کمسن صحابہ رضوان اﷲ اجمعین کا شوقِ جہاد-1

جہاد اللہ رب العزت کا ایک قطعی و محکم فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے اپنے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ستائیس سے زائد مرتبہ میدانِ جنگ میں نکالا۔ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے دس قیمتی و مبارک سال اس فریضہ کی انجام دہی میں صرف ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ اس مبارک فریضہ کی ادائیگی میں آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے، آپ کا خون مبارک بہا اور آپ کے رخسار اور پہلو پر زخم آئے۔ یہی وجہ کہ حضرات صحابہ کرام ؓ کا اس فریضہ کی طرف لپکنا اور اسے اپنی زندگی کا نصب العین بنا لینا ایک فطری بات تھی۔

حضرات صحابہ کرام ؓ نے ناصرف آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں دس سال جنگیں لڑیں بلکہ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما لینے کے بعد بھی یہ مبارک ہستیاں اللہ کے راستے میں جہاد کرتی رہیں۔ ان حضرات کا شوقِ شہادت و جہاد اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے جان و مال کی قربانی دینا قیامت تک کےلئے عدیم المثال ہے۔ ان حضرات نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے لئے جو قربانیاں دیں تاریخ کے اوراق ان واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کے مرد، عورتیں اور بچے غرض ہر کوئی ایک سے بڑھ کر ایک قربانی دینے والا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں بڑھ چڑھ کر اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والا تھا۔ آپ حضرات نے ان کے مردوں اور عورتوں کے شوقِ جہاد و قربانی کے واقعات بکثرت پڑھے ہونگے لیکن اب ہم آپ کو ان حضرات کی زندگی کا ایک اور منظر دکھانے جارہے ہیں جس کا عنوان ہے ”صغارِ صحابہ ؓ کا شوق جہاد“ یعنی صحابہ کرام ؓ کے بچوں کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا اور جہاد میں نکل کر دادِ شجاعت دینا۔ تو آئیے اس مبارک مجلس کا آغاز ایک ایسی ہستی کے ذکر سے کرتے ہیں جنہوں نے اسلام میں سب سے پہلے تلوار اُٹھائی۔

حضرت زبیر بن العوام ؓ بن خویلد
آپ کا اسم گرامی زبیر ؓ بن عوام تھا۔ آپ کے والد عوام بن خویلد ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ بنت خویلد کے سگے بھائی تھے۔ جبکہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپ ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ علی اختلاف الاقوال بارہ، پندرہ، سولہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں اسلام لے آئے اور ابوبکر صدیق ؓ کے بعد ایمان لانے والوں میں آپ چوتھے یا پانچویں نمبر پر تھے۔ آپ کے بارے میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہر نبی کا کوئی حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر بن العوام ہیں“۔

حضرت امام احمد بن حنبل ؒ اپنی کتاب ”فضائل صحابہ ؓ“ میں آپ کی نوجوانی و کم سنی کا ایک واقعہ ذکر فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب ؒ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلا شخص جس نے اللہ کے لئے تلوار اٹھائی وہ حضرت زبیر بن العوام ؓ تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ آپ ؓ مطانج نامی گھاٹی میں دوپہر کے وقت آرام فرما رہے تھے اتنے میں آپ نے ایک پست آواز سنی کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم شہید کردیئے گئے ہیں۔ آپ گھر سے اس حالت میں باہر آئے کہ آپ کے جسم پر چادر نہ تھی اور ننگی تلوار آپ کے ہاتھ میں تھی۔ راستے میں آپ کا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے آمنا سامنا ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے زبیر؟ آپ ؓ نے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ آپ کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا تو تم کیا کرنے جارہے تھے؟ آپ ؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے ارادہ کیا تھا کہ تمام اہلِ مکہ کو مزا چکھا دونگا۔ اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے دعائے خیر فرمائی۔

حضرت عمیر مولی ابی اللحم ؓ کا شوق جہاد
یہ بھی جلیل القدر صحابی ہیں۔ غزوہ خیبر میں اپنے آقا حضرت عبداللہ بن عبدالملک ابی اللحم ؓ کے ساتھ شریک ہوئے تقریباً ستر سال عمر پائی۔ امام ترمذی ؒ کے بقول رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد احادیث کے راوی ہیں۔

ابو داﺅد شریف میں انکی کم سنی و شوقِ جہاد کا ایک واقعہ ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر دیگر صغارِ صحابہ کرامؓ کی طرح انہوں نے بھی جہاد میں شرکت کی درخواست کی اور ساتھ ہی انکے سردار حضرت آبی اللحم ؓ نے بھی پرزور سفارش کی جس پر انہیں غزوہ خیبر میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ناصرف مجھے اجازت مرہمت فرمائی بلکہ ساتھ ہی ایک تلوار بھی میرے گلے میں ڈال دی جو کہ میرے قد سے بڑی تھی اور زمین پر گھسٹتی جاتی تھی۔ اس طرح آپ ؓ نے اس جنگ میں شرکت کی لیکن چونکہ بچے بھی تھے اور غلام بھی اس لئے مالِ غنیمت کا پورا حصہ تو نہیں ملا البتہ بطور عطیہ کچھ مال حصہ میں آیا۔

حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓ کا شوق شہادت
آپ کا نام عمیر بن ابی وقاص ؓ تھا۔ آپ حضرت سعدبن ابی وقاص الزہری ؓ کے چھوٹے بھائی تھے۔ ابتدائِے اسلام میں ہی مشرف بااسلام ہوگئے تھے۔ جس وقت غزوہ بدر پیش آیا آپ کی عمر سولہ سال تھی جو کہ جہاد میں شرکت سے مانع تھی اس لئے لشکر کی روانگی سے قبل آپ چھپتے پھر رہے تھے۔ آپ ؓ کے بھائی حضرت سعد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی عمیر ؓ کو بدر کی لڑائی کے وقت دیکھا کہ لشکر کی روانگی کی تیاری ہورہی ہے اور ادھر ادھر چھپتے پھر رہے ہیں کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ چھپتے کیوں پھر رہے ہو؟ کہنے لگے مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مجھے نہ دیکھ لیں اور بچہ سمجھ کر واپس نہ کردیں۔ جبکہ میری تمنا ہے کہ لڑائی میں ضرور شریک ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت سے سرفراز فرما دیں۔ آخر جب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کا معائنہ فرمایا تو وہی ہوا انہیں جسکا ڈر تھا۔ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کم عمری کی وجہ سے انہیں منع فرما دیا مگر شوق کا غلبہ تھا برداشت نہ کرسکے اور رونے لگے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب ان کے شوق اور رونے کا معلوم ہوا تو اجازت مرحمت فرما دی۔ پس آپؓ نہ صرف غزوہ بدر میں شریک ہوئے بلکہ شہیداء بدر کی عظیم جماعت کے بھی رکن بنے۔

معاذین ؓ کا ابوجہل کو قتل کرنا
حضرت معاذ ؓ ؓبن عفراءا ور معاذ ؓ بن عمرو بن جموح دو انصاری صحابی ہیں۔ کم سنی میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ حضرت معاذ ؓ بن عفراء کا اصل نام معاذ بن الحارث بن رقاعہ تھا لیکن مشہور اپنی والدہ حضرت عفراء کی نسبت سے ہوئے۔ آپ ؓ اپنے دونوں بھائیوں حضرت معوذ ؓ اور حضرت عوفؓ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے آپ کے دونوں بھائی تو غزوہ بدر میں ہی جامِ شہادت نوش فرماگئے مگر آپ بدر، احد، خندق غرض تمام جنگوں میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ امام واقدیؒ فرماتے ہیں کہ انصار میں سے مکہ مکرمہ تشریف لاکر جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان میں سب سے پہلے حضرت معاذؓ بن الحارث اور رافعؓ بن مالک تھے۔آپؓ کا انتقال جنگ صفین کے زمانہ میں ہوا۔

جبکہ حضرت معاذؓ بن عمرو بن جموح انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ بیعتِ عقبہ میں شریک ہوئے جبکہ آپ کے والد حضرت عمرو بن جموحؓ غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ امام بخاریؒ نے ان دو جلیل القدر نوجوانوں کا ذکر اپنی صحیح میں فرمایا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں بدر کی لڑائی میں میدان میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دائیں اور بائیں جانب انصار کے دو کم عمر لڑکے ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ میں اگر قوی اور مضبوط لوگوں کے درمیان ہوتا تو اچھا تھا کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرسکتے۔ میرے دونوں جانب بچے ہیں یہ کیا مدد کرسکیں گے۔ اتنے میں ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا چچا جان تم ابو جہل کو بھی پہچانتے ہو۔ میں نے کہا ہاں پہچانتا ہوں۔ تمہاری کیا غرض ہے۔ اس نے کہا مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھوں لُوں تو اس وقت تک اس سے جُدا نہ ہوں گا کہ وہ مرجائے یا میں مر جاﺅں۔ مجھے اس کے سوال اور جواب پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے نے یہی سوال کیا اور جو پہلے نے کہا تھا وہی اس نے بھی کہا۔ اتفاقاً میدان میں ابوجہل دوڑتا ہوا مجھے نظر آگیا۔ میں نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارا مطلوب جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کررہے تھے وہ جارہا ہے۔ دونوں یہ سن کر تلواریں ہاتھ میں لئے ہوئے ایک دم بھاگے چلے گئے اور جا کر اُس پر تلوار چلانی شروع کردی یہاں تک کہ اس کو گرا دیا۔

یہ دونوں صاحبزادے معاذؓ بن عمرو بن جموح اور معاذؓ بن عفرا ہیں مُعاذ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں لوگوں سے سنتا تھا کہ ابوجہل کو کوئی نہیں مار سکتا۔ وہ بڑی حفاظت میں رہتا ہے مجھے اسی وقت سے خیال تھا کہ میں اس کو ماروں گا۔ یہ دونوں صاحبزادے پیدل تھے اور ابوجہل گھوڑے پر سوار تھا۔ صفوں کو درست کررہا تھا جس وقت عبدالرحمن بن عوفؓ نے دیکھا اور یہ دونوں دوڑے تو گھوڑے سوار پر براہ راست حملہ مشکل تھا اس لئے ایک نے گھوڑے پر حملہ کیا اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کیا جس سے گھوڑا بھی گرا اور ابوجہل بھی گرا اور اُٹھ نہ سکا۔ یہ دونوں حضرات تو اس کو ایسا کر کے چھوڑ آئے تھے کہ اُٹھ نہ سکے اور وہیں پڑا تڑپتا رہے۔ مگر معوذؓ بن عفراء ان کے بھائی نے اور ذرا ٹھنڈا کردیا کہ مبادا اُٹھ کر چلا جائے لیکن بالکل انہوں نے بھی نہ نمٹایا۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعودؓ نے بالکل ہی سر جُدا کردیا۔ مُعاذؓ ؓبن عمرو کہتے ہیں کہ جس وقت میں نے اس کی ٹانگ پر حملہ کیا تو اس کا لڑکا عکرمہ ساتھ تھا اُس نے میرے مونڈھے پر حملہ کیا جس سے میرا ہاتھ کٹ گیا اور صرف کھال میں لٹکا ہوا رہ گیا میں نے اس لٹکے ہوئے ہاتھ کو کمر کے پیچھے ڈال لیا اور دن بھر دوسرے ہاتھ سے لڑتا رہا۔ لیکن جب اُس کے لٹکے رہنے سے دقت ہوئی تو میں نے اُس کو پاﺅں کے نیچے دبا کر زور سے کھینچا، وہ کھال بھی ٹوٹ گئی جس سے وہ اٹک رہا تھا اور میں نے اس کو پھینک دیا۔ 
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343788 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.