چندماہ قبل شائع ہونے والے ایک اخباری بیان میں عزت
مآب جناب چیف جسٹس ہائیکورٹ آزاد کشمیر نے آزاد کشمیر کے عدالتی نظام کو
عالمی معیار کا نظام قرار دیا تھا۔ ہر شہری کی خواہش ہے کہ ہمارا عدالتی،
تعلیمی اور جمہوری نظام عالمی معیار کا ہو لیکن ایسا ہے نہیں۔کوئی فرد واحد
اسکا ذمہ دار نہیں اور نہ ہی کوئی اکیلا اس نظام کی اصلاح کر سکتا ہے۔ ہر
ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چائیے۔ ہماری عدالتوں میں بھی قابل اور
دیانتدار ججز موجود ہیں۔ دیگر قومی اداروں کے اندر بھی اصلاحی سوچ فکر و
جذبہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور وہی سب سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے
ہیں۔ اس لیے میں نے اپنے تجربات اور تحقیق کی روشنی میں آزاد کشمیر کی
عدالتوں کے حوالے سے چند ایک حقائق موجودہ چیف جسٹس سپریم و ہائی کورٹ کی
توجہ میں لانے کی جسارت کرتے ہوئے اپنے خط میں ایک مثال دی تھی کہ کس طرح
کسی منصب پر بیٹھے رحم دل ، جرات مند اور دیانتدار انسان موقع سے فاہدہ
اٹھاتے ہوئے پورے نظام کو بدل کر لوگوں کو انصاف دلا سکتا ہے۔ اعلی منصب
ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں بلکہ ایک موقع ہوتا ہے جس کو صاحب بصیرت ہمیشہ
کسی اچھی مقصد و مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مثال میں نے
برطانیہ کے ایک سابق لارڈ چیف جسٹس کی دی تھی جنہوں نے میرے ذاتی خط کے
جواب میں برطانیہ میں میرے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے رد عمل میں مجھے جو
راستہ دکھایا اس پر چل کر ۲۲ سالہ قانونی و سیاسی جد و جہد کے نتیجے میں
مجھے رہائی ملی اور ساتھ ہی برطانیہ کا وزیر داخلہ اپنے ان صوابدیدی
اختیارات سے بھی محروم ہو گیا جنکی بنا پر مجھے اور میرے ساتھی ریاض ملک کو
ماورائے عدالت قید رکھا گیا تھا۔ گو پاکستان کی حکومت نے برطانیہ کی
خوشنودی کے لیے میرے بری ہو جانے کے بعد بھی پاکستان کے کسی ٹی وی چینل
کومیرا انٹرویو کرنے کی اجازت نہ دی مگر پھر بھی پرنٹ میڈیا کے ذریعے اور
ذاتی معلومات رکھنے والے بے شمار لوگ جانتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے ہمیں
بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں خفیہ سزائیں دے کر جیل بھیج دیا تھااور
وکلا ء کی سہولتوں سے بھی محروم کر دیا تھا۔ میں نے لارڈ چیف جسٹس کے نام
ایک خط سمگل کروایا جس میں لکھا کہ مجھے اور ریاض ملک کو حکومت نے جیل بھیج
دیا مگر جج کو سزا بتانے سے روک کر وزیر داخلہ نے یہ اختیار اپنے پاس رکھ
لیا اور اب وزیر داخلہ کہتا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کے تحت ہماری سزا کو خفیہ
رکھنا اسکی مجبوری ہے۔ لارڈ چیف جسٹس نے مجھے ایک ہزار الفاظ پر مبنی کیس
سمری لکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس سمری میں کوئی قانونی جان
ہوئی تو مجھے سرکاری اخراجات پر وکیل مہیا کریں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔
برطانیہ کی ہائی کورٹ نے ہماری خٖفیہ سزا کو کالعدم قرار دیا مگر برطانوی
حکومت نے تاخیری حربے جاری رکھے جسکے نتیجے میں ہم برطانوی حکومت کویورپ کی
انسانی حقوق کی عدالت میں لے گے جس نے ریاض کو انیس اور مجھے ۲۲ سال بعد
بری کر دیا تھا۔میرے حق میں یورپی انسانی حقوق کی عدالت کے فیصلہ کو بھی
لٹکانے کے لیے برطانوی انتظامیہ نے عجیب و غریب بہانے تراشنے شروع کیے تو
میں نے دوبارہ لارڈ چیف جسٹس سے رجوح کیا۔ اس وقت لارڑ چیف جسٹس لارڈ وولف
تھے جنہوں نے جسٹس ریڈ کی چھٹی منسوخ کر کے یورپی عدالت کے فیصلہ پر عمل در
آمد کروانے کا حکم جاری کیا ۔ یہ حکم جاری کر کے اسکی کاپی لارڈ وولف نے
مجھے جیل میں ارسال کی۔ اسے کہتے ہیں جیتے جاگتے منصف۔
جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ آزاد کشمیرکے نام خطوں میں میں نے
برطانوی لارڈ چیف جسٹس کے کردار کی مثال اس لیے دی تھی کہ شاید انہیں بھی
تقلید کا حوصلہ ملے مگر ایسا نہیں ہوا اور ایک بار پھر واضع ہوا کہ ہمارے
اداروں میں بیٹھے لوگ صرف اپنے سے زیادہ طاقتور کو جواب دیتے ہیں اور جن
فرائض کی اجام دہی کے لیے وہ تنخوائیں لیتے ہیں انہیں پورا نہیں کرتے! اب
میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے چیف جسٹس کے مذکورہ دعوی کہ ہمارا عدالتی
نظام عالمی معیار کا ہے کے رد عمل میں انہیں کیا لکھا۔ عدالتوں میں چلنے
والے کیسوں کا کوئی ٹائم فریم نہیں۔ جن کیسوں میں کوئی قانونی جان نہیں
ہوتی انہیں لٹکانے کے لیے تا خیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کئی کئی سال
تک طلبیا ں مکمل نہیں ہوتیں جسکی تازہ مثال میں نے ہائی کورٹ میں اپنی ایک
رٹ کی بھی دی تھی جس میں میں نے مطالعہ جموں کشمیر کو نصاب میں شامل کرنے
کی درخواست کی تھی مگر فریقین میں سے کچھ نے عدالت کی طرف سے بار بار بھیجے
جانے والے نوٹس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور ججوں نے متعلقہ فریقین کے خلاف
کوئی کاروائی نہیں کی۔ عدالتوں کے کلرکوں نے اپنی بادشائی قائم کی ہوئی ہے
جسکی وجہ ججوں کی کیسوں میں عدم دلچسپی اور اپنے فرائض سے روگردانی و غفلت
ہے۔ بعض فریقین گھر بیٹھے بٹھائے کلرکوں سے اپنی حاضریا ں لگواتے رہتے ہیں
اور وکلاء کے منشیوں کے زریعے سائلین کو کہا جاتا ہے کہ تاریخیں بتانے یا
فائل فارورڈ کرنے کے لیے کلرکوں کی جیبیں گرم کی جائیں۔ مختلف سیکٹرز میں
ہائی کورٹ کے پینل جاتے ہیں مگر کیسوں کو لٹکانے کے لیے طلبیوں اورسماعت کی
تاریخیں ججوں کے دوروں کے شیڈول کے مطابق نہیں ہوتیں۔ تاریخیں دیتے وقت
سرکاری چھٹی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر چھٹی ہوئی تو
کاروائی اگلے دن ہو گی مگر اگلا دن آتے آتے کئی سال گزر جاتے ہیں۔ عدلیہ
اگر کوئی فیصلہ منصفانہ طور پر کر بھی دے تو پیسے اور سیاسی اپروچ کے بل
بوتے پر انتظامیہ سے عمل در آمد نہیں ہونے دیا جاتا اور عدلیہ بھی سیاسی
مداخلت پر مصلحتوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔یہ ہیں ہمارے بگڑے ہوئے عدالتی نظام
کی چند ایک مثالیں۔ ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہتے کہ ان ساری خرابیوں کی ذمہ
دار عدلیہ ہے کیونکہ اجتماعی طور پر ہمارا معاشرہ کرپٹ ہے جسکی اصلاح کے
لیے صبر ازما جد و جہد کی ضرورت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب چیف جسٹس صاحب
جیسی معتبر شخصیت بھی اگر اس طرح کی تجاویز پر خاموش رہتی ہے تو ایک عام
انسان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک جب صاحب منصب کسی خرابی کی
نشان دہی پر خاموش رہتے ہیں تو اسکا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ غلط مقام پر ہیں
اور انہیں اپنے منصب و حیثیت کا احساس و اندازہ نہیں ہے۔ میری رہائی کا
راستہ کھولنے والا برطانوی لارڈ چیف جسٹس ایک صحیح ادمی کی حیثیٹ سے ایک
صحیح مقام پر تھا جس نے اپنے منصب کا جائز استعمال کر کے تاریخ میں اپنا
نام درج کروا لیا۔ ہم جہاں برطانیہ کی سیاسی نا انصافیوں کا زکر کرتے ہیں
وہاں لارڈ چیف جسٹس بنگھم کو بھی اچھے الفاظوں میں یاد کرتے ہیں۔ میری دلی
دعا ہے کہاﷲ تعالی ہمارے معاشرے میں بھی صاحب اقتدار اور صاحب منصب کو صاحب
کردار بننے کی بھی ہمت و توفیق دے تاکہ ہمارا بھی با عزت و باوقار قوموں کی
صف میں شمار ہو سکے۔ آمین۔
|