کپتان کی جیت پاکستان کی جیت

معزز قارئین تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی دس ماہ ہی ہوئے ہیں اور جب صرف دس دن ہوئے تھے تب سے اپوزیشن جماعتوں نے یہ شور ڈالا ہوا ہے کہ کپتان ناکام ہو چکا،کپتان حکومت نہیں کر سکتا،کپتان کو سیاست نہیں آتی اور میں یہ سب سن کر ہنستا تھا کہ یہ کہہ کون رہے ہیں۔کپتان پر تنقید کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ سیاسی جادوگر کے نام سے مشہور سابق صدر آصف علی زرداری جو بدقسمتی سے پیارے پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں اور انہوں نے اپنے اقتدار کو بچانے ، سرمائے کو تحفظ دینے ، عزیزوں ، دوستوں کو نوازنے کیلئے ملک کے ساتھ جو کھیل کھیلا وہ آج بھی بچے بچے کو یاد ہے۔ پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو آصف علی زرداری کے سسر ذوالفقار علی بھٹو پیارے پاکستان پر حکومت کر چکے ہیں،بینظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکی ہیں ، آصف زرداری پانچ سال تک سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ آج سے (52 ) سال پہلے 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا ، جو بدقسمتی سے نعرہ ہی رہا اور آج تک عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا،پیپلز پارٹی نے ملک بھر کے عوام کو روٹی ،کپڑا اور مکان دینا تھا مگر سندھ میں جہاں کئی دہائیوں سے برسراقتدار ہے وہاں کے عوام کا حال جانوروں سے بھی برا ہے ، تھر میں بچے ، بڑے پیاس اور بھوک سے مر رہے ہیں ، لاڑکانہ جس کو پیپلز پارٹی والے اپنا سیاسی کعبہ قرار دیتے ہیں وہاں کے حالات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، آج کل ایڈز کی وبا پھیلی ہوئی ہے مگر باپ بیٹا سندھ کے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے کپتان پر تنقید کر رہے ہیں جیسے کپتان پر تنقید کرنے سے سندھ کے حالات بہتر ہوجائیں گے ، ملک میں تبدیلی کپتان پر تنقید کرنے سے آ سکتی ہے تو آج سے ہم یہی کام شروع کر لیتے ہیں مگر کون سمجھائے ان عقل کے اندھوں کو۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کا بھی یہی موقف ہے کہ 72 سالہ مسائل کا ذمہ دار صرف اور صرف عمران خان ہے حالانکہ شریف خاندان تین دہائیوں تک اقتدار میں رہ چکا ہے، مسلم لیگ ن کی سیاست نواز شریف ،شہباز شریف ، مریم نواز اور حمزہ سے شروع ہوکر انہی پر ہی ختم ہو جاتی ہے اور آج کل مسلم لیگ ن کیلئے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف کی رہائی ہے ، مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ملک کے ساتھ جو مرضی کر لو مگر نواز شریف کو چھوڑ دو،اس نواز شریف کو جس کو پیارے پاکستان کی پیاری عدلیہ مجرم قرار دے چکی ہے ۔ اپنے قارئین کیلئے ایک خبر بھی بریک کرتا چلوں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی عید کے بعد سلاخوں کے پیچھے ہوں گے اور پیپلز پارٹی ، ن لیگ کے ساتھ ملکر احتجاج بھی کرے گی ، بظاہر تو ان کے احتجاج کا مقصد عوام کے مسائل کا حل ہوگا ، دونوں پارٹیوں کے رہنما یہی کہیں گے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کا بیڑہ غرق کر دیا ، ملک میں مہنگائی کا سونامی لے آ ئی ، عوام کو بیروزگار کر دیا ، مگر اصل مقصد نواز شریف اور آصف زرداری کی رہائی کیلئے حکومت اور دیگر اداروں پر دبائو ڈالنا ہو گا ، اور ان دونوں جماعتوں کا جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھرپور ساتھ دیں گے جو دو دہائیوں بعد اقتدار سے الگ ہوئے ہیں اور دس ماہ سے اسی دکھ میں ہیں کہ کپتان نے میرے ساتھ کر کیا دیا ہے ۔ شاید مولانا صاحب نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو کہ کپتان کلین بولڈ ہی کر دے گا ۔ مولانا صاحب تکبر اور غرور میں آکر ایک بات کہا کرتے تھے کہ ہا ہا ہا ہا کیا ہوا ہم اقتدار میں نہیں آ سکتے مگر ہمارے بغیر بھی کوئی جماعت اقتدار میں نہیں آسکتی، مگر کپتان نے مولانا صاحب کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ مولانا صاحب کو ان کے ہوم گرائونڈ سے بھی آئوٹ کر دیا ، اب شاید مولانا صاحب کبھی نہیں کہیں گے ، ہا ہا ہا ہا ہم اقتدار میں نہیں آسکتے تو کیا ہوا ہمارے بغیر بھی کسی کی حکومت نہیں بن سکتی ۔ قارئین میں نے آخری کالم دس ماہ پہلے ہی لکھا تھا جب پی ٹی آئی الیکشن جیت چکی تھی اورمجھے یقین تھا کہ کپتان جیتنے کیلئے میدان میں اترا ہے اور میں مزید دو سال تک کالم نہیں لکھنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ 72 سالوں کا گند کپتان ایک اننگز میں صاف نہیں کر سکتامگرسینئر صحافی اورپیارے دوست جناب شہباز چوہدری نے کہا کہ یار کچھ لکھو،ضرور لکھو،تمہیں لکھنا چاہئے،تو رات کو بیٹھے سوچ رہا تھا کہ غلام رضا کچھ لکھو،سیاست پر لکھنے کو دل نہیں کررہا تھا مگر پھر خیال آیا کہ کپتان سے عوام مایوس ہوتے جا رہے ہیں،عوام کو حوصلہ دینا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے ، بیروزگاری بھی ہے، کاروبار تباہ ہورہے ہیں ۔ دس ماہ کے دوران عوام کو پٹرول کی فی لٹر قیمت میں چودہ روپے اضافی دینا پڑے۔ مہنگائی کی شرح دس فیصد کو پہنچ چکی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بیس روپے کمی آئی ۔ گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافہ ہوچکا ، سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 1758 ارب روپے ڈوب چکے ہیں۔مگر یہ پہلی بار تو نہیں ہوا، پچھلی حکومتوں میں بھی عوام کو ہی یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑتا تھا مگر تب عوام بھی حکمرانوں سے سوال نہیں کرتے تھے کیونکہ عوام کو علم تھا ہمارے حکمران ہیں ہی چور ، انہوں نے کچھ کرنا ہی نہیں ۔ کپتان سے عوام نے امیدیں لگائی ہوئی تھیں اسی لئے عوام کپتان سے افسردہ ہوتے جا رہے ہیں مگر عوام کپتان کے ساتھ مزید چار سال تک کھڑے رہے تو ہمیں آئندہ کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا اور نہ ہی ان کی شرائط تسلیم کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کا سونامی لانا پڑے گا۔ کپتان کے اچھے کام اگلے کالم میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ پیارے پاکستانیوں کپتان کی جیت ہی پاکستان کی جیت ہے ،اور کپتان کی ہار ہی پاکستان کی ہار ہے اور ہمارے پاس کپتان کے علاوہ ایسا کوئی کھلاڑی نہیں جو ملک کو چلا سکے۔ ہمیں کپتان کا ساتھ دینا ہوگا، اپنے لئے، اپنے بچوں کیلئے۔ملک میں ضرورتبدیلی آئے گی۔ انشاء اللہ
 

Ghulam Raza
About the Author: Ghulam Raza Read More Articles by Ghulam Raza: 19 Articles with 13451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.