آج اس دور جس میں تبدیلی کی بات تو ہر انسان بھر چڑھ کر
کر رہا ہے۔مگر اس تبدیلی کے آنے کے اسباب اور اسکے پیچھے چھوپے اثرات کو سب
نے نظرانداز کر دیا ہے ۔جیسے کہ ہمارا قانون جو کہ لا قانون ہو چکا ہے ۔اب
اسکا رونا کس کس کے آگے روئے کوئی جب انسان کی اپنی سوچ ہی آگے بڑھنے سے
روکے رکھی ہے ۔جیسے کے کچھ ماہ قبل ساہیوال میں ہونے والا واقعہ تاریخ
انسانی کی اصل بیچ و تاب میں خون کے آنسو رولا دینے والا واقع ہے ۔اگر ہم
اس واقعی کو توجہ سے نہ دیکھیں تو ہم انسان کہلانے کے قابل نہیں وہی ہو ا
جو ہوتا آ رہا ہے۔ظلم کی انتہا کا وہی رواج اور وہی انداز جو انسان کو
انسان کی اصل بقاہ کا یقین دلاتا ہے ۔دورِ جہالت کے انہیں اوراق میں قید ہے
جو کبھی دوبارہ درست نہ کیے گئے۔آج اگر ان سب کو درست کرنا ہے تو تبدیلی کا
سبق پڑھنا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہے جو ہمارے کل کے لیے بہت
ضروری ہے ۔ ہمارا معاشرہ پہلے ہی اس بات پر متفق ہے کہ انصاف کا حصول ممکن
نہیں اسی لیے کبھی بھی اُس معاشرے کو بدلہ نہیں جا سکتا جو اس یقین پر ہو
کہ کچھ بھی ہو جائے یہاں اس معاشرے میں کبھی طاقتور کے سامنے کمزور کو صحیح
انصاف مل پائے گا۔اگر اسی کا نام تبدیلی ہے تو پھرکیسی تبدیلی ،کہاں کی
تبدیلی ،کیوں تبدیلی کالا دھن ،کالا پانی اور یہ سب کالے چور ہمارے لیے نئے
نہیں ہیں ۔سب کے سب اُسی قبلہ سے تعلق رکھتے ہیں جس قبیلہ سے وہ سب تعلق
رکھتے تھے۔تو اسکا مطب یہی ہے کہ شکلیں تبدیل ہو گئیں ہیں مگر انکی ماروثی
سوچ نہیں سچ ہے ہمیں عوام کہا جاتا ہے مگر ہم یہ نہیں جانت کہ عوام کا مطب
کیا ہے ۔
عوام لفظ عام کے معنی دیتا ہے مگر ہم کبھی نہیں سوچتے کہ حکمران قانون
جانتے ہی نہیں وہ سب کے سب خاص ہیں اور اسی لیے وہ ہم میں سے نہیں کیوں کہ
ہم عوام ہیں ۔
میری بات کو یاد رکھنا تبدیلی بدیل ہو نے یعنی تغیر کا نام ہے جو علامہ
اقبال نے نوجوانوں کے لیے پیغام دیا تھا۔مگرہم سب کا سب بھول گئے ہیں ۔ہمیں
تو بس ظلم سہنا یاد ہے اورکچھ نہیں ۔تو جب عام عام ملتے ہیں تو مل کر خاص
الخاص بن جاتے ہیں مگر افسوس! ہم اس بات کو نہیں سمجھتے؟شاید میں غلط ہوں
ہاں ہم سمجھتے ہیں مگر جب دھرنے دینے ہوں ملک کی معشت کو ڈبونا ہو اور
عزتوں کو سرے بازار پامال کر نا ہو بس اُسی وقت ہی سمجھتے ہیں اور کبھی
نہیں سمجھتے۔
ـکاش کہ تیرے دل میں اوتر جائے میری بات
اب بات کرتے ہیں کہ قانون جو کہ حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے مگر کون سی
حفاظت،کس کی حفاظت امیروں اور طاقتور حکمرانوں کی جو ہمارے سر پر ہر وقت
ہتھوڑا لئے سوار رہتے ہیں کب یہ باہر آئیں اور ہم انکو مارڈالیں یا پھر
انکی جنکی ایک بکری چوری پر مہنیوں چکر لگا لگار کر مایوس کر دینے والی کی
۔آپ کسی بھی واقعہ کو لیں لیں آ پ دیکھیں گے کہ انصاف تو دور قانون اور
آئین کی دجھیاں اُڑا دیں گیں۔جیسے شروعات میں بلدیہ کا چیئرمین بھی بڑی
صفائی اور پریشرڈلواتا ہے کہ کام کیو ں نہیں ہوا اور چند روز بعد آپ اچھی
طرح سے جانتے ہیں پھر پانچ سال کیا ہوتا ہے ۔
بلکل تبدیلی کے یہ خواہش مند حضرات دیکھ لیں کیا ہوا ۔پہلے پہل ہم نے دیکھا
کہ سراج درانی کو سزا دے کر اُس سے اُسکا عہدہ چھین لیا گیا مگر آج بعد
دییکھیں تو کیا ہوا تبدیلی محض اُ ن چیئر مین کی ہی طرح پانچ سال کے لئے
خاموش ہو گئی ہے اور یاد رکھو یہی سچ ہے اور اسکے علاوہ نقب اﷲ کیس میں راؤ
انوار کا کیا ہوا۔کچھ بھی نہیں کہاں گئی تبدیلی جو اتنے بڑے دعوے کرتی ہے
اور پھر بعد میں کچھ بھی نہیں ہوتا سوائے باتوں اور باتوں کے ۔
میرے ملک میں تبدیلی صرف اور صرف اسلامی نظام لاگو اور انبیا ء اکرام کے
بتائے ہوئے سنہری اصولوں پر ہی عمل کر کے ممکن ہے۔مدینہ کی ریاست قائم نہیں
ہوسکتی اُسکے لئے حکمران کو حضرت صدیق ؓ کی صداقت ،حضرت عمر ؓ کا عدل،حضرت
عثمان کی حیاء اور حضرت علی ؓکی سی شجاعت چائیے۔
اسکے علاوہ آپ مدینہ کی ریاست تو دور ایک روشن سفر کا خواب بھی نہیں دیکھ
سکتے۔جیسا کے علامہ اقبال نے کہا ہے۔
ــؔعمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال اپنے شاہین کو یہ نہیں کہتا کہ وہ اپنے ارادوں سے پیٹھ پھیر لیں بلکہ
وہ انکو اگے بھرنے کا سبق دیتا ہے اور یہی وہ فکر ہے جو انسان کو اگے اور
جینے دو میں مدد دیتی ہے اگر تبدیلی کا مطلب دوسروں کے آگے ہاتھ پلانا ہے
تو کیسی تبدیلی اور اگر اسکا مقصد ملک میں ہونے والے واقعات سے فائدہ
اُٹھانا اور تمام تر ہونے والی ترقی میں نوجوانوں کی کی جانے والی امداد کو
بھی خیرا ٓباد کرنا ہے ۔تو ایسے کام کے لئے اسکا حصول ممکن نہیں جو انسان
کو اخلاقیات اور معاشرے میں اُ س جگہ لے جائے جہاں وہ اپنے آپ کو بقاء کی
خاطر اس سے بغاوت کرتا ہے تو پھر وہ محب الوطن کہلانے کا حق دار نہیں ۔
ــ"تو ایسے معاشرے میں قانون صرف نام سے ہوتا ہے ــکام سے نہیں" |