ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا

امام ابن شہاب زہری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم پرایمان لائیں۔(المستدرک للحاکم،بیہقی) اورآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کوحضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی پہلی بیوی ہونے کی بھی سعادت حاصل ہے ۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی ولادت باسعادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ہوئی۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاقریش خاندان کی بہت باوقاراورممتازخاتون تھیں ۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی کنیت "ام ہند" ہے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاحسن سیرت ،اعلیٰ اخلاق،بلندکردار،عزت وعصمت کی مالک اورشرافت ومرتبہ کی وجہ سے مکۃ المکرمہ اوراردگردکے علاقوں میں ’’طاہرہ‘‘کے خوبصورت اورپاکیزہ لقب سے مشہورہوئیں ۔اورایسی تمام برائیوں سے پاک تھیں جوعرب میں پھیلی ہوئی تھیں ۔سیرت تیمی میں ہے کہ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکالقب’’سیدہ نساء قریش‘‘تھا۔(شرح سیرت ابن ہشام)آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کانسب حضوراکرم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے نسب شریف سے’’ قصی ‘‘سے مل جاتاہے ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکانسب یہ ہے ۔ حضرت خدیجہ بنت خویلدبن اسدبن عبدالعزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر، والدہ ماجدہ کانام فاطمہ بنت زائدہ بن الاصم بن رواحہ بن حجربن عبدبن معیص بن عامربن لؤی بن غالب بن فہر(بحوالہ شرح سیرت ابن ہشام،طبقات ابن سعد)آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاقریش مکہ کی عورتوں میں سب سے زیادہ مالداراورباثروت خاتون تھیں ۔والداورشوہرکے انتقال کے بعدوہ مال جووالداور شوہر چھوڑگئے تھے اس کی مالک ہونے کے باعث آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے اس مال کونہایت سلیقے سے کام میں لگایا۔مکہ معظمہ میں حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی سچائی کاچرچا عام تھا۔ہرشخص آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوصادق اورامین کے لقب سے یادکرتاتھا۔سیدہ خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کوجب آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے صادق اورامین ہونے کاپتاچلاتوآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں پیغام بھیجاکہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میرامال ملک شام لے جائیں اوروہاں جاکرتجارت کریں آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے یہ بات منظور کرلی اورمال تجارت کی غرض سے ملک شام لے گئے اس دفعہ تجارت میں بہت زیادہ منافع ہوا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکاغلام’’ میسرہ‘‘ بھی آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ہمراہ تھاوہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے تجارتی معاملات اورصداقت ودیانت سے بہت متاثرہوا۔میسرہ نے واپسی پرسیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی بہت تعریف کی۔

غریب پروری اورسخاوت آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی امتیازی خصوصیات تھیں ۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی صداقت ،شرافت وایمانتداری سے مرعوب ہوکراپنی سہیلی نفیسہ کوبھیج کرنکاح کی خواہش کی جوکہ قبول کرلی گئی۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب نے نکاح پڑھایا۔اورپانچ سودرہم مہرمقررہوا شادی کے وقت آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی عمرمبارک25سال اورسیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی عمرمبارک40سال تھی ۔ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے دوبیٹے اورچاربیٹیاں پیداہوئیں ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے بیٹے بچپن ہی میں وفات پاگئے بیٹیوں کے نام یہ ہیں۔سیدہ زینب ،سیدہ رقیہ ،سیدہ ام کلثوم،سیدہ فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیہا
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا مہرووفاکاپیکرعظیم تھیں ۔اپنی رفاقت میں ایک گھڑی بھی سرکارعلیہ الصلوٰۃ والسّلام کوناراض نہ ہونے دیا۔سب سے پہلے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاآقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی نبوت پرایمان لائیں ۔ابتدائے اسلام میں جبکہ ہرطرف مخالفین نے مشکلات کے پہاڑے کھڑے کیے ہوئے تھے نہ صرف خودایمان وعمل صالح پرثابت قدم رہیں بلکہ نہایت جانثاری سے حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی دلجوئی اورتسکین قلب کاسامان کرتی رہیں ۔(زُرقانی ،الاستعیاب)آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اسلام کی دعوت وتبلیغ میں بے حدمددگارثابت ہوئیں۔ اوراپنی تمام دولت سرکارمدینہ علیہ الصلوٰۃ والسّلام پرقربان کردی ۔سیدناجبرائیل امین علیہ السلام آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے نام رب العالمین کاسلام وبشارتیں لے کرآیاکرتے تھے ۔(مسلم شریف،مسنداحمدبن حنبل،سیرت ابن ہشام) حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی شادی کے پندرہ سال بعدجب حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم پرپہلی وحی نازل ہوئی توآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم بہت گھبرائے اورگھر تشریف لے آئے ۔ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوبہت تسلی دی اورآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کواپنے چچازادبھائی ’’ورقہ بن نوفل‘‘ کے پاس لے گئیں انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوتسلی دی ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کوحضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے بے حدمحبت تھی ۔گھرمیں باندیاں اورغلام ہونے کے باوجودوہ خوداپنے ہاتھوں سے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کاکام کرناباعث فخرسمجھتی تھیں اورہربات میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی مرضی کومقدم سمجھتی تھیں ۔

کفارمکہ نے جب اسلام کازوردن بدن بڑھتادیکھااوراپناہرحربہ اورتدبیرناکام دیکھی توسن 7نبوی میں قریش نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اوران کے خاندان کے خلاف ایک دستاویزتیارکرکے خانہ کعبہ میں لٹکادی قریش کاکہناتھاکہ جب تک بنی ہاشم اوربنی مطلب کے لوگ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کو (معاذاﷲ)قتل کرنے کے لئے ہمارے حوالے نہیں کردیتے ان سے ہرطرح کامعاشرتی تعلق اوربول چال بندرکھی جائے ۔اس بائیکاٹ کی وجہ سے بنوہاشم خودایک گھاٹی میں منتقل ہوگئے ۔حضرت ابوطالب نے حضورصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اوراپنے خاندان کے ہمراہ گھاٹی میں پناہ لی ۔وہ گھاٹی ’’شُعب ابی طالب ‘‘کہلاتی ہے ۔ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہاامیری اورخوشحالی کے باوجودآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ گھاٹی میں رہیں تین سال اس تکلیف بھوک اورپیاس کاسامناکرتے ہوئے گزرگئے کبھی کبھی سیدہ خدیجہ الکبری کے اثرورسوخ کے سبب کھاناپہنچ جاتاآخرتین سال بعدگھاٹی’’ شُعب ابی طالب ‘‘سے رہائی ہوئی توآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم مع خاندان کے اپنے گھرآئے۔

سیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہا آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی سچی مشیرکارتھیں ۔نبوت ملنے سے پہلے اورنبوت کے ابتدائی دنوں میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم غارِحرامیں جاکرکئی کئی روزاﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے ۔یہ راستہ بڑاناہموارتھااس پرچلنابھی مشکل ہوتاتھا۔اس کے باوجودبھی سیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے لئے کھانا،ستو،کھجوریں اورپانی وغیرہ لے کرجاتیں اورغارمیں پہنچاتیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل امین علیہ السلام حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کی ۔یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !آپ کے پاس سیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہادسترخوان لارہی ہیں جس میں کھانا،پانی ہے جب وہ آئیں توان سے ان کے رب کاسلام کہیے اورمیری طرف سے بھی انہیں بشارت دیجئے کہ ان کے لئے جنت میں موتیوں کاایک ایساگھرہے جس میں نہ شوروغل ہوگااورنہ رنج ومشقت(متفق علیہ) امیرالمومنین سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا’’اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور(اسی طرح)اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت ’’خدیجہ‘‘ہیں۔ (متفق علیہ)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ میں حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پراتنارشک نہیں کرتی جتناسیدہ خدیجۃ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہاپر،حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں۔لیکن میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوان کا(کثرت سے)ذکرفرماتے ہوئے سنتی تھی ۔کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوحکم فرمایاکہ ’’خدیجہ‘‘کوموتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے اورجب آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے توآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ان کی سہیلیوں کواتناگوشت بھیجتے جوانہیں کفایت کرجاتا‘‘۔(متفق علیہ)

ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ مجھے حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ پراتنارشک نہیں آتاجتناسیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہاپر،حالانکہ میں نے انہیں دیکھانہیں ہے ۔لیکن آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اکثران کاذکرفرماتے رہتے تھے ا ورجب آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تواس کے اعضاء کوعلیحدہ علیحدہ کرکے انہیں سیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں میں بھیج دیتے تھے کبھی میں حضورصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے کہہ دیتی کہ گویاخدیجہ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے سوادنیامیں کوئی عورت ہی نہ تھی توآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم فرماتے ہاں وہ فاضلہ عاقلہ تھیں اوران سے میری اولادہوئی۔(بخاری)

آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے کتب احادیث کتب سیرت میں بہت سارے فضائل کاذکرہے ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی صحت شُعب ابی طالب میں بہت متاثرہوئی جب واپس گھرآئیں تو شدیدبیمارہوگئیں آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ان کے علاج خبرگیری اوردلجوئی میں کوئی کسرنہ چھوڑی ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پچیس سال آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی شریک حیات رہیں۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی موجودگی میں دوسری شادی نہیں فرمائی ۔یہاں تک کہ سیدہ خدیجۃ الکبری کاوصال ہوگیا۔(مسلم شریف)

25سال آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی رفاقت میں گزارکر بعثت کے دسویں سال 10رمضان المبارک کو۶۴سال ۶ماہ کی عمرمیں مکۃ المکرمہ میں وصال ہوااورمقبرہ حجون میں مدفون ہیں حجون مکہ معظمہ کے بلندمقام پرہے یہاں پراہل مکہ کاقبرستان ہے اسے’’ جنت المعلٰی‘‘ بھی کہتے ہیں ۔حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم خودآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی قبرمیں داخل ہوئے اوردعائے خیرفرماکرسپردخاک کیا۔چونکہ نمازجنازہ اس وقت مشروع نہ ہوئی تھی۔ اس سانحہ پرآقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم بہت زیادہ ملول ومخزون ہوئے ۔(مدارج النبوۃ،فتاوٰی رضویہ ) آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اپنے چچاابوطالب کی وفات کے بعدرفیقہ حیات سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات کی وجہ سے غمگین رہنے لگے اورحضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اس سال کوعام الحزن "غم کاسال"قراردیا ۔۔۔۔۔۔۔اﷲ پاک ہم کوصراطِ مستقیم کے راستے پرچلنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔اﷲ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین
 

Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 295766 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.