اسے قومی مفاد کہا جائے یا پھر عوام کااحساس، وزیراعظم نے
عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ
طے پانے والا معاہدہ مسترد کردیا ٹیکس وصولی ہدف کم کرنے کیلئے آئی ایم ایف
کو راضی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ عمران خانIMF
سے قرضے نہیں لینا چاہتے تھے لیکن ملکی معیشت کی بحرانی کیفیت کے پیش ِ
نظروہ مجبورہوگئے جب وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدے مکمل
کرچکے تھے تاہم جب یہ مسودہ وزیراعظم عمران خان کو پیش کیا گیا، تو انہوں
نے اس مسودے کو منظور کرنے سے انکار کر دیا کہ ا س سے عوام کا کچومر نکل
جائے گا وزیراعظم نے واضح کردیا کہ ہم افراط زرکے معاملے پر آئی ایم ایف کی
شرائط میں نرمی چاہتے ہیں اس لئے ٹیکس استثنا بارے بھی آئی ایم ایف سے مزید
رعایت لی جائے حالانکہ یہ خبریں گردش کررہی تھی کہ پاکستان اور آئی ایم ایف
کے درمیان مذاکرات میں قرض پروگرام پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور آئی ایم
ایف تین سالہ پروگرام کے تحت پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر تک کا قرضہ
دیگا،معاہدے کو حتمی شکل دی جارہی تھی کہ عمران خان نے کچھ مطالبات ماننے
سے انکارکردیا اب یہ معاملہ ایک بارپھر کھٹائی میں پڑ گیاہے اور حتمی اعلان
وزیراعظم عمران خان کی منظوری کے بعد کیا جائیگا اس ضمن میں آئی ایم ایف
جائزہ مشن کی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ہمراہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات
کا امکان ہے۔ جبکہ فی الحال وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ
معاہدے کیلئے تیار کردہ مسودے کو مسترد کر دیا ہے اقتصادی مبصرین کا خیال
ہے کہ آئی ایم ایف سے پیکج ملنے کی صورت میں ڈالر کی پاکستان کی کرنسی
مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسی خبریں سامنے
آئی ہیں کہ پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں
160 روپے تک جا سکتی ہے جس سے مہنگائی کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع
ہوجائے گا اور ہر چیز کے دام بڑھ جائیں گے ۔مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا
ثناء اﷲ نے کہنا ہے کہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے
تحت روپے کے مقابلے میں ڈالر 200 روپے کا ہونے والا ہے۔ ماہرین اقتصادیات
نے اس خدشہ کا برملااظہارکیاہے کہ آئی ایم ایف جو کچھ کرنے جارہی ہے اس سے
ملکی معیشت کی کمرٹوٹ جائے گی، شرح نمو 3فیصد تک گر چکی ہے،اس کے اوپر اگر
1100ارب کا اضافی بوجھ ڈالیں گے توآپ معیشت کی کمرتوڑ دیں گے،لہذا آئی ایم
ایف کے ساتھ ٹیکس ٹارگٹ 2سالو ں کا سیٹ کریں۔ کہا گیا ہے 1400تک ریونیو اور
اکٹھا کریں تاکہ مالی خسارہ اگلے سال تک کم ہوجائے، اگر ہم 3900 بلین ٹیکس
اکٹھا کربھی لیتے ہیں توکیا اگلے سال ہم پانچ ہزار تک جا سکتے ؟ ‘‘ کے جواب
میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا اگر آپ 1100ارب کا اضافی بوجھ
ڈال دیتے ہیں جس میں گروتھ ریٹ 400کا اور ایڈیشنل ٹیکس 700کا ہوتا ہے۔ تو
مجھے کہنا پڑتا ہے میں اس سے زیادہ سخت لفظ استعمال نہیں کرسکتا کہ آپ
معیشت کی کمرتوڑ دیں گے۔ اگر معیشت کو استحکام بخشنا ہے تو700ارب کا ٹارگٹ
2سالوں کیلئے سیٹ کریں۔آپ کے پاس پروگرام 3سال کیلئے ہیں آئی ایم ایف کے
پاس پہلے جاتے تو تھوڑا معاشی استحکام بھی آجاتا۔ آج کل پاکستان کی
اقتصادیات کے حوالے سے بس تشویشناک خبریں ہی سامنے آرہی ہیں IMF سے معاہدہ
ہونے کی صورت میں یقینی بات یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں کرنسی مزید 30فیصد
گرسکتی ہے۔ دوسری جانب وزارت خزانہ نے بھی تسلیم کیاہے کہ بات چیت میں پیش
رفت ہوئی ہے تاہم چند معاملات پر اتفاق نہ ہوسکا جس کے لیے مذکرات جاری
رہیں گے۔ جس کو اگلے دو روز میں حل کردیا جائے گا کیونکہ وزیراعظم چاہتے
ہیں کہ معاشرے کے غریب طبقے کو بھی تحفظ دیاجائے کیونکہ بجلی، گیس مہنگی
اور بھاری بھرکم نئے ٹیکس لگانے کی شرائط پر پاکستان نے تحفظات کا اظہار
کیا شیڈول کے مطابق آئی ایم ایف وفد کو پاکستانی حکام سے مذاکرات مکمل کر
کے 10 مئی کو واپس لوٹنا تھا تاہم اب وفد دو روز بعد واپس لوٹے گا۔حکام کے
مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو ساڑھے 6 سے 8 ارب ڈالر قرض فراہم کرنے کے
لیے مالیاتی امور سے متعلق سخت شرائط طے کر رکھی ہیں۔دونوں فریقین نے اس
بات پر بھی رضا مندی کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان آئندہ بجٹ میں صارفین کے
لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردے گا لیکن موجودہ حالات کے
تناظرمیں معیشت کی بحالی کے پیش ِ نظر پاکستان کو ہر قیمت پر قرضے درکارہیں
جس کااحساس عالمی مالیاتی اداروں کو بھی ہے اس لئے وہ اپنی زیادہ سے زیادہ
شرائط منوانا چاہتی ہیں اس چکر میں عوام پر750ارب کے نئے ٹیکسزکا نفاذ
ناگزیرہے ان حالات میں حکومت نے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی آئی ایم
ایف کی شرائط مان لی ہیں، بجلی،گیس کی مد میں 340 ارب روپے 3 سال میں
صارفین کی جیبوں سے نکالے جائیں گے جبکہ حکومت نے نیپرا اور اوگرا کو بجلی
اور گیس کی قیمتوں کے تعین کے لئے خودمختار بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے
اس طرح حکومت نے چھوٹے صارفین کے علاوہ سب کے لیے سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ
کرلیاہے، صنعتی صارفین میں صرف ایکسپورٹ انڈسٹری کو محدود سبسڈی دی جائے گی
اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان IMF سے کس قدر ریلیف لے سکتے ہیں ان کی شرائط
تسلیم کئے بغیر قرض ملنا محال ہے اس صورت ِ حال میں ایک غزل کا یہ مصرع یاد
آرہاہے جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن ِ زار زار لٹادیا
جو ریلیف ملے گا وہی بچت ہے اس بچت میں ہی ہماری بچت ہوگی۔ |