افریقہ دیکھنے کی خواہش کافی عرصہ سے تھی جو اب پوری ہونے
جارہی تھی ۔سویڈن اور جنوبی افریقہ کا بہت گہرا اور قریبی تعلق رہا ہے۔ نسل
پرست حکومت کے خلاف جنوبی افریقہ کے عوام کی تحریک آزادی کی جس ملک نے سب
سے زیادہ مدد کی، وہ سویڈن ہی ہے۔ سویڈش حکومت خفیہ ذرائع سے نیلسن مینڈیلا
کی پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کی بھرپور امداد کرتی تھی۔ نیلسن مینڈیلا اس
مدد کے ہمیشہ معترف رہے اور اپنی رہائی کے بعد انہوں نے افریقہ سے باہر
اپنے سب سے پہلے غیر ملکی دورہ کے لئے 1990 میں سویڈن کا ہی انتخاب کیا
تھا۔ ان کی جدوجہد کے اعتراف میں اسٹاک ہوم سٹی کونسل کی جانب سے 1998 سے
ہر سال، کسی فرد یا تنظیم کوحقوق انسانی کے شعبہ میں خدمات پر نیلسن
مینڈیلا انعام دیا جاتا ہے۔ ہم نے براستہ قطر جنوبی افریقہ جانے کا پروگرام
طے کیا ۔ خلیج فارس کے ساحل پر واقع ایک پرآسائش ہوٹل میں دو د ن قیام بہت
پر لطف رہا۔ہوٹل عملہ میں سری نگر کے زوہیب خان، لکھنو کے محمد اسلم اور
کراچی کے احمد سے مل کر بہت اچھا لگا۔ دوہا میں میوزیم آف اسلامک آرٹ
دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک وسیع و عریض کئی منزلہ عمارت میں اسلامی
تاریخ اور ثقافت کو محفوظ کردیا گیا ہے، اگر دوہا جانے کا موقع ملے تو اس
میوزیم کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ ویلاجیو مال دوہا کا خوبصورت اور منفرد شاپنگ
مال ہے جس کے اندر چھوٹی چھوٹی نہریں رواں دواں ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے
کہ وینس میں کھڑے ہیں۔دوہا میں کالم نگا ر، صحافی اور ادیب مراد علی شاہد
سے بھی ملاقات ہوئی اورہم نے اپنی کتابوں کا تبادلہ کیا۔ دو روز دوہا میں
رکنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل جنوبی افریقہ کی جانب روانہ ہوئے۔ او آر
ٹیمبو انٹرنیشنل ائیرپورٹ جوہانسبرگ پر ہماری بہن فاطمہ، عزیزم فرحان اور
بچے ہمارے منتظر تھے۔ افریقہ کے بارے میں جو ایک تصور ذہن میں تھا وہ
جوہانسبرگ سے پریٹوریا جاتے ہوئے مسمار ہوچکا تھا۔ محسوس یہی ہورہا تھا کہ
کسی ترقی یافتہ یورپی ملک میں ہیں البتہ کچھ مسافت طے کرنے کے بعد غربت کا
شکار بستیاں اور بھکاری بھی دیکھنے کو ملے۔یہاں کے بھکاری قدرے سلجھے ہوئے
ہیں، وہ بھیک دینے والوں پریلغار نہیں کرتے بلکہ کافی فاصلہ پر کھڑے ہوکر
دست سوال ہوتے ہیں او ر معمولی سی رقم ملنے پر بھی بہت شکریہ ادا کرتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کاسب سے بڑا شہر جوہانسبرگ ہے جبکہ اس کے تین دارالحکومت ہیں،
انتظامی دارالحکومت پریٹوریا ، عدالتی بلومفونٹین اور قانون سازی کے لئے
ساحلی شہر کیپ ٹاؤن یہاں کا دارالحکومت ہے۔ہمارا قیام پری ٹوریا میں رہا۔
یورپی سیاح یہاں کا قدرتی حسن، جنگلی حیات اور سفاری دیکھنے کے لئے آتے
ہیں۔ اگر کوئی جنوبی افریقہ کی سیر کو جائے اور سفاری نہ دیکھے تو پھر کیا
دیکھا۔اسی لئے ہم ایک دن سفاری کی سیر کو نکلے۔ پریٹوریا سے دو سو کلومیٹر
کی مسافت پر واقع پینالس برگ نیشنل پارک ایک وسیع و عریض رقبہ پر پھیلا ہوا
جنوبی افریقہ کا چوتھا بڑا پارک ہے جس میں سات ہزار سے زائد جانور اور چار
سو اقسام کے پرندے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔جنوبی افریقہ کی تاریخ
سے آگاہی کے لئے ہم پریٹوریا کے جنوب میں ایک پہاڑی پر واقع یادگار
’’وورٹریکر‘‘ دیکھنے گئے۔ ایک پرشکوہ عمارت جنوبی افریقہ کے ماضی کی
داستانیں لئے ہوئے ہے۔یہ میوزیم اس خطہ کی تاریخ، ثقافت، سماجی تغیرات اور
فنون لطیفہ کا ورثہ اور یادگارہے۔ خریداری کے مراکزہماری سیاحت کا لازمی
عنصر ہوتے ہیں۔ جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا سکوائر یہاں آنے والے سیاحوں کو
دور سے ہی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جہاں نیلسن منڈیلا کا چھ میٹر بلند وبالا
مجسمہ ایستادہ ہے۔ہمارے میزبان بھی سیروسیاحت کے دلداہ تھے اور انہوں نے
راقم کی اہلیہ کی سالگرہ ایریل کیبل وے ہارٹیز پر منانے کا پروگرام ترتیب
دیا جو افریقہ کی سب سے طویل مونو کیبل وے ہے۔ ڈیم کے کنارے واقع پہاڑی پر
کیبل وے سے اوپر پہنچ کرخوبصور ت نظارہ مدتوں ذہن میں جاگزیں رہتا ہے۔
اہلیہ کو یہاں منائی گئی سالگرہ کبھی نہیں بھولے گی۔ پریٹوریا کے جنوب مغرب
میں لوڈیم کے قصبہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں جنوبی ایشائی باشندوں کی
ایک بڑی تعداد آباد ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کئی مساجد اور مندر بھی واقع
ہیں۔ جوہانسبرگ کا علاقہ فورڈزبرگ کو پاکستانیوں کا مرکز کہہ سکتے ہیں۔
یہاں جنوبی ایشیائی باشندوں کی بھی بڑی تعدا د آباد ہے۔ یہاں پاکستانی
ملبوسات، کھانے پینے، پنساری اور کریانہ کی دوکانیں مشرقی ماحول کی عکاسی
کرتی ہیں۔ ایک پاکستانی مٹھائی کی دوکان سے گول گپے، دہی بھلے، سموسے ،
گلاب جامن اور مزیدار برفی نے پاکستان کی یاد تازہ ہوگئی کیونکہ سویڈن میں
ایسی چیزیں کم ہی ملتی ہیں۔ پری ٹوریا میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ڈپٹی
ہائی کمشنر عدنان جاوید سے بہت خوشگوار ملاقات ہوئی۔ تین برس قبل ان سے
جاپان میں ملاقات ہوئی تھی جب وہ ناصر ناکا گاوا کی دعوت پر اردو نیٹ جاپان
کی جانب سے میری کتابوں کی تقریب رونمائی میں تشریف لائے تھے۔پاکستانی ہائی
کمیشن کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقع ملا۔
نیلسن منڈیلا کے گھر کو دیکھنے کی خواہش ہمیں جوہانسبرگ کے نواح میں واقع
ایک قصبہ سوویٹو لے آئی۔ یہاں سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ایک عام سی
عمارت لیکن جسے تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ دیکھنے کو یہ ایک چھوٹا سا
گھر تھا مگر اس کی عظمت اور تاریخی اہمیت مسلمہ ہے۔ گھر کے چھوٹے سے صحن
میں ایک درخت کے سائے میں خاندان کے بچوں کے آنول مدفن کئے گئے ہیں جو یہاں
کی ایک رسم ہے۔ گھر کی دیواروں پر نیلسن منڈیلا کے اقوال اور خطوط کے
اقتباسات ہیں جو انہوں نے قید کے دوران لکھے تھے۔ منڈیلا ہاوس دیکھ کر یہ
احساس ہوا کہ غاصب قوتیں چاہیے جیسا بھی ظلم اور ہتھکنڈے اختیار کرلیں،
لیکن کسی قوم کو آزادی سے نہیں روک سکتے اور یہی آزادی ایک دن ریاست جموں
کشمیر کے عوام کا مقدر ہوگی۔ فرحان کی چھوٹی بیٹی رانیہ جو چوتھی جماعت کی
طالبہ ہے، اس کی سوچ اور لگن نے بہت متاثر کیا۔رانیہ ان طلبہ کے لئے رقم
جمع کررہی جو مالی دشواریوں کے باعث تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ رانیہ
مستقبل میں ایسے بچوں کے لئے سکول بھی قائم کرنا چاہتی ہے۔ جس قوم کے بچوں
میں یہ جذبہ ہے وہ قوم کیوں آگے نہیں بڑھے گی۔ جنوبی افریقہ میں چند دن یوں
گزرے کہ پتہ ہی نہیں چلا اور پھر بہن فاطمہ اورفرحان نے اپنے بچوں ابراہیم،
ماہا، مصطفےٰ اور رانیہ کے ساتھ ہمیں الوداع کیا۔ ہم ان کی مہمان نوازی
اوروہاں کی حسین یادیں لئے ہوئے افریقہ سے یورپ کی جانب محو پرواز تھے۔
|