دعوت افطار ۔۔یا۔۔ دعوت انتشار

اگر حزب اختلاف پارلیمنٹ کے اندر ہی اپنی اولین ذمہ داری نہیں نبھا سکی تو کیسے یقین کر لیا جائے کہ یہ جماعتیں سڑکوں پرہمارے حقوق کی جنگ لڑ سکتی ہیں۔اگر انہی جماعتوں کے اقوال زریں پر ایمان لے آیا جائے جو سابق حکومت کے خلاف چلنے والی دھرنا تحریک کے دوران ادا کیے جاتے تھے تو عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ زرداری ہاﺅس میں اکٹھا ہونے والا حالیہ اجتماع دراصل ’میثاق جمہوریت ‘ نہیں بلکہ ’میثاق میراث ‘ کے لیے تھا جو دراصل دعوت افطار پرنہیں بلکہ دعوت انتشار پر مدعو تھا۔

ایک وقت تھا جب ملک میں واحد پاکستان پیپلزپارٹی تھی جو بائیں بازو کی ترقی پسند اور اینٹی اسٹیبلیشمنٹ سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی جبکہ باقی تمام دائیں بازو کی کنزویٹوجماعتیں تصور کی جاتی تھیں ۔پاکستان مسلم لیگ(ن) ، جماعت اسلامی ، جمعیت علماءاسلام ، عوامی نیشنل پارٹی ودیگر چھوٹی جماعتوں نے ہمیشہ دائیں بازو کی سیاست کی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مزاحمتی سیاست کی راہ میں بند باندھنے کی کوششیں کرتے رہے ۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بی بی کی شہادت کے بعد پہلی بار اس ترقی پسند جماعت کو مزاحمتی سیاست کی راہ ترک کرتے ہوئے مفاہمتی سیاست کا آغاز کرنا پڑا،زرداری صاحب نے ”پاکستان کھپے “ کانعرہ بلند کیا اوریوںدائیں بازو کی تمام جماعتیںایک چھتری تلے اکھٹی ہو گئیں ۔ پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اچھے تعلقات کی بنیاد پڑی جس کے نتیجے میںمزاحمتی سیاست تقریباً ختم ہو گئی، بائیں بازو کی ترقی پسند اس جماعت نے اپنے نظریے اور اپنی روائتی طرز حکمرانی سے پہلو تہی کی تو ایک طرف تو وہ عوامی سطح پر غیر مقبول ہوگئی تو دوسری طرف مزاحمتی سیاست بھی دم توڑنے لگی ۔پاکستا ن تحریک انصاف کی مقبولیت نے اس نئے پیدا ہونے والے خلا کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 2013کے انتخابات میں دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری ۔

پاکستان کی جمہوری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی عوامی حکومت اقتدار کے ایوانوں میں پہنچی تو حزب اختلاف نے عوام کے اجتماعی مسائل کے حل کے نام پر اپنی اپنی انفرادی سیاست چمکانے کی کوشش کی ۔ 70کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی اور کرپشن کے نام پر حکومت کو گھر بھیجنے کی تحریک چلائی ۔90کی دہائی میں آئی جے آئی اور جی ڈی اے (گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس) تشکیل پایا اورچارجمہوری حکومتوں کو تکمیل مدت سے قبل ہی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ۔حزب اختلاف کی طرف سے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ نے عوام کی مشکلات کم کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافہ کیا ۔ حکومتوں کی قبل از وقت ان تبدیلیوں نے ایک طرف تو ملکی معیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا تو دوسری طرف ملک میں جمہوری نظام بھی جڑ نہ پکڑ سکا ۔اس تماشے کے اختتام کے لیے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاق جمہوریت )طے پایا جس میں یہ عہد کیا گیا کہ عوام کی نمائندہ حکومت کو اپنی پالیسیوں پرعملدرآمد کرنے کے لیے مکمل مہلت دی جائے گی،غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار بننے کی بجائے حکومت کی غلط پالیسیوں پر سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی جا ئے گی ۔یقینا جمہوری رویوں کے فروغ کے لیے یہ معاہدہ ایک انقلابی اقدام ہو سکتا تھا لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ اقتدار کی ہوس میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بظاہر تو حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کی لیکن حکومتوں کی کامیابی کے لیے بھی تعاون نہیں کیا بلکہ میثاق جمہوریت کے برعکس پاکستان مسلم لیگ (ن) تو ججز بحالی کی تحریک میںسڑکوں پر آگئی۔انفرادی سیاست کا سکہ جمانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت نے پاکستان کے مفادات کو سامنے نہیں رکھا حالانکہ جمہوری نظام میں حزب اختلا ف اور حزب اقتدار گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہوتے ہیں ان دونوں کا مثبت کرادار ملکی مسائل کے حل اور عوام کی بہتری کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے پسندیدہ نمائندگان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیںتاکہ ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے وضع کردہ اس مشاورتی نظام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

موجودہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا رویہ بھی کچھ مختلف نہ تھا ۔دھاندلی کے شکوک شبہات دور کرنے کے لیے علامتی طور پر چارحلقے کھولنے کی بات کی گئی جو پارلیمنٹ کے سامنے 126دن کے دھرنے پر منتہج ہوئی ۔ابھی کل کی بات ہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کارکردگی بابت سوالات پوچھے جاتے یا تنقید کا نشانہ بنایا جا تا تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت مطلوبہ پانچ سال کا وقت مانگتی ،اسی طرح دھرنے کے دنوںمیں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کو رد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے ، عوامی مسائل سڑکوں پر حل نہیں کیے جا سکتے ۔مولانا فضل الرحمٰن تو دھرنا تحریک کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتے رہے اور دھرنے کے شرکاءکو’ بلوایئے ‘لیکن پاکستان میں تاریخ خود کو دہرانے میں زیادہ وقت نہیں لیتی ،یہاںتاریخ کے پہیے کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز ہے ،سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کے حل کی آڑ میں اپنے ہی وضع کردہ نظریات سے180 ڈگری کے زاویے پر گھوم جاتی ہیں۔گزشتہ روز ان ہی تمام جماعتوں نے زرداری ہاﺅس میں افظار ڈنر کے نام پر اکھٹ کیا ،بھٹو کے نواسے اور محترمہ کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پر حزب اختلا ف کی تمام جماعتیں اکٹھی ہو گئیںاور عوامی حقو ق کی جنگ سڑکوں پر لڑنے کا اعلامیہ جاری کیا ۔عوام ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہیںکہ انہی جماعتوں کے بقول عوامی مسائل کا حل پارلیمنٹ ہے وہاں ان مسائل کو زیر بحث کیوں نہیں لایا جا سکتا؟ کیا حکومت ان سے تعاون نہیں کر رہی یا انہیں ایوان میں بولنے کی اجازت نہیں؟ کیا انہوں نے حکومتی نااہلیوں پر تنقید کے علاوہ کوئی حل بھی تجویز کیا ہے یا صرف تنقید برائے تنقید اور حکومت کو کسی طور ناکام کرنا ہی مقصود تھا ؟کیا کسی نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ آئی ایم ایف کے علاوہ بھی کوئی راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے خود انہی جماعتوں کے کھڑے کیے ہوئے مسائل کے انبار سے چھٹکارہ مل سکتا تھا ؟ اپنے لیے پانچ سالہ مدت مانگنے والے کس طور صرف نو ماہ میں ہی حکومت کو ناکام قرار دیا جا رہا ہے ؟ کیا مہنگائی میں کمی ، ٹیکس نظام میں اصلاحات اور قومی خزانے پر ڈاکے ڈالنے والوں کو قانونی شکنجے میں لانے کے لیے قانونی مسودے کی تشکیل میں کوئی کردار ادا کیا گیا؟ تجارتی خسارے میں کمی ، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ، مالیاتی بحران میں گھری حکومت کے خلا ف شور شرابہ کے علاوہ عملی طور پر کیا کیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ عید کے بعد احتجاجی تحریک شروع کرنے والی اپوزیشن کا ٹارگٹ عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ ان کے مسائل میں مزید اضافہ کرنا ہے ۔اگر ان سیاسی جماعتوں کی نیت عوامی مسائل کا حل ہوتی تو بلاشبہ ان کے پاس اوپر پوچھے گئے سوالات کا جواب ہوتا اور وہ ضرور ببانگ دہل ان کا پرچار بھی کرتی لیکن اگر حزب اختلاف پارلیمنٹ کے اندر ہی اپنی اولین ذمہ داری نہیں نبھا سکی تو کیسے یقین کر لیا جائے کہ یہ جماعتیں سڑکوں پرہمارے حقوق کی جنگ لڑ سکتی ہیں۔اگر انہی جماعتوں کے اقوال زریں پر ایمان لے آیا جائے جو سابق حکومت کے خلاف چلنے والی دھرنا تحریک کے دوران ادا کیے جاتے تھے تو عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ زرداری ہاﺅس میں اکٹھا ہونے والا حالیہ اجتماع دراصل ’میثاق جمہوریت ‘ نہیں بلکہ ’میثاق میراث ‘ کے لیے تھا جو دراصل دعوت افطار پرنہیں بلکہ دعوت انتشار پر مدعو تھا۔

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 17002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.