نئے پاکستان میں روزبروز بڑھتی مہنگائی، روپے کی
قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کی اونچی اڑان کا سلسلہ جاری ہے جہاں صرف گزشتہ
دو دنوں کے دوران ڈالر تقریباً5روپے مہنگا ہوگیا ،جس سے ان دو دنوں میں ملک
پر بیرونی قرضوں کا بوجھ687 ارب روپے بڑھ گیا۔ جبکہ معاشی ماہرین کے مطابق
ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں مزید کمی کے امکانات ہیں جس سے
مہنگائی کا نیا طوفان پیدا ہوگا۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز سونے کی قیمت میں
بھی 500 روپے فی تولہ اضافہ ہوگیا ،جس سے سونے کی فی تولہ قیمت 71500 روپے
سے بڑھ کر72000 روپے ہوگئی ۔ غریب پاکستانیوں پرمذید ستم یہ کہ آئل اینڈ
گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی چھوٹے صارفین کیلئے گیس188 فیصد تک مزید
مہنگی کرنے کی سفارش کردی ہے ۔ جبکہ بجلی کی قیمتوں میں بھی مرحلہ وار
اضافے کی پیشگوئی کی جاری ہے، مہنگائی کی اس سنگین صورتحال نے پاکستانی
شہریوں کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے ، ہر گزرتے دن کیساتھ روپے کی قدر میں
کمی ، بجلی ، گیس سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہونے
والی مہنگائی سے غریب اور متوسط طبقے کا جینا دوبھر ہو کررہ گیا ہے ۔
انتخابات سے قبل پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے،آئی ایم
ایف کے پاس جانے والوں کو فقیر کہا گیا، اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے پی ٹی
آئی حکومت کے آتے ہی دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ قرضوں میں
ڈوبی قوم کو جب عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی اور ٹیکسوں کی
بھر مار ختم کرنے کے خواب دکھائے تو قوم کو ان کے روپ میں ایک مسیحا نظر
آیا ۔یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت اور پرانے سیاسی چہرے
بھیس بدل کر نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو عوام پاکستان نئی قیادت سے
امیدیں باندھ لیتے ہیں،پاکستانی قوم نئے پاکستان میں سنہرے دور کے خواب
دیکھنے لگی اور عمران خان سے خوشحالی کی نہ جانے کتنی توقعات وابستہ کرلیں،
غربت و مہنگائی کے خاتمے کے لئے نہ جانے کتنی امیدیں باندھ لیں۔ کیونکہ
پاکستانی قوم گزشتہ 73 سالوں سے حقیقی تبدیلی اور طرز حکومت میں بہتری کی
منتظر ہے اور کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعوؤوں اور
وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے ۔ مگر پی ٹی آئی کی حکومت میں
بھی عملی کردار سے زیادہ محض گفتار سے کام لیا گیا اور برسر اقتدار آنے کے
بعد سے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے، اور اپوزیشن جماعتوں پر کڑی تنقید
کی حکمت عملی سے زیادہ کچھ نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج مہنگائی و
بے روز گاری اور ملکی قرضوں میں مذید اضافہ ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف کی
کڑی شرائط کے باوجود موجودہ حکمران بھی کشکول تھامے آئی ایم ایف کے در کے
سوالی ہیں۔ جبکہ ڈالرکی مسلسل اڑان کی وجہ سے عام عوام کی مشکلات مزیدبڑھ
گئیں ہیں۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں چین ، سعودی عرب، قطر، امریکہ، ورلڈ بنک
سے بھی امدادیں مل چکی ہیں۔ اگر دیکھاجائے تو پاکستان کو لگ بھگ دس ارب
ڈالر مل چکے ہیں جبکہ پاکستان سے جمع ہونے والا ریونیو بھی کھربوں روپے
اکٹھا ہوتا ہے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ اتنی رقم اکٹھا ہونے کے باوجود ابھی
تک پورا ملک نحوست کے بادلوں میں گھرا ہوا ہے اورحکومت نے نئے ٹیکسوں کی
بھرمار سے عوام کو مخبوط الحواس بنا رکھا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کے
سبب ہر شخص پریشان اور مضطرب ہے جبکہ ملک میں ترقیاتی کام بھی نہ ہونے کے
برابر ہیں۔ ان حالات میں قوم سوال کررہی ہے کہ آخر پیسہ کہاں جارہا ہے ،
حکومت کیوں اب تک ڈالر کی قیمت کنٹرول نہ کرپائی جو کہ مہنگائی میں اضافے
کی بنیادی وجہ ہے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عوام
پاکستان سے معاشی و اقتصادی ترقی کے جو وعدے اور دعوے کرتے رہے ہیں اب
برسراقتدار آنے کے بعد ان کے برعکس اقدامات اٹھا تے دکھائی دیتے ہیں، گزشتہ
حکمران جماعتوں نے بھی ایسا قتل عام نہیں کیا جیسا کہ ٹیکسوں اور قیمتوں
میں اضافے کے نام پر عوام کو نشانہ ستم بنانے کی تیاری کی گئی ہے۔ ہوناتو
یہ چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے وعدوں کو پوراکرتی اورعوام
کوریلیف فراہم کیاجاتامگرافسوسناک امر یہ ہے کہ ریلیف کی بجائے عوام کو
تکلیف دی جارہی ہے۔
موجودہ حکومتی اقدامات سے غریب عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے
ہیں، آج عوام کو کسی بھی قسم کاکوئی ریلیف میسر نہیں جس سے لوگوں میں
مایوسی پھیل چکی ہے۔دعوؤں کے برعکس ڈالر، گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے
پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی
تو اس کوعوامی مسائل میں اضافہ کرنے کابھی کوئی حق حاصل نہیں۔ اگر غریب
پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی
لانا تھا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے کہیں بہتر تھی۔
جبکہ ملک کے سیاسی حالات بھی کچھ اچھے نہیں ، پاکستان کو آگے بڑھانا حکومت
اور اپوزیشن دونوں کا ہی فرض ہے لیکن کلیدی کردار ہمیشہ برسراقتدارسیاسی
طبقات کا ہوتا ہے۔ حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپوزیشن کو گلے سے
لگانا اور یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کو بلندی کی طرف لے جانے کے لیے
حکومت کو اپوزیشن کے متحرک کردار کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ معاشی استحکام براہ
راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے،وزیراعظم عمران خان کو علم ہونا چاہئے
کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔آج پاکستان معاشی طورپر
ایک نازک موڑ پر آن کھڑا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو
بہتربنانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے اور عام آدمی کو
مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کی تدابیر اختیار کی جائے تاکہ شہری سکھ کا سانس
لے سکیں۔ |