارہویں شریف کا باقاعدہ آغاز حضرت
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ایک حدیث پاک کو زندہ
رکھنے کے لیے عمل میں لایا گیا۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ ”کھانا کھلانا
اور خیرخواہی چاہنا“۔ چنانچہ کم از کم ہر ماہ میں ایک دن تو ایسا ہو جس میں
واسطے اللہ خیرات کی جائے اور اللہ ربّ العالمین کا ذکر بلند کیا جائے اور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور درودوسلام کا نذرانہ پیش کیا
جائے اور پھر ہر وقت اس عمل کو دہرانے کی کوشش کی جائے۔
جناب صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ ایک انتہائی بے باک ، نڈر اور
اللہ ربّ العالمین کی ذات پر مکمل یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ حق بات کہنے
کے لیے اور آوازِ حق کو بلند رکھنے کے لیے کبھی کسی سے نہیں ڈرتے، خواہ
پوری دنیا ہی مخالفت کیوں نہ کرے۔
علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال نے یقیناً ایسی ہی ہستی کے بارے میں فرمایا تھا:
ہزار خوف ہو مگر زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
مزید فرمایا:
یہ قوم اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الہ الا اللہ
نبی کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس کسی
شخص نے بھی میری امت میں سے میری ایک سنت کو زندہ کیا وہ روزِ محشر اس
طرح(دونوں انگلیاں جوڑتے ہوئے) میرے ساتھ ہوگا۔
موجودہ حالات میں جب ہر طرف یہ شور و غوغہ ہے کہ (نعوذ باللہ )نبی کریم رؤف
الرّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں
گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ یہودوہنود کی یہ سازش
اس قدر زور پکڑ گئی ہے کہ سادہ لوح عام مسلمان جو کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے والہانہ عقیدت و محبت کا جذبہ رکھتے ہیں ،
یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ منافقین اور یہود و ہنود نے پہلے آپ رحمة
اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر یہ الزام لگایا تھا کہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا ہے اور اب آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمانے
کا الزام لگایا جارہا ہے (نعوذ باللہ)۔ مگر اب یہودوہنود کی اس سازش میں
چودہویں صدی کا نام نہاد مولوی بھی شریک ہے۔ جسے ہوا بھی نہیں لگی کہ ربّ
العالمین کی شان کیا ہے اور نہ ہی رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی شان کی ہوا لگی ہے۔ نہ ہی شریعت کا پتہ ہے اور نہ حقیقت و طریقت کا ،
اور دعویٰ ہے عاشق رسول ہونے کا۔
ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے بھلا ایک حقیقی سچا عاشق رسول کیسے خاموش رہ
سکتا ہے۔ یقیناً یہی وقت ہے کہ آوازِ حق کو بلند کیا جائے اور دین کی اصل
روح سے معصوم لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ یہی اصل جہاد ہے کہ غلط اور مذموم
ارادے رکھنے والے لوگوں کے ہجوم سے ڈرنے کی بجائے صرف اللہ ربّ العالمین سے
ڈرا جائے کیوں کہ اپنے ربّ سے ڈرنے والا کبھی لوگوں سے نہیں ڈرتا۔ چنانچہ
صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ نے ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے ”سچے
عاشق رسول کی پہچان “کے عنوان سے پاکستان بھر بلکہ امریکہ کی متعدد ریاستوں
میں جہاں مسلمان کافی تعداد میں بستے ہیں ، میں اپنا پیغام اخبارات کے
ذریعے سے اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے بھیجوایا۔ تاکہ لوگ جان سکیں کہ سچے عاشق
رسول کی پہچان کیا ہے۔
مضمون: ”سچے عاشق رسول کی پہچان “
حضور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل عالم کےلئے سراپاءرحمت ہی
رحمت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں بلکہ تمام بنی نوع انسان
اور جاندار مخلوقات کےلئے باعث رحمت ہیں۔ یہاں تک کہ مشرکین مکہ کی تمام تر
گستاخیوں، ایزارسانیوں کو صلح رحمی کے تحت عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے معاف
فرماتے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حسن سلوک سے ہمیشہ
لوگوں کو بھی عفوو درگزر ، برداشت، نرمی، رحمدلی اور معافی کی تلقین فرمائی۔
نبی آخرالزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا پیروکار اور سچا عاشق وہی
ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی پیروی کرے اور جو اپنے
کردار میں انسانیت بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کے لیے دردِ دل اور محبت
رکھتا ہو اور جس کا دل سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے
نرمی ، عاجزی و انکساری، برداشت، درگزر، رحمدلی اور معافی کے مادہ سے سرشار
ہو۔ نہ کہ اپنی نفسانی خواہشات(شیطانی وسوسوں) کا غلام بن کر ربّ تعالیٰ کی
مخلوق کو ستانے والا پتھر دل سخت خو ہو۔ یہی میزان ہے ایک سچا عاشق رسول
ہونے کا۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں
کسی بھی غلطی یا خطا کو سدھارنے کیلئے اصلاح کا موقع دینا بھی عین سنت رسول
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات
مبارکہ ایسے بے شمار حوالوں سے مزیّن ہے۔ شیطان کا ازل سے مقصد ہی نفس کی
تسکین اور پوجا کروانا ہے جبکہ نبی کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی رحمت انسان کو ربّ تعالیٰ کے فضل وکرم سے انسانیت کی معراج یعنی
عاجزی و انکساری ، نرمی اور دوسروں کو اصلاح کا موقع فراہم کرنے کی طرف لے
جاتی ہے۔ انسان کا قلبی طور پر نرم مزاج ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ رحمة
اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی انسان کو انسانیت کی
معراج کی طرف مائل کر رہی ہے۔ جبکہ ان جذبوں کا فقدان کھلی دلیل ہے کہ ابھی
تک انسان شیطانی بہکاوے میں ہے اور انسانیت سے نفرت اور سخت مزاجی کا اظہار
کرکے اپنے نفس اور شیطان کو خوش کررہا ہے۔ معاشرے میں موجود انتشار، ہٹ
دھرمی اور شدت پسندی کا خاتمہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح اور رسول کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنّہ مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کیا
جاسکتا ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا آپ مدظلہ تعالیٰ کی اللہ تعالیٰ اور اُس کے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کا کہ پوری دنیا ایک طرف
اور سچا عاشق رسول جناب صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ ایک طرف۔
اگر یہ پیغام پڑھ کر بھی لوگوں کی تشفی نہ ہوئی ہو تو خدارا ایک بار پھر
انتہائی ادب اور عاجزی سے اپنے ربّ کے حضور گڑگڑائیں اور ”میں نہ مانوں“
جیسے متکبرانہ کلمات سے دُور ہٹ کر اللہ ربّ العالمین سے سچی ہدایت کی بھیک
مانگیں کیونکہ وہ ذات تو بہت غفورالرحیم ہے۔ مزیدسمجھنے کے لیے قرآنِ پاک
سے ہدایت لیجئے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ:”اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو
تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“ مزید ایک جگہ ارشاد ہے: ترجمہ:
”بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز
ہیں“
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا بلکہ اپنے
سگے چچا کے قاتلوں تک کو معاف کردیا۔ ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھا۔ اپنی
ضروریات کو دوسروں کی ضروریات پر قربان کرنے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ نرمی،
رحم دلی، معافی یا عفو ودرگزرکا مادہ رکھنے والا کوئی اور بھی ہے ایسی شان
والا ۔۔۔؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
اسوہ حسنہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کیا تم
لوگوں نے قرآن میں غور نہیں کیا؟
علامہ اقبال نے اس بات کی کیا خوبصورت تشریح کی ہے :
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قرآن کریم میں جہاں قصاص (بدلہ لینے)کا ذکر آیا ہے وہیں پر سب سے بہترین
عمل یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی کسی کو معاف کردے تو یہ بہت ہی حوصلے
کا کام ہے۔ اب بتائیے ۔۔! کیا اور بھی کوئی ہے۔۔۔نبی رحمة اللعالمین صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا حوصلے والا۔۔۔؟
یقینا ہرگز ہرگز نہیں۔ تو پھر منافقین یا خارجین کے گروہ کی من گھڑت اور
خود ساختہ باتوں کو کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں وقت میں
فلاں بندے کو قتل کرنے کا حکم دیا“۔ حدیث شریف یا فرمانِ رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کہہ کر نبی کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر
(معاذ اللہ )بہتان باندھنا بذاتِ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
(معاذ اللہ) توہین کرنے کے مترادف نہیں ہے؟
ایک شاعرنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت میں اپنی محبت
کا اظہار کچھ اس طرح کیاہے:
جاں کے دشمن تو نئے خوف سے تھرائیں مگر
معاف کرنے کا وہ انداز پرانا دیکھوں
چشمِ اطہر کو خدایا وہ بصارت دے دے
قبلہ رو ہو کے میں آقا کو روزانہ دیکھوں
قرآنِ مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسوہ حسنہ ہے تو یقینا
حدیث شریف قرآنِ کریم کی تشریح یا خلاصہ ہی ہوگی۔ لہٰذا حدیث پاک کو قرآنِ
کریم کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ جو بات قرآنِ پاک سے مطابقت نہیں رکھتی وہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک یا فرمان نہیں ہوسکتی۔ یہ
ہماری کم عقلی یا کم علمی ہے کہ بعض احادیث کو قرآنِ پاک سے ٹکراتا ہوا
محسوس کرتے ہیں۔ حقیقتاً ایسا ہرگز نہیں ہوا اور نہ ہی ہوسکتاہے کہ اللہ
تعالیٰ ایک بات فرمائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس بات کے
متضاد بات فرمائیں۔
منافقین کے جھوٹے بہتان کو ردّ کرنے کیلئے سورہ والنجم کی آیت نمبر٣ کافی
ہے۔ ترجمہ:”اور وہ تو بولتے ہی نہیں اپنی خواہش سے “
جب اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ہر بات اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے تو پھر بتائیے اختلاف یا تضاد کیسے
ہوسکتاہے؟ قرآنِ کریم اور حدیث پاک میں؟
یہ تعلیمات ہیں جناب صوفی محمداسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ کی نہ صرف اپنے
عقیدت مندان اور مریدین کیلئے بلکہ تمام بنی نوع انسان کیلئے ایک بہت بڑا
پیغام بھی ہے ۔
اگر کوئی بدنصیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر
بیٹھے تو فوراً اُسے موت کے گھاٹ اُتار کر واصل جہنم کرنے کی بجائے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق کم ازکم تین بار اصلاح کا
موقع فراہم کیا جائے۔ جیسا کہ ایک منافق مسلمان اور ایک یہودی کا کسی بات
پہ تنازع ہوگیا تو دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں
فیصلہ لینے کیلئے حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودی کو
صحیح جانتے ہوئے اُس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔منافق مسلمان نے یہ فیصلہ
ماننے سے انکار کردیا اور یہودی کو لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے پاس چلا آیا۔ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فیصلہ دیا ہے اُسی پہ عمل کیا جائے۔ منافق
مسلمان پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور یہودی کو ساتھ لے کر حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا اور تمام رُوداد بیان کی۔ حضرت عمر فاروق
رضی اللہ عنہ نے اُس منافق اور گستاخ مسلمان کی گردن اُڑادی۔ اب ذرا غور
کیجئے :
١۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نعوذباللہ)نہیں جانتے تھے کہ یہ
منافق اُن کی بات نہ مانے گا۔۔۔؟ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اُسے اصلاح کا موقع دیا۔
اگر کسی کا یہ ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس منافق
کا اصل حال معلوم نہ تھا تو کہیں وہ خود ایسا سوچ کر نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی تو نہیں کر رہا؟
٢۔کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس گستاخ اور منافق کو
اصلاح کا موقع نہیں دیا؟
٣۔کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس منافق کی گردن اُڑانے سے
پہلے اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کو نہ کہا ہوگا؟ تاکہ
وہ موت اور جہنم کے عذاب سے بچ جائے۔
ذرا سوچیں۔۔۔!
سلسلہ ¿ عالیہ قادریہ چشتیہ پاکستان کی نمایاں تعلیمات
سلسلہ پاک میں داخل ہونے کیلئے سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
مطابق مردوں کیلئے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بیعت لی جاتی اور خواتین کیلئے
شرعی پردے میں رہ کر کسی بڑے کپڑے یا رومال کو تھام کر بیعت لی جاتی ہے۔
معاشرے میں بہترین زندگی گزارنے کیلئے چند ضروری ہدایات پر عمل پیرا ہونے
کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جن میں : ١۔کثرت سے ذکرالٰہی۔ ٢۔ عاجزی و
انکساری اور صلہ رحمی۔٣۔ وفاداری اور ثابت قدمی۔٤۔ گناہوں سے سچی توبہ کرنا
اور قرآنِ پاک میں جن باتوں سے منع کیا گیا ہے اُن سے بچنا۔ ربّ تعالیٰ سے
ڈرنا اور شکر ادا کرنا ۔٥۔ واسطے اللہ بھلائی کرنا ، دوسروں کے حقوق کا
خیال رکھنا اور انسانوں کا احترام کرنا تاکہ ایک ایسا صحیح اسلامی معاشرہ
قائم ہوسکے جس میں امن و امان اور سکون ہو۔
کسی کو بھی ذاتی طور پر یا سلسلہ پاک کے نام پر شیرینی ، چندہ، نذرنیاز
اکٹھا کرنے یا اُگراہی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں بلکہ سلسلہ پاک کے سب ہی
ماننے والے پوری دیانتداری سے اپنی محنت مزدوری سے کمائی ہوئی حلال کمائی
میں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے خرچ کرتے ہیں۔
اسلام زندہ باد پاکستان زندہ باد
صوفی ازم زندہ باد انسانیت زندہ باد |