چاند کا تنازعہ۔۔۔؟

رمضان کاچاندایک مرتبہ پھرتنازعہ کاشکارہوگیا قوم پھرتقسیم ہوگئی ،حسب معمول حکومت نے اس معاملے کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی رویت ہلال کامسئلہ گزشتہ کئی سالوں سے اختلاف کاشکارہے جس کی بڑی وجہ حکومتی کوتاہی ہے کسی حکومت نے بھی اس مسئلے کوحل کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی بلکہ جب بھی یہ اختلاف ہوتاہے توعلماء کے خلاف ایک شرانگیزمہم چلائی جاتی ہے اوریہ تاثردیاجاتاہے کہ علماء کسی معاملے پرمتفق نہیں ہوسکتے یہ معاشرے میں اختلاف کاسبب بن رہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ہرحکومت اس حوالے سے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے تنقیدکے تیرعلماء کی طرف پھیردیتی ہے ۔

گیارہ مہینے حکومت اورمتعلقہ وزارتیں خاموش رہتی ہیں رمضان قریب آتے ہی بیانات آناشروع ہوجاتے ہیں وزاراء کی طرف سے معاملے کے حل کے لیے مختلف تجاویزسامنے آتی ہیں اورڈھنگ ٹپاؤپالیسی کے تحت وقت گزاراجاتاہے اس بارتوموجودہ حکومت کے دودوزاراء بھی اس معاملے پر اختلافات کاشکارنظرآئے ،وفاقی وزیرسائنس اینڈٹیکنالوجی فوادچوہدری جنھیں یہ وزارت تازہ تازہ ملی ہے اوریہ سمجھاجارہاہے کہ سائنسی دنیامیں وہ نت نئے تجربات کرکے ملک کانام روشن کریں گے انہوں نے فرمایاہے کہ چاند کے معاملے پر تنازع کو ختم کرنے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی قائم کردی گئی ہے جو آئندہ 10 سال کے لیے اسلامی کلینڈر کی تاریخ کا تعین کرے گی اس کلینڈر سے ہر سال پیدا ہونے والا تنازع ختم ہوجائے گا۔ اس کمیٹی میں جن میں سپارکو، محکمہ موسمیات اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل ہوں گے۔دوسری طرف وفاقی وزیرمذہبی امورپیرنورالحق قادری کی وزارت کی طرف سے رمضان شروع ہونے سے قبل یہ خبرجاری کی گئی تھی اسلامی تہواروں پر قومی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کیلئے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی خصوصی ہدایت پر وزارتِ مذہبی امور نے رویت ہلال سے متعلق قانون سازی کیلئے مسودہ بل تیار کر لیا(حالانکہ یہ بل گزشتہ حکومت نے تیارکیاتھا )۔ آئین کی شق 144 کے تحت رویت ہلال پر قانون سازی کیلئے صوبائی اسمبلیوں سے قرارداد درکار ہو گی۔ صوبوں کی حمایت کے بعد رویت ہلال مسودہ بل منظوری کیلئے وفاقی کابینہ بھیجا جائے گا۔ رویت ہلال پر موثر قانون سازی سے مذہبی تہواروں پر قومی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا اور عوام کو عیدین پر دو ، دو اعلانوں کی وجہ سے ہر سال ہونے والی ذہنی اذیت سے نجات مل جائے گی۔

دونوں قابل احترام وفاقی وزاراء ہیں جب دونوں میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی توقوم کیسے ایک چاندپرمتفق ہوگی ؟مسئلہ یہ ہے کہ9 رکنی رویت ہلال کمیٹی کو 1974 میں قومی اسمبلی کے منظور کردہ قرارداد کے تحت قائم کیا گیا تھا۔تاہم اب اس کمیٹی میں 26 ارکان ہیں لیکن اسے اب تک آئینی اور قانونی حیثیت نہیں دی گئی ہے اور اس کمیٹی کے اراکین کے انتخاب کے لیے بھی کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں یہی وجہ ہے کہ مفتی عبدالقوی جیسے شاہکاربھی کمیٹی کے رکن رہے چکے ہیں ۔اس سے بھی بڑامذاق یہ ہے کہ کوئی بھی شخصیت رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پرتین سال یازیادہ سے زیادہ چھ سال تک متعین رہے سکتی ہے موجودہ چیئرمین گزشتہ تقریبا پندرہ سال سے اس عہدے پربراجمان ہیں سابق صدرپرویزمشرف کے دورمیں انہیں یہ عہدہ دیاگیاتھا اب اس میں قصورمفتی منیب الرحمن کانہیں ہے یاوہ ذبردستی اس عہدے پرفائزنہیں ہیں بلکہ کسی حکومت نے بھی نئے چیئرمین کی تعیناتی کی کوشش ہی نہیں کی جس سے حکومتی کوتاہی واضح ہورہی ہے حتی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جومشرف باقیات کوفارغ کرنے کے عزم کے ساتھ آئی تھی وہ بھی رویت ہلال کمیٹی کاچیئرمین بدل نہیں سکی ۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک ظلم یہ بھی ہواکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد رویت ہلال کامسئلہ صوبوں کے پاس چلاگیاتھااسے واپس وفاق میں لانے کے لیے تاحال وزارت مذہبی امورصوبوں سے مشاورت کاعمل مکمل نہیں کرسکی ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ رویت ہلال کمیٹی کی کوئی قانونی وآئینی حیثیت نہیں ہے یہ بات گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کی قائمہ مذہبی امورکے اجلاس میں وزارت مذہبی امورکے حکام نے تسلیم بھی کی ہے اب اس میں قصورمولویوں کانہیں حکومت کاہے ۔جب اس کمیٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے توپھرقوم کاپیسہ اوروقت کیوں برباد کیاجاتاہے ؟

جہاں تک مفتی شہاب الدین پوپلزئی کاتعلق ہے توان کاکہناہے کہ مسجدقاسم خان پشاورمیں 1825سے چانددیکھنے کی روایت چلی آرہی ہے یہ تاثربھی غلط ہے کہ مسجدقاسم خان میں صرف رمضان اورعیدکاچانددیکھا جاتاہے بلکہ پورے بارہ اسلامی مہینوں کے چانددیکھنے کااہتمام ہوتاہے دوسال قبل حکومت نے مفتی پوپلزئی کوذبردستی ملک بدرکردیامگرمسئلہ پھربھی حل نہیں ہواتھا ۔

وزیرسائنس فوادچوہدری نے یہ بھی کہاکہ اگر جدید ٹیکنالوجی موجود ہے تو چاند کی حتمی تاریخ کا تعین کرنے کے لیے ہم اسے کیوں استعمال نہیں کر سکتے؟وفاقی وزیرکایہ سوال بجاہے ۔جب ماہرین فلکیات نے پہلے ہی بتادیاتھا کہ اتوارکوچاندپیداتوہوچکاہوگا مگراس کی عمرپندرہ گھنٹے ہوگی اورچاندکانظرآناممکن نہیں پیرکوچاندکی عمرانتالیس گھنٹے ہوگی اورچاندبڑانظرآئے گا ۔توپھرسوال بنتاہے کہ پھرآپ کی حکومت نے رویت ہلال کمیٹی کااجلاس اتوارکوکیوں بلایا؟جب ٹیکنالوجی بتاچکی تھی کہ اتوارکوچاندنظرنہیں آئے گا ۔اوریہ اجلاس بلاکربقول آپ کے عید اور رمضان کے چاند پر 36 سے 40 لاکھ خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟چوں کہ آپ کی حکومت کفایت شعارہے توآپ وزارت مذہبی امورسے یہ رقم واپس لینے کی تجویزدیں گے ؟

مسئلہ یہ ہے کہ رویت ہلال کے مسئلے کوکبھی بھی سنجیدہ نہیں لیاگیا رویت ہلال کمیٹی ہرمرتبہ عیداوررمضان کاچانددیکھنے کے لیے کراچی میں ہی کیوں اجلاس کرتی ہے ۔پشاوراورکوئٹہ میں یہ اجلاس کیوں نہیں بلایاجاتا؟جب ہرمرتبہ خیبرپختونخواہ سے یہ مسئلہ اٹھتاہے تووہاں کے عوام کی گواہی کیوں نہیں قبول کی جاتی ؟گوادراورجیونی میں چاندنظرآنے کے سب سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں مگرحکومت نے کبھی بھی ان مقامات کارخ نہیں کیا اورنہ ہی ان لوگوں کی گواہی لینے کاکوئی اہتمام کیا ؟وزارت مذہبی اموراگریہ مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہے توجلدازجلدرویت ہلال بل کوپارلیمنٹ سے پاس کرواکراس پرقانون سازی کروائے اس بل میں نہایت اہم تجاویزدی گئی ہیں مثلا رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے پہلے چاند کا اعلان کرنے والے ٹی وی چینلز کو 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا جبکہ اس کی لائسنس کی معطلی کے حوالے سے بھی دیکھا جائے گا۔یہ بھی کہاگیاہے کہ چاند کے غلط شواہد دینے والے کو 6 ماہ جیل اور 50 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگانجی سطح پرچانددیکھنے کی کمیٹیوں پرپابندی ہوگی رویت ہلال ک کمیٹی کے چیئرمین کادفتراسلام آبادمیں ہوگا بل کے مطابق رویت ہلال کمیٹی میں چیئرمین سمیت 15 ارکان شامل ہوں گے، اسی طرح صوبائی اورضلعی رویت ہلال کمیٹیوں کی اراکین کی تعداد چیئرمین سمیت 13،13 ہوگی۔چیئرمین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ 20سالہ تدریسی تجربے کا حامل ہوگا، صوبائی اورضلعی رویت ہلال کمیٹیوں کے چیئرمینز کیلئے تدریسی تجربہ کی مدت بالترتیب 15اور 10 سال مقرر کی گئی ہے۔اس بل کے پاس ہونے سے کئی مسائل ازخود حل ہوجائیں گے ۔

کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ اگر رویت ہلال کامسئلہ اسلامی نظریاتی کونسل کوسونپاجائے تواس سے بھی کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں کونسل ایک آئینی ادارہ ہے کونسل کے سال میں صرف چارسے پانچ اجلاس ہوتے ہیں رویت ہلال کے حوالے سے وہ ہرمہینے باقاعدگی سے بھی اجلاس کرسکیں گے اوران کی رائے بھی معتبربھی ہے ۔

فواد چوہدری نے کہاہے کہ ملک چلانے کا فیصلہ مولانا پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اب آگے کا سفر مولویوں کا نہیں بلکہ نوجوانوں کا ہے۔وزیرسائنس کاکہنابجاہے مگرآپ کی کابینہ میں پیرنورالحق قادری جیسے مولاناہیں کہیں آپ ان پرتوعدم اعتمادنہیں کررہے ؟اوراسدعمرکے بعد ان کانمبرتونہیں لگابیٹھے ہیں ؟

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 32633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.