۱۱؍مئی ۱۹۱۲ء کو سمبرالہ، امرتسر میں منٹو کی
پیدائش ہوئی، گو انھوں نے ۴۲؍سال ۸؍ماہ اور ۹؍دن کی زندگی پائی اور
۱۸؍جنوری ۱۹۵۵ء کو ان کا انتقال ہوا۔ سعادت حسن ہمیشہ متنازع شخصیت رہے اور
بعد مرگ بھی آج بھی وہ موضوع بحث ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ان کے نام کے
ساتھ اخیر میں مَنٹو یا مِنٹو کا لگانا بھی آج تک کوئی رائے قائم نہ کرسکا۔
بعض محققین کے لیے وہ مَنٹو ہیں تو بعض کے لیے وہ مِنٹو ہیں۔ ڈاکٹر برج
پریمی نے جہاں انھیں مَنٹو کہا وہیں وارث علوی جیسے نقاد نے مِنٹو کے نام
سے پکارا۔ زبر اور زیر کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، جیسا کہ ایک نقطہ کی
غلطی سے خدا لفظ جدا ہوجاتا ہے۔ مگر یہ الگ موضوعِ بحث ہے۔ اسی طرح منٹو کی
ادبی تحریریں تنازعہ کا شکار رہیں۔ آج ان کے انتقال کے ۵۸ سال کے طویل عرصے
بعد بھی بعض کے نزدیک وہ فحش افسانہ نگار ہیں تو بعض دوسروں کے نزدیک وہ
محض باغیانہ خیالات کے مالک تھے۔ اور حقیقت پسند تھے۔ گو وہ فحش نہیں لکھتے
تھے بلکہ سماج کی تصویر کی سچی عکاسی کرتے تھے اور سچ بھی یہی ہے کہ وہ
حقیقت پسند تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی بعض دوسری تحریروں میں بھی سماج کی
صحیح عکاسی غیر جانبدارانہ اور باغیانہ طور پر ہوئی، جیسے منٹو کے مضامین،
ان کے خطوط، ڈرامے، خاکے وغیرہ منٹو کی شخصیت کی غمازی ہیں۔ خاص طور پر
منٹو کے خطوط کے سلسلے میں ،انکل سام کے نام لکھے گئے خطوط اس بات کا ثبوت
فراہم کرتے ہیں کہ وہ محض باتونی نہیں تھے، بلکہ دنیا کا درد اپنے سینے میں
سما رکھتے تھے۔ یہ محض اتفاق کی بات نہیں بلکہ ان کی جرأت مندی اور ہوش
مندی کا بھی ثبوت فراہم کرتا ہے جو وہ اس وقت کہ جب معمولی بات بھی چنگاری
کی شکل اختیار کرلیتی تھی۔ بات اُن دنوں کی ہے جب ابھی پاکستان بھی وجود
میں نہیں آیا تھا۔ ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا۔ اردو فکشن نے شعور کے
ناخن لینا شروع کیا تھا، منٹو داد کے مستحق ہیں، جنھوں نے نڈر اور بے باکی
سے اس زمانے میں اپنے افسانوں سے وہ ساری باتیں کہہ ڈالیں جو اس وقت کا
افسانہ نگار ہمت بھی نہیں کرپا رہا تھا۔ مگر منٹو نے ادب کے نئے زاویے، نئی
راہ وا کیے۔ یہ کہنا غیرمناسب نہ ہوگا کہ منٹو نے آنے والی نسلوں کو بھی
افسانہ لکھنا سکھایا۔ ’’آتش پارے‘‘ سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ
ہے جو ۱۹۳۶ء میں چھپا تھا۔ دیباچے میں وہ خود رقم طراز ہیں: ’’یہ افسانے
دبی ہوئی چنگاریاں ہیں۔ ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام
ہے۔‘‘
ان کی تحریریں افسانے کی شکل میں اس دور کے سیاسی اور سماجی حالات اور ان
حالات کے پیدا کیے ہوئے احساسات کی عکاسی ہے۔ خود منٹو اپنے متنازعہ
کارناموں کے باعث جیل گئے اور ان پر مقدمات بھی درج ہوئے۔ منٹو نے ۱۹۱۹ء کی
ایک بات جیسے افسانے لکھ کر دراصل ان جذبوں کی قدر میں اضافہ کیا ہے جو
باطل کے ہاتھوں شہید ہوجاتے ہیں۔ دراصل انھوں نے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش
کیا ہے۔ بقول ڈاکٹر نگار عظیم ’’بچپن سے انگریزوں کی تشدد پسندی کا تماشا
دیکھنے والا منٹو بالغ النظر ہوکر جب باری صاحب صحبت میں آتا ہے روسی دہشت
پسندوں کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرتا ہے اور آسکروائلڈ کے ضبط شدہ ڈرامے
’’ویرا‘‘ کا ترجمہ کرنے کے بعد سے ہی منٹو کی ذہنی ساخت کا اندازہ ملتا ہے۔
’’نیا قانون‘‘ دراصل سعادت حسن منٹو کا پہلا شاہکار افسانہ ہے۔ اس افسانے
کا اختتام منٹو نے بڑے ہی پُر اثر انداز میں کیا ہے۔ گو منٹو نے اپنے
افسانوں میں تکنیک، زبان و اسلوب اس کے اجزائے ترکیبی وغیرہ کو ہمیشہ اہم
جانا ہے۔ یہ سچ ہے منٹو کسی بندھے ٹکے نظریے کے قائل نہ تھے، بلکہ وہ
باغیانہ خیالات کو اپنے افسانوں کے ذریعہ پیش کررہے تھے۔ حوالے کے طور پر
مشہور نقاد پروفیسر ابوالکلام قاسمی کا مضمون ’’منٹو کے بعد اردو افسانہ:
شخصیات اور رجحانات‘‘ پیش کرنا چاہوں گا، جس میں وہ فرماتے ہیں:
’’منٹو کا زمانہ وہی ہے جو ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ ہے، مگر زندہ
رہنے والے فنکار تحریکات کا کبھی شکار نہیں ہوتے۔ سو منٹو نہ ترقی پسند رہا
اور نہ غیر ترقی پسند۔ وہ ایک افسانہ نگار تھا اور صرف افسانہ نگار۔‘‘
(رسالہ ادیب، ص ۹۶)
سچ ہے منٹو کسی تحریک کا شکار نہ ہوئے بلکہ وہ خود اپنے آپ میں ایک تحریک
تھے۔ راقم اپنے استاد اور مشہور ناقد پروفیسر ابوالکلام قاسمی کے اس نظریے
کو آگے بڑھاتے ہوئے اس ضمن میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ جیسا کہ بعض کے نزدیک
منٹو ترقی پسند تو بعض کے نزدیک رجعت پسند یا بعض کے نزدیک فحش پسند تھے
مگر راقم یہ کہنے کی جسارت کررہا ہے کہ نہ تو وہ ترقی پسند تھے، نہ رجعت
پسند یا پھر فحش پسندتھے، ہاں مگروہ حقیقت پسند ضرور تھے۔
فحش کے حوالے سے یہ عرض کرتا چلوں کہ فحاشی ہمارے سماج کے ذہنوں میں ہے نہ
کہ منٹو کی تحریروں میں۔ سچ تو یہ ہے کہ منٹو کے بغاوت کے عناصر جنسی نگاری
اور عریاں نگاری سے کہیں آگے کی چیز ہے۔ بقول منٹو:
’’ہماری تحریریں آپ کو بڑی کڑوی کسیلی لگتی ہیں مگر اب تک جو مٹھاس آپ کو
پیش کی جاتی رہی ہیں، ان سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے…… نیم کے پتے کڑوے
سہی مگر خون ضرور صاف کردیتے ہیں۔‘‘
منٹو کو ماہر نفسیات بھی قرار دیا جاتا ہے اور یہ ایک حد تک درست بھی ہے۔
بقول حقانی القاسمی:
’’منٹو نے انسانی ذہن کی پراسراریت کو سمجھا، منٹو نفسیات انسانی کے نباض
تھے۔‘‘ (شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان، ص ۱۰۴)
بانجھ، ڈرپوک، ٹیڑھی لکیر، اور چغد وغیرہ منٹو کے نفسیاتی افسانوں میں آتے
ہیں۔ مگر بقول جناب فاروق اعظم قاسمی (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) ان
افسانوں کو نفسیات کا موضوع قرار دینا مناسب نہیں، کیوں کہ نفسیات کا تعلق
اسلوب و تکنیک سے ہے۔‘‘
ماہر منٹو نے منٹو کی شخصیات کے لگ بھگ سبھی دریچوں کو عیاں کیا ہے مگر یہ
عرض کرنا چاہتا ہوں، آج کے چند ناقدین منٹو کو صرف بطور افسانہ نگار ہی
پرکھتے ہیں اور اس پر حد یہ ہے کہ چند گنے چنے افسانوں کو ہی اہم بتاکر
اپنی علمی معیار کو جتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں بھی اس کا اندازہ ہے کہ
منٹو کے چنندہ افسانے مثلاً ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، بو، بابو گوپی ناتھ،
ہتک، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون اور دیگر دوسرے یقینا یہ افسانے
اپنی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسرے منٹو کی شہرت کا سبب بھی بنے مگر اس کے
علاوہ بھی منٹو کے بے شمار افسانے ہیں، جن کا تجزیہ ضروری ہے۔ ۳۰۰؍افسانوں
سے زائد منٹو کے افسانے ہیں، علاوہ ازیں منٹو نے ڈرامے، خاکے، فلمیں، خطوط
اور ایک نامکمل ناول بھی لکھا ہے، جس سے ان کی زودنویسی کا پتا ملتا ہے۔
یقینا منٹو خدادا دصلاحیت کے مالک تھے، نہایت اہم تخلیق کار اور دانش ور
تھے۔ ایک ہی جست میں ریڈیو ڈرامے اور کئی افسانے لکھ ڈالتے تھے۔ شاید ہی
کبھی کبھار نظر ثانی کی ضرورت ہوتی تھی۔ یقینا بنیادی طور پر وہ ایک افسانہ
نگار ہی تھے جیسا کہ ان کی تخلیقات کی بیش ترحصہ افسانوں پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر اجے مالوی نے کتاب نما (مکتبہ جامعہ کی پیشکش جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارہ)
میں ان کے مضمون ’’سعادت حسین منٹو کی افسانوی معنویت‘‘ میں صفحہ ۷ پر لکھا
ہے: ’’ترقی پسندی کے شور شرابے، نعرہ بازی، ہنگامے، پروپگنڈے اور فرسودہ
عقائد و تصورات کا اثر منٹو کے ذہن پر نہیں پڑا۔ مارکیست اُن کے دل و دماغ
پر غالب نہ تھی۔ اگر منٹو کی پوری ادبی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو یہ بات
صاف طور پر نظر آتی ہے کہ منٹو کے خون میں گرمی تھی۔ ان کے جسم میں حرارت
تھی، وہ انقلاب پرور تھے، وہ ایک باغی تھے، ادب و آرٹ کے باغی تھے۔ وہ
Doxaیعنی روڑھی کے خلاف تھے۔ ان کا مقصد اشرافیہ کو ننگا کرنا تھا۔ ان کی
بغاوت کی چنگاری پوری زندگی اڑتی رہی۔ انھوں نے اپنی ننگی آنکھوں سے زندگی
کے تلخ، بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا موضوع بناکر ہمارے سامنے پیش
کیا۔ ڈاکٹر اجے مالوی آگے لکھتے ہیں جو دراصل پروفیسر گوپی چند نارنگ کی
تصنیف ’’جدیدیت کے بعد‘‘ میں سعادت حسن منٹو کے افسانوی ادب کے ضمن میں
اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار ہے۔ بقول گوپی چند نارنگ: منٹوDoxaکی نقاب
اسی لیے نوچ پھینکتا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ننگا کرسکے۔ منٹو کا فن عورت کی
گھائل روح کی کراہ اور درد کی تھاہ پانے کا فن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و
بیشتر منٹو کے کردار گوشت پوست کے عام انسانوں سے کہیں زیادہ سچے، کہیں
زیادہ درد انگیز بن جاتے ہیں۔ (منٹو کی نئی پڑھت: متن، ممتا، اور خالی
سسنان ٹرین ’’’جدیدیت کے بعد‘‘، ص ۳۲۳)
سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانہ ’’تماشا‘‘ ہے، جو سب سے پہلے امرتسر کے ہفت
روزہ ’’خلق‘‘ میں آدم کے فرضی نام سے شائع ہوا۔ فرضی نام سے شائع کرانا
ظاہر ہے کسی تخلیق کار کی بڑی مجبوری ہوتی ہے، ورنہ یہ الگ موضوع بحث ہے کہ
لوگ آج شہرت کے واسطے دوسروں کی تحریروں کو ہی پھیر بدل کر یا کبھی کبھی
اپنے نام سے منسوب کر شائع کرانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے۔ مگر منٹو کی
بات الگ تھی وہ کبھی شہرت کے حامی نہیں رہے، یہ الگ بات ہے کہ افسانوی صنف
ان کی تخلیقوں سے شہرت پاگئیں۔
منٹو کی بڑائی ہی کوئی میرا مقصد نہیں۔ سو منٹو کی اچھائی ہی نہیں، کہ منٹو
بھی ایک انسان ہی تھا کوئی فرشتہ نہیں۔ لہٰذا میں نے منٹو کی Psychyکو بھی
سمجھنے کی سعی کی ہے۔ Psychologyکا ایک term(حصہ ) ہےNarcissim۔ جب کوئی
انسان میں انا یعنی (Ego)کا مادہ عروج پر پہنچ جاتا ہے تو وہ انانیت کا
شکار ہوجاتا ہے۔ اور یہ آگے چل کر Narcissisticکی شکل لے لیتا ہے، جس کا
شکار آدمی اپنی بات ہر جگہ منوانا چاہتا ہے۔ ہر کوئی اسے کمتر نظر آتا ہے،
وہ کسی کی نہیں سنتا اور چیختا اور شور مچاتا ہے۔ کم وبیش منٹو میں بھی یہ
خصلت پائی جاتی ہے۔ جس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اور جس کا ہرجانہ
خود منٹو نے اپنی زندگی میں خود بھرا، جیل جانا، آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت
چھوڑنا،فلمی دنیا کو خیرباد کہنا، اپنے افسانے کو اوپندر ناتھ اشکؔ (جو
AIRدہلی میں رفیق کار تھے اور مٹو میرا دشمن کے خالق بھی ہیں) کے ذریعہ
تنقید کا نشانہ بنانے پر، اشکؔ پر برہم ہوجانا اور دیگر کئی حادثات و
نظریات اس ضمن کی مثالیں ہیں۔ اسی سلسلے کی کڑی میں منٹو کا پاکستان جاکر
بھی خوش نہ رہنا دراصل اس ضمن میں آتا ہے۔ واضح ہو کہ ہم صرف یہ مان کر
اپنا پلّہ جھاڑ لیتے ہیں کہ گویا منٹو تنگی اور قرض سے دبے رہنے کے باعث
زندگی کے برے دن بتائے مگر دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کثرت شراب نوشی اور ان
کی بدمزاجی، چڑچڑاپن کے باعث کوئی ان کو پوچھتا نہ تھا اور منٹو کو کوئی نہ
گھاس ڈالے یہ منٹو کے لیے دوہرے صدمے کا باعث بنا اور وہ گھلتا گیا۔
چونکہ Narcissimکا شکار آدمی اپنی بے عزتی، بے ادبی، بے احترامی اور خا ص
کر بربادی نہیں دیکھ پاتا، مگر ساتھ ساتھ وہ اتنا مجبور و لاچار ہوتا ہے جو
اس کا ازالہ بھی نہیں کرپاتا۔ ظاہر ہے ایسی شکل میں وہ اعصابی مرض کا شکار
ہوکر وہ کسی صورت اپنی جان دے دیتا ہے۔ منٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا وہ شرابی
کی صورت میں اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے۔ مگر سائیکلوجی کی ہی ایک شاخ ہمیں یہ
بتاتی ہے کہ ایسے لوگ بہت Creativeاور Aggresiveبھی ہوتے ہیں۔ منٹو کے ساتھ
بھی یہی معاملہ تھا۔ گو وہ زبردست تخلیق کردہ ادیب ثابت ہوئے کم زندگی پائی
اور ادبی سفر بہت ہی مختصر رہا مگر کمال ہے کہ انھوں نے زبردست فن پارے
تخلیق کیے اور اردو افسانے کو ایک نئی جہت عطا کی، گویا وہ بھر پور اور
مکمل ادبی زندگی جی گئے۔
مگر وہیں منٹو ماہر نفسیات کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے
کہ قارئین نے ان کی تحریروں میں حقیقت اور بے باکی کے عنصر کو عریانیت کا
نام دے کر منٹو اور ان کی تخلیقات، دونوں کو متنازعہ بنادیا، جس کے نتیجے
میں متعدد بار منٹو جیل بھی گئے۔ عدالتوں کے چکر لگائے مگر اس کے باوجود
منٹو نے خوب کھل کر اور خوب جم کر لکھا۔ منٹو کو محض بگڑے ہوئے سانچوں اور
بگاڑے ہوئے افسانوں کا عکاس مانا گیا۔ جو انھیں پہلے شہرت ملی، پھر اذیت
ملی اور پھر لذت ملی، جو منٹو اسی کی نذرہوکر رہ گیا۔ مگر شاید اردو والوں
نے منٹو کے ساتھ امتیاز برتا جو منٹو کا نام آتے ہی ہمارے ذہن و دماغ میں
غلط فہمیاں اور غلط تصورات سے قائم ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل
برعکس ہے۔ انھیں سیاہ قلم، بیہودہ، ننگ ادب کا معمار تک کہا گیا۔ حالانکہ
منٹو اپنے دفاع میں صرف یہ کہتا ہے:
’’زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں، تو
میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب
یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد
کی برائیاں ہیں، میری تحریر میں کوئی نقص نہیں، جس نقص کو میرے نام سے
منسوب کیا جاتا ہے، دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔‘‘ (ادب جدید، دستاویز،
صفحہ ۵۳)
منٹو کو اردو دنیا سے غیرجانبدارانہ طور پرغالباً پہلی بار ممتاز شیریں نے
متعارف کرایا۔ ان کی مشہور کتاب ’’منٹو: نوری نہ ناری‘‘ ہے حقیقت یہ ہے
منٹو کو سمجھنے کے لیے یہ پہلا اہم قدم ہے۔ منٹو کے انتقال کے بعد ایک
انٹرویو میں ممتاز شیریں نے کہا تھا:
’’عملی اور تخلیقی تنقید کے سب سے اچھے نمونے منٹو پر میرے متفرق مضامین
ہیں۔ ان میں، میں نے اپنے مخصوص تاثراتی اندازِ نقد سے ہٹ کر نفسیاتی زاویہ
نظر سے جائزے لیے ہیں۔‘‘
ہمارا مقصد منٹو کی تعریفوں کے پل باندھنا ہرگز نہیں ہے۔ فروری ۲۰۱۳ء کے
ایوانِ اردو، دہلی کے شمارے میں ڈاکٹر ابوبکر عباد کا مضمون ’’منٹو کی ایک
اور قرأت‘‘ (صفحہ نمبر: ۳۷) پر نظر ڈالیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ایسا نہیں ہے کہ منٹو نے خراب افسانے نہیں لکھے۔ کئی ایک لکھے ہیں۔ بعض
میں تو زبان کا نقص اور ایک آدھ میں تکنیک کی خامی بھی موجود ہے۔ مثلاً
’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں بشن سنگھ کا مسلسل پندرہ سال تک کھڑے رہنا وغیرہ۔
لیکن اس کے باوجود منٹو کے خراب افسانوں میں بھی قاری کو دو ایک فقرے، ایک
آدھ جملے، کوئی کردار، سچویشن، خیال یا احساس ایسا ضرور مل جائے گا جو فکر
کو روشن اور دل کو مسرور کردیتا ہے۔ یوں مسرت کے خواہاں اور بصیرت کے
متلاشیوں کے لیے منٹو کے بُرے افسانے پڑھنا بھی بوریت کا باعث یا گھاٹے کا
سودا نہیں ہوتا۔‘‘
اسی طرح ایوانِ اردو دسمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں پروفیسر یوسف مسرت کا مضمون
’’کھول دو: منٹو کا ایک ناکام افسانہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ جس کے ردِ
عمل کے طور پر ڈاکٹر ندیم احمدکا فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں مضمون ’’کھول
دو: ایک مکمل افسانہ‘‘ شائع ہوا ہے، جس میں ڈاکٹر احمد نے مختصر مضمون کے
ذریعے گویا اردو ادب کے خاص کر منٹو کے متلاشی اور دیگر قارئین کو حقیقت سے
آگاہ کرایا ہے۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے، اس طرح منٹویات کے حصے میں ایک نئے
باب کا اضافہ ہوگا اور یوں نئی نئی آراء اور نقطۂ نظر بھی سامنے آئیں گے جو
منٹو کی دریافت میں بڑی اہمیت کا حامل ہوں گی۔
٭٭٭ |