ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا
ہے جس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کے حالات پھر ایک مرتبہ خراب ہوتے دکھائی دے
رہے ہیں ۔ ایرانی صدر حسن روحانی ملک کے حالات کو سخت دباؤ کا شکار بتاتے
ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی
معیشت بُری طرح متاثر ہورہی ہے ان کا کہنا ہیکہ ایران اور عراق کی جنگ
1980-88ئکے دوران بھی ایران کی معاشی حالات اتنی ابتر نہیں تھی جتنی ان
دنوں ہوچکی ہے۔ حسن روحانی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کے معاشی حالات
کا مقابلہ کرنے کے لئے متحدہ رہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال
اکٹوبر میں یکطرفہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام پر تاریخ ساز بین
الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی
انہوں نے ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں ۔امریکہ اور
ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے 2015میں اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل
کے پانچ رکن ممالک اور جرمنی کے ساتھ کئے جانے والے جوہری معاہدے کے برقرار
رہنے کے بارے میں بھی خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران کے
خلاف یکطرفہ فیصلہ کے بعد ایران نے اشارہ دیا تھا کہ اگر معاہدے میں شامل
دیگر فریق بھی امریکہ کے ساتھ ملے تو وہ اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع
کردے گا۔ امریکہ نے گذشتہ ماہ ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم
قرار دیا تھا ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہیکہ وہ ایران
کو نئے معاہدے کے لئے مجبور کرے جس میں نہ صرف ملک کا جوہری پروگرام بلکہ
بلیسٹک میزائل پروگرام بھی شامل ہو کیونکہ امریکی حکام کے مطابق اس سے مشرق
وسطیٰ کو خطرہ ہے۔ایران کے خلاف عائد پابندیوں کے بعد ایران نے بھی گذشتہ
ہفتہ جوہری معاہدے کے تحت دو وعدوں پر عمل کو معطل کرنے کا اعلان کیا اور
یورینئم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی بھی دی ایران کا کہنا ہیکہ
اگر اسے پابندیوں کے اثرات سے بچانے کیلئے 60دن کے اندر اندر کچھ نہ کیا
گیا تو ان عالمی ممالک سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کرسکتا ہے اور یورینیم
کو افزودہ کرنا شروع کردے گا، ایران کا کہنا ہے کہ اگر اس معاہدے پر عمل
درآمد نہ ہوا تو وہ بھی آزاد ہوگا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر عمل کرے۔
ایران کی جانب سے دی گئی مدت پر یوروپی طاقتوں کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے پر
قائم ہیں لیکن اس کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے ایران کی جانب سے دی گئی
دھمکیوں یوروپی ممالک نے مسترد کردیا۔ امریکہ نے گذشتہ دنوں مشرقِ وسطیٰ
میں اپنا ایک جنگی بحری بیڑا تعینات کیا ہے اس سلسلہ میں امریکی مشیر قومی
سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایران کی جانب سے متعدد دھمکیوں
اور اکسانے والے بیانات کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔ جان بولٹن نے اپنے ایک
بیان میں کہا کہ امریکہ اپنا ابراہم لنکن نامی جنگی بحری بیڑا اور بمبار
ٹاسک فورس امریکی سینٹرل کمانڈ کے علاقے میں تعینات کررہا ہے تاکہ ایرانی
حکومت کو واضح اور بے مغالط پیغام بھیجا جاسکتے کہ ہمارے یا ہمارے اتحادیوں
کے مفادات پر کسی بھی قسم کے حملے کا سخت قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ اس
سے قبل بھی امریکی جنگی بیڑے خلیج میں تعینات کئے جاچکے ہیں لیکن یہ پہلی
مرتبہ ہے کہ ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر جنگی بحری بیڑہ
تعینات کیا گیا ہے۔ ان تمام حالات کے پیشِ نظر پھر ایک مرتبہ مشرقِ وسطیٰ
کے حالات معاشی طور پر شدید متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ ایک طرف امریکہ ایران
پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے ایران کی معیشت کو بُری طرح متاثر کررہا ہے
تو دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ کے اُن ممالک جو امریکہ کے اتحادی ہیں ان سے
امریکہ کروڑہا ڈالرس حاصل کرسکتا ہے ۔ ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی
دوبارہ شروع کرنے کرنے کی دھمکی کے بعد یہی ڈر بٹھاکر امریکہ اپنے اتحادیوں
ممالک سے پھر ایک مرتبہ کروڑہا ڈالرس حاصل کرسکتاہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ عالمِ
اسلام ایران اور امریکہ کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کارروائی کو کس نتیجہ
سے دیکھتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہیکہ گذشتہ دنوں یعنی 12؍ مئی
اتوار کے روز بحرۂ عرب میں خلیج عمان کے علاقے میں چار کشتیوں کو مبینہ طور
پر سبوتاژکرنے کی کوشش کی گئی ۔ سعودی عرب کے وزیر توانائی خالد الفلیح کا
کہنا ہیکہ متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں سبوتاژ کئے جانے والے آئل ٹینکرز
میں سے دو کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور ان دونوں بحری جہازوں کو نقصان بھی
پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حملے کا نشانہ بننے والے تیل بردار بحری
جہازوں میں سے ایک سعودی عرب آرہا تھا جہاں اس پر امریکہ بھیجا جانے والا
سعودی خام تیل لادا جانا تھا۔ خالد الفلیح نے کہا کہ خوش قسمتی سے حملے میں
کوئی جانی نقصان یا تیل رسائی نہیں ہوئی تاہم اس سے دونوں بحری جہازوں کے
ڈھانچے کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ اس سبوتاژ کارروائی کے خلاف ایران کی
وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ واقعات پریشان کن ہیں اور ان کی جامع تحقیقات
ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ جس علاقے میں سعودی آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا
ہے وہ تیل اور قدرتی گیس کی ترسیل کا اہم بحری راستہ ہے۔ متحدہ عرب امارات،
بحران مصر وغیرہ نے سبوتاژ کی کوششوں کو خطرناک پیشرفت قرار دیتے ہوئے بین
الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ مستقبل میں اس طرح کی کوششوں کو روکنے
کیلئے اہم اقدامات کریں۔ بحرۂ عرب ، خلیج عمان کے علاقے میں جس طرح کی
کارروائی کی گئی ہے اس کے ذمہ دار کون ہیں اور انہیں پکڑا بھی جاتا ہے یا
نہیں اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اس سے مشرقِ وسطیٰ کے
حالات مزید خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس سبوتاژ
کارروائی کے پیشِ نظر امریکہ اپنے جنگی بحری بیڑہ کو اس بحری راستہ کی
نگرانی کیلئے تعینات کرسکتا ہے اگر امریکہ ایسا کرتا ہے تو اس سے ایران کسی
صورت متفق نہیں ہوگا کیونکہ ایران اورامریکہ کے درمیان پہلے ہی سے اقتصادی
پابندیوں کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوچکاہے اور ہوسکتا ہیکہ سبوتاژ کی اس
کوشش کا امریکہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے بحری بیڑہ کو اس راستہ
کی نگرانی کیلئے تعینات کریں ۔ایران اور امریکہ کے درمیان حالات جس طرح
کشیدہ ہوتے جارہے ہیں اس سے مشرقِ وسطیٰ کی معیشت بھی بُری طرح متاثر
ہوسکتی ہے اور عوام بھی ڈرو خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے لگیں گے۔
افغانستان کی نامور صحافی مینا مانگل کا قتل
افغانستان میں دہشت گردانہ حملے ، بم دھماکے اور فائرنگ کوئی نئی بات نہیں
۔ انسان کی زندگی ایک معمولی کیڑے مکوڑے کی طرح ہوکر رہ گئی ہے ۔ انسانی
اقدار افغان طالبان اور دہشت گرد تنظیموں کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ملک
میں عوام گھروں سے نکلتے ہیں تو واپسی کی امید بہت ہی کم رکھتی ہونگے انہیں
اس وقت خوشی ہوتی ہونگی جب وہ واپس گھر پہنچ جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں
افغانستان کی پارلیمان میں ثقافتی امور سے منسلک مشیر مینا مانگل کو
نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کردیامینا مانگل اس سے قبل صحافت کے پیشے
سے وابستہ رہیں۔مینا مانگل کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ہفتہ کے روز
دارالحکومت کابل میں اپنے کام پر جارہی تھیں ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق
بتایاجاتا ہے کہ مینا مانگل کی والدہ نے مشتبہ قاتلوں کا نام بھی لیا ہے
اور بتایا ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل بھی مینا مانگل کو اغوا کیا تھا
انہوں افغانستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے چند افراد کانام لیا ہے ان کی
رشوت لینے کی وجہ سے اغان کرنے والے بچ نکلے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ
ایک خاتون کا اغوان کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ان افراد کو
کھلے عام چھوڑدیا گیا جس کی وجہ سے انکے حوصلے اور بلند ہوئے اور آخر کار
وہ ایک صحافی و عوام کی خدمت گار کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ افغان صدر اشرف
غنی کو چاہیے کہ وہ ثقافتی امور سے منسلک مشیر و صحافی مینا مانگل کے
قاتلوں کو گرفتار کراکے سخت سے سخت سزا دیں اور اٹارنی جنرل آفس کے ان
عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کرکے کارروائی کریں جس کے خلاف مینا مانگل کی
والدہ نے بیان دیا ۔
عمان اور عراق کے درمیان تین دہائیوں بعد سفارتی تعلقات بحال
تین دہائیوں کے بعد خلیجی ریاست عمان نے بغداد میں عراق کے ساتھ سفارتی
تعلقات بحال کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا ہے۔اومان نے عراق
سے سفارتی تعلقات اس وقت منقطع کردیئے تھے جب صدر عراق صدام حسین کی حکومت
نے کویت پر چڑھائی کردی تھی۔عمان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں
کہا گیا ہیکہ مسقط اور بغداد کے درمیان گہرے تاریخی اور برادرانہ تعلقات
قائم رہے ہیں۔ مسقط نے بغدادمیں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کافیصلہ کیا
ہے تاکہ عراق میں سفارتی مشن دوبارہ شروع کیاجاسکے۔بیان میں مزید کہا گیا
ہیکہ بغداد میں عمان کا سفارت خانہ دوبارہ کھلنے سے دونوں ممالک کے درمیان
تعلقات اور دونوں قوموں کے درمیان روابط کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔گذشتہ
دنوں عراق کے وزیرخارجہ محمد علی الحکیم کو ان کے عمانی ہم منصب یوسف بن
علوی کاایک مکتوب موصول ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سلطنت عمان بغداد
میں اپنا سفارتی مشن بحال کرنے کیلئے تیار ہے۔ عراقی حکومت نے عمان کی جانب
سے تعلقات کی بحالی کو ایک مثبت پیشر رفت قرار دیا ہے۔
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات معتمرین کے لئے نقصاندہ
سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے
جانے کے بعد سے عمرہ و حج کے لئے قطر سے جانے والے عازمین کیلئے دشواریاں
بڑھتی جارہی ہیں۔ کئی معتمرین اور عازمین حج سے محروم ہورہے ہیں ۔ دونوں
ممالک کی اپنی اپنی پالیسی کے مطابق عازمین حج و عمرہ کی روانگی رکاوٹوں کا
باعث بن رہی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں سعودی عرب نے رمضان
المبارک کے دوران قطری معتمرین کی سہولت کیلئے الیکڑانک پورٹل کا اجرا کیا
ہے لیکن دوحہ نے بائیکاٹ جاری رکھتے ہوئے اپنے شہریوں کو بیت اﷲ شریف کی
زیارت سے منع کرتے ہوئے سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ مملکت کی جانب
سے قطری معتمرین کے سفر حجاز کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہے ۔ذرائع
ابلاغ کے مطابق وزارت حج اور عمرہ سعودی عرب نے ایک بیان میں واضح کیا کہ
دنیا بھر سے حج اور عمرہ کی غرض سے مملکت آنے والے اﷲ کے مہمانوں کی خدمت
کیلئے سہولیات کی فراہمی کے مسلمہ اصول کے پیش نظر سعودی عرب نے عمرہ کے
خواہش مند قطری بھائیوں کے لئے اَن لائن پورٹل کا اجرا کیا ہے جس میں وہ
اپنے کوائف درج کروا کر جدہ یا مدینہ منورہ کے ہوائی اڈوں کے ذریعے مناسک
عمرہ کی ادائیگی کے لئے مملکت کا سفر اختیار کر سکتے ہیں۔ قطری حاجیوں کو
مملکت لانے کے لئے سعودی حکومت نے اپنے جہاز بھجوانے کی پیش کش کے علاوہ
کویت کی فضائی کمپنی کو بھی قطر سے معتمرین کو مملکت لانے اور لیجانے کی
خصوصی اجازت دی تھی۔سعودی عرب کے واضح اعلان اور پیشکش کے باجود قطر میں
انسانی حقوق کی قومی کمیٹی نے سعودی حکام کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے پر
شدید دکھ اور افسوس کا اظہار کیا کیونکہ بقول کمیٹی ایسے اقدامات سے قطری
شہریوں اور وہاں مقیم غیر ملکی تارکین وطن کو مسلسل تیسرے برس اپنے دینی
شعائر اور مناسک کی ادائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔یہاں یہ بات واضح ہوتی
ہے کہ سعودی عرب قطری ایئر ویز کے ذریعہ قطری شہریوں کو سعودی عرب لانے کی
اجازت نہیں دے رہی ہے اور عمرہ کی کارروائی کیلئے بھی قطری وزارت خارجہ کے
ذریعہ آنے کے بجائے الیکٹرانک پورٹل کا اجرا قطری حکومت کے لئے توہین کی
حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ قطری حکومت اپنے معتمرین کو اس سے
استفادہ سے منع کررہی ہے اب دیکھنا ہیکہ حج کے ایام شروع ہونے سے قبل بھی
سعودی عرب قطری عازمین حج و عمرہ کو مملکت آنے کی اجازت کس طرح دیتی ہے اگر
قطری حکومت کو نظر انداز کرکے قطری عوام کو آنے کی سہولت دیتی ہے تو شاید
اس مرتبہ بھی قطری عازمین حج و عمرہ مناسک حج و عمرہ سے محروم رہ
جائینگے۔مناسب حج و عمرہ کے سلسلہ میں کم از کم سعودی عرب اور قطر کے
درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہیے اور دونوں ممالک اسلام کے اس اہم فریضہ کو
سیاسی شکل دینے سے گریز کریں۔
*** |