بھارت میں دو قومی نظریہ کی جیت

نریندرا مودی کو قوم پرستی کے نام پرحاصل ہونے والی حالیہ جیت نے بہر صورت دو قومی نظریے کی تصدیق کر دی ہے ۔قوم پرستی پر لڑے گئے ان انتخابات کے نتائج سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک نہیں بلکہ ہندو راج کے نظریے پر قائم ایک انتہاپسند ہندور یاست ہے ۔

بھارت میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں بھارتی انتہاپسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے جس کے بعد نریندر مودی کے لیے آئندہ پانچ سال کے لیے اقتدارکی راہیں ہموار ہو چکی ہے ۔ 542 کے ایوان میں بی جے پی 301نشستوں کے ساتھ سرفہرست جبکہ اس کی روائتی حریف سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس او ر اس کے اتحاد کو 92نشستیں حاصل ہوئیںجبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس 100نشستیں ہیں۔یوں تو بی جے پی سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے لیکن بی جے پی کی اتحادی جماعتوں کی نشستیں بھی شامل کر لی جائیں تو یہ تعداد 350تک پہنچ جاتی ہے جو دوتہائی اکثریت سے صر ف 10نشستیں کم ہے ایسی صورتحال میں دیگر سیاسی جماعتیں اہمیت اختیار کر گئی ہیں جو ممکنہ طور پر حکومتی پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں گی اور یوں قانون سازی کی راہ میں حائل دو تہائی اکثریت کی رکاوٹ بھی دو ر ہو جائے گی ۔وزیراعظم عمران خان نریندرا موددی کی جیت پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ مودی ماضی کی غلطیاں دہرانے کی بجائے آئندہ وقت میں خطے میں انسانی ترقی و خوشحالی اورامن کے قیام کے لیے ملکر کام کریں گے ۔

نریندرا مودی کو قوم پرستی کے نام پرحاصل ہونے والی حالیہ جیت نے بہر صورت دو قومی نظریے کی تصدیق کر دی ہے ۔قوم پرستی پر لڑے گئے ان انتخابات کے نتائج سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک نہیں بلکہ ہندو راج کے نظریے پر قائم ایک انتہاپسند ہندور یاست ہے ۔ مودی نے بھی سیاسی مہم میں وہی طریقہ استعمال کیا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے، پوتن نے روس کو کھویا مقام واپس دلانے، شی جنپنگ نےچینی عوام کی نئی قوت دینے اور نتن یاہو نے اسرائیل کو ایک بار پھر سے اقوام عالم کے لیے روشنی کا میناربنانے کے نام پر الیکشن جیتا۔مودی نے بھی اپنی انتخابی ریلیوں میں کھوئی ہوئی عظمت کے حصول اور رام راج قائم کرنے کی بات کی اور یہ بیانیہ عوام کو پسند آیا ہے۔ بھارت کی معیشت جو کہ ان دنوں انتہائی سست روی کا شکار ہے، لوگوں کی آمدن میں تیزی سے کمی ہوئی ہے اور روزگار کی صورت حال جو گذشتہ چار عشروں میںسب سے بد تر ہے ،ملک میں ہر ماہ دس لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے ،حکومت اب تک اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہی لیکن اس کے باوجود محض پاکستان دشمنی پر مبنی بیانیے پر مودی کی فتح بھارتی عوام کی سوچ کی عکاس ہے ۔

یہ امر دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں کہ بھارتی قیادت انتہا پسندی کے فروغ میں معاون رہی ہے جس کی واضح مثال مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ، بھارت کی اقلیتوں کے ساتھ غیر مساویانہ اور نفرت پر مبنی رویہ اور سیکولراز م کے دعویداری کے برعکس عملی میدان میں ہندو مذہب کی ترویج نمایاں ہے ۔ بی جے پی جو آر ایس ایس کی ذیلی سیاسی تنظیم ہے جس کا سیاسی پس منظر مسلمانوں اور بھارت میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کے کشت وخون سے منسلک ہے ۔صر ف یہی نہیں بلکہ انتہاپسندی اور شدت پسندی کی ترویج میں بھارتی ترقی پسند ہندو بھی محفوظ نہیں رہے ۔نتھورام سنگھ کے ہاتھوں بھارتی مہاتما گاندھی کا قتل اس جماعت کے شدت پسندانہ رویوں کی عکاس ہے ۔مودی نے اپنے انتخابات میں بھارتی عوام کی نفسیات جانتے ہوئے پاکستان مخالف اور گریٹر ہندو اسٹیٹ کے منشور پر انتخابی مہم چلائی ۔اس ضمن میں بالاکوٹ پر فضائی حملے کو بھارتی قیادت کے دلیرانہ اقدام سے تشبیہ دیتے ہوئے اسے جیت کے کارڈ کے طور پر استعمال کیا ۔ مسٹر مودی کی مقبولیت جو ریاستی انتخابات میں لگاتار ہار کی وجہ سے گر چکی تھی، وہ ایئر سٹرائک کے بعد کافی حد تک بہتر ہو گئی۔

خطے میں بھارت آبادی کے لحاظ سے چین کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے اس ملک کی قیادت ایک دفعہ پھر ایک انتہاپسند جنونی کے ہاتھ میں آنے کے بعد خطے کے دیگر ممالک کے لیے کسی تشویش سے کم نہیں اور اس جیت کا سب سے بڑا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ سیاسی اور معاشی طور پر داخلی خلفشار کے شکار پاکستان کیلئے آئندہ پانچ برس تک نریندرا مودی اور ان کے مشیر سلامتی اجیت دوول کے ساتھ نمٹنا ایک چیلبنج کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ۔نریندرا مودی، بھاری اکثریت سےجیتنے کے بعد علاقائی طاقت بننے کے ایجنڈے کو پوری قوت سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے، مقبوضہ کشمیر کی حالت مزید خراب ہو گی،بھارتی آئین میں 35اے کی شق کے خاتمے کے بعد کشمیر کی حیثیت بدلنے کی کوشش کی جائے گی ، پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اورخطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی آئے گی اور فرانسیسی ساختہ جیٹ لڑاکا طیاروں اور روس سے ایس 400 کے حصول سمیت ، ہتھیاروں کی خریداری کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ پاک ایران بارڈر پر امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی اور افغانستان میں پہلے سے موجود غیرمستحکم حالات اور مشرقی سرحدوں پر ممکنہ بھارتی جارحیت معاشی بحرا ن میں گھرے ہوئے پاکستان کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنے گی ۔ایسی صورتحال میں افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان کامیاب امن معا ہدہ بہر حال پاکستان کیلئے ریلیف ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان سے امریکہ کا انخلائ، بھارت کو اس امریکی چھتری سے محروم کر دے گا جس کے سائے میں اس نے افغان سرزمین پر پاکستان کے خلاف ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ گو کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھارتی وزیراعظم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ بھارت روائتی طرزحکومت سے ہٹ کر خطے کی غریب عوام کی بہتری اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ملکر کام کریں گے لیکن بھارت کی روائتی ہٹ دھرمی اور بغض پاکستان کی تاریخ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے ۔ایسی صورتحال میں داخلی سیاسی و معاشی بحران میں گھری ہوئی مملکت خداداد پاکستان کے ذمہ داران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور اختلافات کو بھلا کر آئندہ ممکنہ غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ملی یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور وطن عزیز کو درپیش خطرات سے نکالنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر ملکی استحکام کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کریں۔

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.