وطن عزیز میں معاشی انقلاب لانے کی باتیں ہورہی ہیں،
زراعت، انڈسٹری، آئی ٹی، ٹیلے کام اور سیکورٹی مینجمنٹ سمیت تمام شعبوں میں
اصلاحات کے ساتھ بیمثال ترقی کے راستوں کا تعین کیا جارہا ہے، توانائی کی
وافر مقدار، روزگار کے لامحدود مواقعوں اور خوشحال مستقبل کی نوید سنائی
جارہی ہے، اﷲ کرے، ہمارے خوابوں اور ارادوں کو کسی اپنے یا پرائے دشمن کی
نظر نہ لگے، پاک چین اقتصادی راہداری کو حقیقت میں بدلنے کے سفر میں ایشیا،
یورپ اور افریقہ کے 129 ملک بلواسطہ یا بلاواسطہ حصہ بننے کا ارادہ کر چکے
ہیں اور 15/20 برس میں ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع ظاہر کی
جارہی ہے، پاکستان اس کا گیٹ وے ہوگا، ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے منصوبے میں
شرکت کے خواہشمند یہ ممالک چینی صدر شی جن پنگ کی بلائی گئی کانفرنس میں
شریک ہوئے اور اپنے مقاصد اور مفادات کے تحت منصوبوں کی تیاریوں میں اب
مصروف ہیں، وزیراعظم عمران خان کی رہنمائی میں ہماری سیاسی قیادت بھی
کانفرنس میں پہنچی، افریقہ کے غریب اور امریکہ سمیت چوٹی کے امیر ملکوں کے
باہم نشست ہونے کا ماحول دیکھا، ملاقاتیں بھی کیں کیا طے ہوا، عوام کی
زندگی کو سنوارنے کے لئے کیا پیش بندی ہوگی، پاکستان خوش قسمتی سے ایسے خطے
اور محل وقوع میں واقع ہے جو کئی ملکوں ہی نہیں براعظموں کو ملانے کا
سینٹرل پوائنٹ اور ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل کلیدی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے
اپنی بے سمت خارجہ پالیسیوں کے باعث کئی دہائیوں سے ترقی تو ایک طرف ابھی
تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، پاکستان کے چار میں سے دو سرحدی ہمسایوں (بھارت،
افغانستان) کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور اب ایران کیساتھ تعلقات میں سردمہری
نے ہمارے امن و سلامتی اور معاشی حالات کو متاثر کیا ہے۔ ضروری ہے کہ چوتھے
ہمسائے چین کے ساتھ مزید اچھے تعلقات بنائے جائیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ
ہر قسم کے وسائل (زراعت، معدنیات، قدرتی ذخائر اور انسانی وسائل) سے مالا
مال وطن عزیز ترقی کے سفر کی اقتصادی شاہراہ کی تعمیر میں اپنے مضبوط ہاتھ
پاؤں سے تعمیر کا حصہ بنتا، لیکن منظر واضح ہے کہ سب نعمتیں اور بہت کچھ
ہونے کے باوجود ہم نے امداد کا سہارا لیا، چین جیسے مخلص دوست کی ہمت کی
داد دینی چاہئے کہ ہائی سیکورٹی رسک ایریا میں (55/60) ارب ڈالر کے منصوبے
شروع کرنے جا رہا ہے، اس نے اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے ملک سے ہاتھ ہی نہیں
ملایا بلکہ اس کو گلے بھی لگا رہا ہے ،گزشتہ بدھ 8مئی کو پاکستان میں کالم
نگاروں کی سب سے بڑی تنظیم ’’پاکستان فیدڑیشن آف کالمسٹ‘‘ کے روح رواں اور
صدر تنظیم ملک محمد سلمان کی قیادت میں سینئر صحافیوں ،کالم نگاروں ،
بیوروکریسی اورپاک آرمی کے آفیسرز نے چینی بائب سفیر لی جان زاؤ کی دعوت پر
چینی سفارت خانہ اسلام آباد میں سی پیک پر بریفنگ اور افطار ڈنر میں شرکت
کی،نائب چینی سفیر نے خوش آمدید کہتے ہو ئے بتایا کے پاکستان کے وزیراعظم
عمران خان دورہ چین کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہم دورہ تھا جس
میں وزیراعظم عمران خان سمیت اہم ترین وزراء بھی شامل تھے جبکہ چین کی
میزبانی میں ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس میں چالیس سے زیادہ
سربراہانِ مملکت شریک تھے، اس اہم کانفرنس میں پاکستان کو بہت زیادہ عزت سے
نوازا گیا، خصوصاً وزیراعظم عمران خان کو کانفرنس کے پہلے سیشن میں روس کے
صدر پیوٹن اور چین کے صدر شی جن کے بعد خطاب کی دعوت دی گئی جو ایک بڑا
اعزاز تھا، چینی بائب سفیر لی جان زاؤ نے کہا کہ عمران خان کی قیادت میں
پاکستان خطے کی ایک نئی معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے جس کے ثمرات
عنقریب پاکستان کے عوام کو حاصل ہوں گے جبکہ اس دورہ میں پاکستان میں
سرمایہ کاری کے لئے بہت بڑی سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا جس
میں چار سو کے قریب چین کے چوٹی کے سرمایہ دار موجود تھے جبکہ پاکستان سے
بھی بڑی تعداد میں کاروباری شخصیات اس اہم کانفرنس میں شرکت کے لئے پہنچی
تھیں، اہم بات یہ تھی کہ دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کے درمیان 19ارب ڈالر
کے بی ٹو بی معاہدے طے پائے جو بہت بڑی بات ہے جبکہ اسی دورہ میں پاکستان
اور چین کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر بھی دستخط ہوئے ہیں جس سے پاکستان
کی چین کو ہونے والی برآمدات میں سالانہ 2ارب ڈالر کا اضافہ متوقع ہے ،اسی
دوران موجود شرکاء کے لئے افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا ،وقفہ کے بعد
چینی سفیر سے سوالات کا سیشن تھا ،جس میں سوال کیا گیا گزشتہ کچھ عرصے کے
دوران چینی باشندوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیوں کا ایسا انوکھا اور حیرت
انگیز سلسلہ شروع ہوا تھا کہ میڈیا پر بھی ان شادیوں کی خبر کو نمایاں جگہ
ملنے لگی اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، پھرمختلف شکایات منظر عام پر آنے کے
بعد تحقیقاتی اداروں کی تفتیش سے کئی چشم کشا حقائق سامنے آئے کہ درحقیقت
جعلی میرج بیوروز کی مدد سے شادی کے مقدس نام پر انسانی اسمگلنگ کا مکروہ
کاروبار بڑے منظم طور پر کیا جا رہا تھا، اس ضمن سے منگل کو ایف آئی اے کے
ہیومن ٹریفکنگ سیل نے مزید کارروائی کرتے ہوئے پاکستانی لڑکیوں سے شادی
کرنے اور ان سے جسم فروشی کرانے والے گروہ کے چینی سربراہ سمیت 7افراد کو
گرفتار کر لیا،ذرائع کے مطابق دو خواتین کی درخواست پر انکوائری شروع کی
گئی جس کے نتیجے میں مذکورہ گرفتاریاں عمل میں آئیں، ڈی جی ایف آئی اے نے
بتایا ہے کہ اب تک 19افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں، ملزمان خود کو جعلی طور
پر مسلمان اور عیسائی ظاہر کرکے مقامی خواتین سے شادیاں کرنے کے ساتھ ساتھ
انسانی اعضا کی فروخت میں بھی ملوث تھے، اس پر نائب چینی سفیر نے بتایا کہ
چینی حکومت کی جانب سے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے ضمن میں
پاکستانی اداروں سے مکمل تعاون کا اعلان کیا گیا ہے، وزارت خارجہ چین نے
پاکستان اور چین کے شہریوں کو رشتہ کروانے والے غیر قانونی اداروں سے محتاط
رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ جرم ہے اور ایسی کسی بھی
اطلاع کی تحقیق کی جائے گی، بیان میں شہریوں کو کوئی بھی مشکوک سرگرمی کے
زیر مشاہدہ آنے پر متعلقہ اداروں کو فوراً مطلع کرنے کی تاکید بھی کی گئی
ہے، امید ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کی جانب سے معاملہ کا نوٹس لینے پر
اس قبیح اور مذموم کاروبار کی بیخ کنی کسی حد تک ممکن ہو سکے گی۔ یہ بات
کسی المیہ سے کم نہیں کہ شخصی آزادیوں کے آج کے دور میں بھی انسانی اسمگلنگ
اور خواتین کے جنسی استحصال کا سلسلہ واضح صورت میں موجود ہے جس کے خلاف
عالمی سطح پر مشترکہ حکمت عملی اپنائے جانے کی ضرورت ناگزیر ہو گئی ہے،ایک
دوسرے صحافی کے سوال کے جواب میں بتایا کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں
مسلمانوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی ہے ،ان پر روزہ رکھنے اور عبادات کی
ادائیگی میں کوئی پابندی نہیں ہے ،ہاں باقی ممالک کی طرح چینی قوانین موجود
ہیں جن کا اطلاق ضروری ہے ،چینی نائب سفیر کا کہنا تھا کہ پاک چین میں
تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں ،اور یہ خطے میں ضروری ہے تا کہ یہ خطہ ترقی کی
منازل طے کرے، یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ایک طرف چینی کمپنیاں تیزی سے
پاکستان میں نئے نئے منصوبوں میں مصروف ہیں یہ اورنج ٹرین، گرین لائن،
ساہیوال کول انرجی سمیت دیگر کئی اہم منصوبے چل رہے ہیں، سب کچھ ہو بھی رہا
ہے ،چین دنیا کی دوسری ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے اور نمبرون کو چیلنج کر
رہی ہے ایسے میں بھارت اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور چیلنج ہے، بھارت کی ہٹ
دھری اور امریکہ نوازی بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس کے کھلم کھلا بائیکاٹ ومخالفت
سے عیاں ہو چکی ہے، بھارت سے سرحدی تنازعات سمیت دیگر خدشات کے بعد بلاشبہ
چین اور پاکستان کو ایک دوسرے پر انحصار کے سوا دوسرا راستہ نہیں، لیکن
عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں، ملکی وعالمی تقاضوں اور
چینلجز کیلئے کتنے باخبر اور تیار ہیں؟ کہا جارہا ہے کہ توانائی کے اربوں
کے منصوبے لگائے جا رہے ہیں تو یہ تو بتا دیا جائے کہ ہوا، پانی، کوئلے اور
سورج سے بننے والی بجلی کس نرخ پر ملے گی؟ ذخائر ہمارے ہونگے لیکن یہ
منصوبے ملکیت کس کی ہونگے اور بجلی کون بیچے گا اور کہاں کہاں بکے گی؟عوام
جاننا چاہتے ہیں کہ انڈسٹریل زون بنیں گے اس میں کون کون سے کارخانے، ملز
اور فیکٹریاں ہوں گے؟ کپاس وکاٹن سے مالا مال ملک کی مقامی ٹیکسٹائل
انڈسٹری کا مستقبل کیا ہے؟ خوش آئند ہے کہ زراعت کے شعبے میں ریفارمز کی
جائیں گی لیکن مقامی کاشتکار اور کھاد سمیت اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد
کا کردار کیا ہوگا؟پلاسٹک کے چاول دانے کی جھوٹی سچی کہانی تو پہلے ہی
منظرعام پرآچکی ہے اب اگر گندم کی ایک روٹی سو روٹیوں میں بدل بھی جائے اور
اگر وہ ہو پلاسٹک کی تو اس کو کون کھائے گا؟ اس منصوبے کے تحت بنائے گئے
انڈسٹریل زونز اور نیلم جہلم اور ساہیوال کول توانائی منصوبوں میں پاکستانی
مزدوروں کی کھپت کتنی ہوگی؟ چین میں مزدور کی فی کس مزدوری 1500/2000 ہزار
ہے جبکہ پاکستانی مزدور اب بھی 500 روپے میں مل جاتا ہے تو سوال ہے کہ
فوقیت کس مزدور کو دی جائے گی؟ پاکستان میں امن وامان کی جو صورت حال ہے سب
کے علم میں ہے، ہر گلی، محلے، دفاتر اور گھروں میں سیکورٹی کیمرے نصب ہیں
یقیناً ان منصوبوں پر بھی سیکورٹی لگائے جائیں گے لیکن یہ تو طے کر کے بتا
دیا جائے کہ سروئیلنس اور کسی بھی خطرے سے نمٹنے کا کلی اختیار کس کے پاس
ہوگا؟ راہداری کے منصوبوں کی سیکورٹی کے نظام صرف پاکستان میں قائم کئے گئے
جو خصوصی سیکورٹی ڈویژن کی ذمہ داری ہوگی یا نہیں؟ یہ بھی واضح ہونا ضروری
ہے کہ چین کے بنکوں سے بھاری قرضوں کی شرح سود اور دیگر شرائط کیا ہیں؟ کہا
جا رہا ہے کہ چین کے باشندے پاکستان ویزہ کی شرط سے متثنیٰ ہوں گے تاہم
پاکستانیوں کو موجودہ طریقہ کار کی طرح چین کا ویزہ بدستور لازمی ہوگا؟ یہ
کچھ سوال تھے راقم کے ذہین میں ان کا جواب آنے والا وقت ضرور دے گا ،بہر
کیف ملک محمد سلمان کی خصوصی کاوش نے نائب چینی سفیر کے ساتھ سوالات کی
شاندار نشت اور لاجواب افطار ڈنر پر اسکے مشکور ہیں ،پاکستان فیڈریشن آف
کالمسٹ کا اگلا پروگرام وادی کیلاش کا ہے ،جس میں پیٹریاٹک کلب اور پی ایف
سی کے ممبران کو فری میں ٹور کرایا جارہا ہے جس پر ملک محمد سلمان مبارک
باد کے مستحق ہیں ،عام عوام کا عام سا سوال ہے بات فائدے یا نقصان کی نہیں
(شفافیت) کی ہے، یہ کسی ایک ذات، جماعت یا دو فریقین میں باہمی رضامندی کا
سادہ سا معاملہ نہیں، یہ پاکستان ہی نہیں خطے سمیت یورپ، ایشیا اور افریقہ
کی قسمت سنوارنے کا گیم چینجر تاریخی منصوبہ ہے، ہم توانائی کی قلت کا شکار
ہیں اور اس کے حصول کے لئے ہمیں ہر کوشش کرنا چاہئے لیکن اس کی بھاری قیمت
کا بوجھ آنے والی نسل پر لادنے کی بجائے ہمیں ایک باشعور، غیرت مند اور
دوراندیش قوم کی طرح بھرپور ہمت اور طاقت سے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنا
ضروری ہے،ہمارے پاس چولہا جلانے کے لئے صرف آگ ہی تو نہیں، کھانے اور پینے
کے تمام لوازمات تو ہمارے پاس ہیں، ہمیں شکوک وشبہات کا شکار ہونا ہے نہ
کسی کو ہونے دینا ہے، میرے ملک کی اپنی اقدار ہیں، روایات ہیں، معاشرتی
تقاضے اور جذبات وخیالات ہیں اور ان کی کوئی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا اور
کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہمیں تمام مفادات سے
بالاتر ہونا چاہئے، ذہن بار بار سوچتا ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں میں
اقتصادی راہداری کے حوالے سے آخر آپ نے بھی تو کوئی منصوبہ بندی یا پیش
بندی کی ہوگی، کوئی ڈاکومنٹس یا پالیسی تیار کی ہوگی اور اگر یہ سب ملک اور
عوام کے مفاد میں ہے تو اس کو ان سے شئیر کرنے میں کیا امر مانع ہے؟
پاکستان کا سب سے طاقتور اور عوامی نمائندہ ادارہ پارلیمنٹ موجود ہے تمام
حقائق پر مقدس ایوان کو ہی اعتماد میں لے لیا جائے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ
وطن عزیز پھر کسی نظریہ ضرورت کا متحمل نہیں ہوسکتا، اقتصادی راہداری کا یہ
منصوبہ ایٹمی راز ہے نہ کوئی آبدوزوں کا دفاعی وحساس معاہدہ، نہ ہی کوئی
نیا خفیہ ورلڈ آرڈر، یہ سیدھا سادھا ترقی و معاشی خوشحالی کا سودا ہے کہ اس
ہاتھ دے اس ہاتھ لے، اس کو جتنا جلدی ممکن ہوعام کر دیا جائے تا کہ دشمن
اپنے عزائم میں ناکام و نامراد ہو اور پاک چین لازوال دوستی کے پاک رشتے
میں کوئی امر رکاوٹ نہ بن سکے…!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |