ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں کردار کو اہمیت حاصل تھی ۔رہنما
انسانی خدمت کی باتیں کرتے اور حسن واخلاق کا پرچار کرتے دکھائی دیتے
تھے۔لیکن وقت نے پلٹا کھایا،کردار کی جگہ دولت نے لے لی اور بداخلاقی کا
خوب پرچار کیا گیا۔خدمت خلق کے شدائی سیاست کے خمار میں چور ہونے لگے ۔کیونکہ
جب کوئی سیاست کا حصہ بنتا ہے ،وہ مصلحت پسند ہو جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ
سیاست میں عمل دخل رکھنے والے رہنما اپنی اصل شکل و شباہت میں نہیں رہتے ۔آج
سیاست میں بدعنوان سیاستدان اور فریبی رہنماؤں کا دورہے،مگر آج بھی ایسے حق
گو سیاست دان ہیں جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے کو اپنا فرض
اوّلین سمجھتے ہیں ۔اس کا احساس گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپنے
علاقے مظفر گڑھ اور وہاں پر مقیم عوام کے درد کو بیان کرتے ہوئے رکن صوبائی
اسمبلی نیاز حسین خان نے ایوان میں دلوایا۔انہوں نے معزز ایوان کی خوبصورت
تصویر کشی کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھتا ہوں،عوام نے مجھے
ووٹ دیئے اور منتخب کروا کر ایوان میں بھیجا کہ میں ان کے مسائل اس معزز
ایوان کو بتاؤں اور انہیں حل کرواؤں ،مگر مجھے اس ایوان میں 9ماہ میں پہلی
بار بات کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔وہ بھی دو منٹ دیئے گئے ہیں ۔میں اسمبلی
میں بطور ممبر پہلی بارآیاہوں،مگر مجھے یہاں حکومت اور حزب اختلاف کے ایک
دوسرے پر فقرے بازی یا ہنسی مذاق کے علاوہ کچھ سنجیدہ عمل دکھائی نہیں
دیا۔میرے لوگوں نے مجھے یہاں اپنے مسائل حل کروانے کے لئے بھیجا ہے اوران
مسائل کو یہاں بتا کر میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں ‘‘۔
ممبر صوبائی اسمبلی نیاز حسین خان کے یہ فقرے بہت درد بھرے احساسات میں ڈوب
کر کہے گئے تھے ۔علاقے اور وہاں پر مقیم لوگوں کے برے حالات ایوان میں
بتائے۔ایک ایک کو کہا کہ میرے علاقے کا دورہ کروتاکہ آپ کو اصل صورت حال کا
اندازہ ہو۔لیکن کسی ممبر یا وزیر کی توجہ اس جانب نہیں گئی،مگر اوپرگیلری
میں بیٹھے ہر صحافی کو ان کی درد بھری داستان کی سچائی نظر آ گئی ۔انہوں نے
اپنے قلم کا حق بھی ادا کیا ۔
ملتان سے 35کلومیٹر پر واقع مظفرگڑھ دو دریاؤں دریائے چناب اور دریائے ستلج
کے سنگم میں واقع ہے۔یہاں کی زمین انتہائی زرخیز گردانی جاتی ہے ۔زرعی
پیداوار میں آم ،کپاس ،چنا،چاول ،جیوٹ اور کماد شامل ہیں ۔شوگر ملز ، دیگر
صنعتوں اور انڈسٹری کا گڑھ ہے ۔مظفر گڑھ میں نامور سپوت پیدا ہوئے ۔جنہوں
نے ملک اور بین القوامی شہرت حاصل کی بابائے سیاست نوابزادہ نصراﷲ خان
مرحوم جیسا بڑا نام اسی ضلع میں پیدا ہوا ۔غلام مصطفٰی کھر،حماد
نوازخان،حال ہی میں شہرت پانے والے جمشید احمد خان دستی اور دیگر بہت سے
لوگوں نے ملکی سیاست میں بھر پور کام کیا ہے ۔ان تمام خصوصیات کے باوجود آج
بھی مظفر گڑھ کی تقدیر نہیں بدلی۔یہاں کے واسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں
۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے نزدیک کبھی بھی
انسانی مسائل بنیادی مسئلہ نہیں رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انڈسٹری ،صنعتوں
اورشوگر ملز،تھرمل پاورز کے ہوتے ہوئے سب سے زیادہ بیروزگاری اسی علاقے میں
ہے۔پنجاب میں سب سے زیادہ بچے اس علاقے میں بھوکے سوتے ہیں ۔تعلیم ،صحت ،امن
وامان ،شعور و آگہی بڑے مسائل میں شامل ہیں ۔ایک لاکھ تیس ہزار آبادی کے
شہر میں ایک ہسپتال ہے جو بھوت بنگلے کا نظارہ پیش کرتا ہے ۔انڈسٹری اور
صنعت کار مافیا نے علاقے کے پانی کو کیمیکل زدہ بنا دیا ہے ۔انڈسٹری کے
اپنے پانی کے نالے موجود نہیں۔عام نالوں میں کیمیکل ملا پانی پھینکا جاتا
ہے۔لوگ وہی کیمیکل زدہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔جس کی وجہ سے لوگ جان لیوا
بیماریوں کے شکار ہیں۔صحت اور صفائی کی خرابی کی بنیادی وجہ نکاسی آب اور
صفائی کے دن بدن بڑھتے مسائل کی وجہ موثر اور قابل عمل منصوبہ بندی کا
فقدان ہے،مگر ان مسائل سے بے خبر بے حس جاگیرداروں اور صنعت کاروں نے علاقے
میں معاشی اور سماجی بدحالی کو پروان چڑھایا ہے ۔کوٹ کچہری کی سیاست کو
فروغ ملا ،مگر عوام کے بنیادی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔جمشید
دستی کی ڈرامائی سیاست کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی ،مگر اپنے علاقے یا
یہاں کے واسیوں کے لئے کچھ نہیں کر سکے ۔
وزیر اعظم عمران خان اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں لمبا چوڑا
لیکچر جھاڑتے رہتے ہیں اوررہیں گے۔ ان کے سازندے اور کارندے تعریفوں کے پل
باندھتے رہیں گے ۔ان کے سب وعدوں کا قصہ چھیڑا تو قارئین اکتا جائیں گے ۔آج
عمران خان جس اقتدار پر بیٹھے ہیں اس میں سب سے زیادہ حصہ جنوبی پنجاب کے
کارکنوں نے ڈالا ہے ،مگر ان کی آج کہیں شنوائی نہیں نئے صوبے کا قیام سے لے
کر جنوبی پنجاب کی تمام محرومیاں اور پسماندگی ختم کرنے کے وعدے ہوا ہو چکے
ہیں ۔
2مئی 2012ء کو پنجاب اسمبلی نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی منظوری دے دی
تھی ۔اب وفاقی مسئلہ رہ چکا ہے ۔کیونکہ تحریک انصاف کے وعدے بدنیتی پر مبنی
تھے ۔اس لئے صوبہ تو بن نہیں سکا ،مگر نیاز حسین خان نے جس بات کی نشاندہی
کی ہے اسے حل کرنے میں کوئی دشواری لاحق نہیں ۔شہر میں تین سال پہلے بس اڈا
تو بنایا گیا ،مگر اسے فعال کرنا بھول گئے ہیں۔کوئی مستقل اڈا نہ ہونے کی
وجہ سے جگہ جگہ بس اڈے بنے ہیں،جس سے عوام مشکلات کا شکار ہے ۔سیوریج سسٹم
کی خرابی کی وجہ سے شہرکی سڑکیں گندے تلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ،
90سال پرانا ہیڈ پنجند پل ناکارہ ہو چکا ہے ۔جو کسی وقت بھی بڑے حادثے کا
شکار ہو سکتا ہے ۔اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ۔تعلیم انسان کو
باشعور بناتی ہے ۔اسے مسائل کا احسن طریقے سے حل نکالنا سمجھاتی ہے ۔لیکن
مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کا قیام نہ کر کے حکومت نے بڑا ظلم کیا ہے۔کیونکہ
سردار کوڑا خان جتوئی نے 1894میں 11ہزار ایکڑ قیمتی زمین مظفر گڑھ میں فروغ
تعلیم کے لئے ضلع کونسل کو وقف کی تھی۔123سال گزر جانے کے باوجود ضلعی
حکومت یہاں پر ایک پرائمری سکول تک نہیں بنا سکی ،بلکہ وقف شدہ رقبہ کو
اشرافیا نے آپس میں تقسیم کر لیا ہے ۔یہاں یونیورسٹی کا قیام جلد از جلد
ہونا اشد ضروری ہے ۔سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہیں ۔آئے روز حادثات کی وجہ سے
لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔سردار کوڑا خان کا وقف رقبہ چار
شوگر ملوں کا شوگر سیس فنڈ،ایک لاکھ ایکڑ سے زائد محکمہ جنگلات کا رقبہ اور
500کلومیٹر کے دریائی پتن کی آمدن کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
مظفر گڑھ کے غریب عوام ہے ،جو ایک طرف سے حکمرانوں کی نا انصافی کا شکار
ہیں اور دوسری جانب انہیں ہر سال موسمی سیلاب بہا کر لے جاتا ہے ۔ان کی
احساس محرومی کو ختم کرنا حکومت وقت کا فرض ہے ۔یہاں کی عوام پسماندگی کی
گھٹن میں سانس لے رہے ہے ،اس کی وجہ اقتدار کی ہوس کے پجاری ہیں ۔اگر حکومت
سنجیدگی سے ان علاقوں کی جانب توجہ دے تویہ وسائل کی دولت سے مالا مال ،تھل
اور بیٹ کے حسین امتزاج کے مالک سبز انقلاب کے منتظر ہیں۔ یہاں سے ملک میں
ریوینو بھی بڑھ سکتا ہے ،لوگ خوشحال بھی ہو سکتے ہیں اور امن امان کی صورت
حال بھی درست ہو سکتی ہے ۔لیکن حکومت کی درست نیت اور سنجیدگی شرط اوّلین
ہے ۔ |