’خوش قسمتی سے سی آر پی ایف موجود تھی ۔ اگر وہ نہ ہوتی
تو میرا بچ کر آنا مشکل تھا‘ْ۔ پریس کانفرنس کے اندر بی جے پی کے صدر کا
یہ بیان اپنے اندر معنیٰ اور مفہوم کا ایک سمندر لیے ہوئے ہے۔ کیا مرکز میں
برسرِ اقتدار پارٹی کا صدر اتنا لاچار ہوسکتا ہے کہ اسے سی آر پی ایف کی
مدد سے جان بچا کر بھاگنا پڑے؟ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ایسے وزیراعظم کا
دایاں ہاتھ جس نے پاکستان پر ائیر اسٹرائیک کروا دیا اور جس سے ساری دنیا
کانپتی ہے پریس کانفرنس میں اپنی جان کی دہائی دے رہا ہو؟ مغربی بنگال سے
متصل جھارکھنڈ آسام اور بہار میں حکومت کرنے والی بی جے پی کے سربراہ کو
یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس طرح رورو کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹے ؟ کیا امیت
شاہ کے اس طرح ٹسوے بہانے سے مودی جی کی عزت خاک میں نہیں مل گئی؟ بی جے پی
کے سربراہ اگر اس ناٹک بازی کے بعد مغربی بنگال کی ساری نشستیں جیت جائیں
تب بھی اپنی پیشانی سے اس ذلت رسوائی کا کلنک نہیں مٹے گا ۔
کولکاتہ میں روڈ شو میں ہونے والے تشدد پر جہاں امیت شاہ نے ترنمول کانگریس
پر حملے کا الزام لگایا ہے وہیں ممتا نے بھی بی جے پی کو باہر سے غنڈے بلا
کر فساد بھڑکانے کا ملزم ٹھہرایا ہے ۔ ان الزامات پر غیر جانبداری کے ساتھ
غور کیا جائے تو ممتا کا بیان حقیقت سے قریب نظر آتا ہے کیونکہ آر ایس
ایس والے بڑی شان سے یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہمارے کئی لاکھ رضاکار بی
جے پی کو فتح دلانے کی مہم میں جٹے ہوئے ہیں۔ ابتداء میں تو یہ لوگ بکھرے
ہوئے تھے لیکن اب چونکہ ۶ راونڈ مکمل ہوچکے ہیں اس لیے بہت ممکن ہے کہ ان
کی بڑی تعداد کولکاتہ میں جمع ہوگئی ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقامی
زبان سے ناواقفیت کی بنا ء پر یہ لوگ جنوبی ہند میں پرچار تو دور نعرے بھی
نہیں لگا سکتے ۔ کولکاتہ شہر میں چونکہ ہندی بولنے والوں کی کثیر تعداد
مقیم ہے اس لیے ان کا وہاں موجود ہونا توقع کے مطابق ہے۔
سنگھ پریوار کے کارکنان کا عدم برداشت جگ ظاہر ہے ۔ ان کو بہت جلد غصہ آتا
ہے اور جب یہ بھڑکتے ہیں تو عوام سے بھڑ جاتے ہیں ۔ ودیا ساگر کالج میں جب
طلباء نے سیاہ پرچم کے ساتھ شاہ واپس جاو کے نعرے لگائے تو یقیناً ان لوگوں
کو غصہ آیا ہوگا اور انہوں نے ہاتھ چھوڑ دیا ہوگا حالانکہ ابھی حال میں
پرینکا کے روڈ شو میں لوگ مودی زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اس پر انہیں
غصہ نہیں آیا۔ وہ رک اکر ان سے بھی ملیں اور آگے بڑھ گئیں اس لیے کہ
انہیں سنگھ کی شاکھا میں جانے کی سعادت نہیں ملی تھی ورنہ وہ بھی وی ایچ پی
والوں کی طرح دنگا فساد شروع کردیتیں اور اپنے حواریوں سے ان کی پٹائی
کرواد یتیں۔ تربیت دی جاتی ہے ۔ اس طرح کے صبرو ضبط کی توقع سنگھیوں سےکیسے
کی جا ئے؟
بدقسمتی سے جلوس میں شریک مودی بھکت بھول گئے کہ یہ گجرات نہیں مغربی بنگال
ہے اور وہاں فی الحال مودی جی وزیر اعلیٰ نہیں ہیں ۔ مودی جی کی پولس نے جس
طرح زعفرانی بدمعاشوں کی حفاظت کی تھی ویسا تحفظ ممتا بنرجی کے راج میں
ممکن نہیں ہے۔ یہ ان کا پہلا تجربہ تھا جب پولس ان کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے
تشدد کا شکار ہونے والوں کے ساتھ تھی ۔ بس پھر کیا تھا جیسے ہی پولس نے ان
کی دھنائی شروع کی کاغذی شیروں کی بھیڑ میں بھگدڑ مچ گئی اور ساری ہیکڑی
نکل گئی ۔ فرقہ وارانہ فسادات کے وقت مسلمان بھی یہی مطالبہ کرتے رہے ہیں
کہ ایک بار پولس کو ہٹا کر دیکھو ہم ان کو ٹھیک کردیں گے لیکن مشکل اس لیے
ہوتی ہے کہ ان کی بیک وقت دو طاقتوں سے مقابلہ آرائی ہوجاتی ہے۔
عام طور پر فرقہ وارانہ فسادات کے وقت پولس پہلے مسلم نوجوانوں کو گرفتار
کرکے لے جاتی ہے اور پھر کمزوروں ، بزرگوں اور خواتین پر یہ درندے پل پڑتے
ہیں۔ مزاحمت کی صورت میں پولس انہیں پر گولیاں برساتی ہے مظلومین کا خون
بہا تی ہے۔ یہ نہ ہوتا تو گجرات کا قتل عام نہ ہوتا ۔ مودی جی بھی اگر
ممتابنرجی کی طرح راج دھرم نبھاتے اور شاہ جی ان کا ساتھ دیتے تو زعفرانی
فسادی اسی طرح بھاگ کھڑے ہوتے جیسے کولکاتہ میں ہوا لیکن وہاں تو حالات
مختلف تھے۔ شاہ جی جس طرح کا الزام آج ممتا بنرجی پر لگا رہے ہیں اسی طرح
مودی جی کو بھی ایک زمانے میں کٹھہرے کے اندر کھڑا کیا گیا تھا۔ اس وقت
وزیراعلیٰ مودی کا کہنا تھا کہ عوام کو غصہ آگیا ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ایسی
بات ہے تو غصہ اگربنگال کے لوگوں کو آ جائے تو ممتا کیا کرسکتی ہیں؟ سچ تو
یہ ہے کہ عوام کو غصہ نہیں آتا بلکہ سیاستداں اسے اپنے مفاد کی خاطر
بھڑکاتے ہیں ۔ شاہ جی نےبنگال میں گجرات کا تجربہ دوہرانے کی کوشش تو کی
مگر ناکام رہے۔
شاہ جی نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ بنگال کی پولس ممتا کی آلہ ٔ کار بنی
ہوئی ہے لیکن یہ کون سی نئی بات ہے؟ وہ خود وزیرداخلہ کی حیثیت سے گجرات
میں اپنی پولس کے ذریعہ سہراب الدین ، پرجاپتی اور عشرت جہاں جیسے نہ جانے
کتنے بے قصور لوگوں کا فرضی انکاونٹر کر واچکے ہیں ۔ممتا تو دراصل مودی کا
منہ توڑ جواب ہے۔ اپنی خوش قسمتی کی دہائی دینے والے شاہ جی بھول گئے کہ
اگر ہرین پنڈیا کو بھی مقامی پولس کے بجائے مرکزی حکومت کا تحفظ فراہم ہوتا
تو وہ اپنی جان سے ہاتھ نہ گنواتے ۔ محمد اخلاق کے ساتھ بنگال کی پولس ہوتی
گئو بھکت ان کا بال بیکا نہیں کرپاتے بلکہ سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑے ہوتے
اور بدقسمتی سے جسٹس لویا کے ساتھ کوئی بھی فورس موجود ہوتی تو انہیں اپنی
جان سے ہاتھ نہیں دھونا پڑتا ۔ مہاراشٹر میں اس وقت دیویندر فڈنویس کے
بجائے ممتا بنرجی کی حکومت ہوتی تو ان کے قاتلوں کو بچایا نہیں جاتا۔ شاہ
جی نے پولس کے ساتھ ساتھ انتخابی کمیشن پر بھی جانبداری کا الزام لگا دیا
جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کاشعبہ بنا ہوا ہے۔
کولکاتہ کے اند ر معروف سماجی کارکن ودیا ساگر کے مجسمہ کو بلوائیوں توڑدیا
۔ ودیا ساگر بھی گاندھی جی کی مانند بنگال کے عظیم فلسفی، ماہر تعلیم اور
قوم پرستی کی علامت ہیں ۔ خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں انہوں نے بڑا کام
کیا ہے۔ ودیا ساگر کالج کے پرنسپل نے گواہی دی ہے کہ بی جے پی کے مظاہرین
نے اس مجسمہ کو توڑا ہے بی جے پی والے اس کا انکار کرتے ہیں۔ کئی سال قبل
اسی طرح کا سانحہ ممبئی میں روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں ایک جلوس کے بعد
بھی ہوا ۔ اس میں گاندھی جی کے مجسمہ کی بے حرمتی ہوئی ۔ احتجاجی جلوس کے
منتظمین کا دعویٰ تھا کہ وہ لوگ جلوس کا حصہ نہیں تھے۔ وہ باہر سے آئے تھے
لیکن کسی اس کی تفتیش نہیں کی اور آج بھی مسلمان جب آزاد میدان میں کسی
احتجاج کے لیے جاتے ہیں تو پولس اس کی یاد دلا کر حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ کیا
اب کولکاتہ میں بھی بی جے پی کو ہر جلسہ سے قبل ودیا ساگر والے واقعہ کی
یاد دلا کر روکا جائے گا؟ اس میں شک نہیں کہ پہلی بار بی جے پی کو بنگال
میں دندان شکن جواب ملا ہے اور اس سے وہ لہو لہان ہے۔ |