متحدہ قومی موومنٹ سے ”کامیاب
مذاکرات “کے بعد حکومت نے پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل پر کیے جانے والے
حالیہ اضافے میں 50 فیصد کمی کا اعلان کردیا ہے۔ مذاکرات میں متحدہ کی
وفاقی کابینہ میں شمولیت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، متحدہ کے باقی 9نکاتی
معاشی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے کمیٹی بنانے پر بھی اتفاق ہوا۔
پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے مذاکرات میں صدر آصف علی زرداری اور
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی بذریعہ ٹیلی فون شریک رہے۔ ذرائع کے
مطابق پیٹرولیم قیمتوں کے حوالے سے طے کیا گیا کہ یہ عارضی کمی ہے اور اس
معاملے کو آئندہ اجلاس میں طے کیا جائے گا۔ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے
کیے گئے ٹیلی فونک رابطے کے بعد متحدہ نے اپنی ڈیڈ لائن بھی واپس لے لی ہے
تاہم اس کی وفاقی کابینہ میں شمولیت یک بار پھر موخر ہوگئی ہے۔
دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کراچی میں پبلک
ٹرانسپورٹ مالکان نے جمعرات اور جمعہ کو پہیہ جام کردیا۔ ٹرانسپورٹ برادری
نے حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہ ملنے اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ
کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہونے پر جمعہ کو بھی کراچی سمیت
سندھ بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند رکھنے کا اعلان کیا تھا
حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی نے بھی جس کی حمایت کردی۔ کراچی
میں پبلک ٹرانسپورٹ کے غائب ہونے سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا
پڑا۔ بس اسٹاپوں پر لوگوں کا ہجوم دیکھنے میں آیا اور بیشتر شہری بسوں کا
انتظار کر کے گھروں کو لوٹ گئے۔ عوام کو مجبوراً رکشا اور ٹیکسیوں میں سفر
کرنا پڑا جو صورتحال کا فائدہ اٹھا کر منہ مانگا کرایہ وصول کرتے رہے
سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں حاضری نہ ہونے کے برابر تھی، تعلیمی اداروں
میں بھی حاضری کم رہی۔
حکومت نے اپنی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے دباﺅ پر تیل قیمتوں میں
ہونے والے اضافے کا 50 فیصد واپس لے کر اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ یہ
اضافہ بلا جواز تھا اور اس کے بغیر بھی ملک کو اچھے طریقے سے چلایا جاسکتا
تھا۔ لہٰذا وزیر خزانہ کی جانب سے اضافے کو ناگزیر قرار دینے کی باتیں تین
روز بعد ہی حقیقت کے برخلاف ثابت ہوئیں۔ اس اقدام سے حکومتی ٹیم کی
کارکردگی اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ ملک و قوم سے وفاداری پر بھی کئی سوالات
جنم لیتے ہیں۔
حکومت نے اعلان کردہ اضافے کو واپس لے کر قوم کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ
اسے خود عوام کا کوئی احساس نہیں البتہ دباﺅ ڈال کر حکومت سے عوامی مفاد
میں کام ضرور کرائے جاسکتے ہیں۔ اگر پی پی حکومت تیل کی قیمتیں بڑھانے سے
قبل افہام و تفہیم سے کام لیتی اور اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے
کے بعد کوئی فیصلہ کرتی تو کراچی میں ہڑتالوں اور ایسی صورتحال کی نوبت ہی
نہ آتی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ملک و قوم کا کوئی
خیال ہی نہیں ہے اگر حکومت کو عوام کا احساس ہوتا تو وہ پہلے ہی قیمتوں میں
اتنا ہی اضافہ کرتی جو ناگزیر تھا لیکن عوام کو فائدہ پہنچانے کی بجائے
اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی۔ جب آنکھ دکھائی گئی تو حکومت کو یکدم
عوام کو ریلیف دینے کا خیال آگیا۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے
کہ حکومت صرف احتجاج اور دباﺅ کی ہی زبان سمجھتی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو جگ ہنسائی
کے سوا کچھ نہیں ملا۔ حکومت نے فیصلوں کو واپس لینے کی اپنی روایت برقرار
رکھی۔ اس سے قبل بھی تیل قیمتوں میں اضافے کے خلاف اتحادی جماعتوں نے
مزاحمت کی تھی جس کے بعد حکومت کو اضافہ واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
بعض مبصرین نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے مذاکرات کو ڈرامہ قرار دیتے
ہوئے کہا ہے کہ طے شدہ پالیسی کے تحت دونوں جماعتوں کی ”انڈراسٹینڈنگ“ پہلے
ہی ہوگئی تھی، حکومت بھی تیل کی قیمتوں میں اتنے اضافے کی خواہاں تھی جس
میں وہ کامیاب رہی۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے حامیوں کو اطمینان
دلانے کے لیے ایک اور اچھا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ حکومت نے بظاہر متحدہ کے
مطالبے پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے اس کے حکومت میں شامل
رہنے کا جواز ضرور پیدا کردیا ہے جس کے بعد ایم کیو ایم کی وفاقی کابینہ
میں شمولیت کے بھی امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
ان حالات میں جب عوام معاشی طور پر نڈھال ہوچکے ہیں، بجلی کے ہوشربا بل، بے
روزگاری، قتل و غارتگری، تشدد زدہ لاشوں کا روز ملنا اور اس پر مستزاد
پیٹرول بم کا شہریوں پر گرانا کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں۔ اگر حکمران
مہنگائی کے خلاف جدوجہد اور قوم کو ریلیف پہنچانے میں واقعی مخلص ہیں تو
تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بجائے وسائل بڑھانے کے لیے ٹیکس نیٹ کی توسیع،
امیر طبقے اور زرعی شعبے پر انکم ٹیکس کے فوری اطلاق پر توجہ کیوں نہیں
دیتے، قوم کو مہنگائی کے خلاف قربانی کا درس دینے والے اپنے غیر ترقیاتی
اخراجات میں کمی کرنے پر کیوں راضی نہیں؟ وزراء اور بیوروکریسی کے اللوں
تللوں کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جارہا؟
ہر بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے عوام کا معاشی قتل کوئی درست رویہ
اور طرز عمل تو نہیں۔ خدارا! حکمران ایسے اقدام تو نہ کریں جس سے ہر شے
مہنگی اور عوام اذیتوں کا شکار ہوجائیں۔ اگر معاشی حالات دگرگوں ہیں تو
سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ مغلیہ انداز حکمرانی کو تبدیل
کردیا جائے یا ہم معجزے کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے خود کو
حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟ |