یہ کہاوت تو سب نے سنی ہوگی کہ سیاست بڑی بے رحم
ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتااس کا مشاہدہ تو کم و بیش اکثر لوگوں
کوہوتارہتاہے۔ جو آج پاور فل سیاستدان ہیں۔۔ان میں بیشتربے پناہ اختیارات
کا مرکزو محورہیں ۔۔لیکن کل ان کا حال ایسا ہوتاہے
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پو چھتا نہیں
لگتاہے آزاد کشمیر کے متوقع عام انتخابات بڑے معرکۃ الارا ہوں گے تحریک ِ
انصاف ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ ماضی کی حکمران پارٹی مسلم
کانفرنس میدان میں ہیں حالات تو یہی بتاتے ہیں کسی جماعت کا کسی کے ساتھ
اتخابی اتحاد نہیں ہوگا چونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف ِآخر نہیں اس لئے کچھ
نہیں کہا جا سکتا سیاست کے بارے میں ایک اور بات بڑی مشہورہے کہ آج کے دوست
کل کے دشمن ہوتے ہیں متعددبار دیکھاگیاہے ایک دوسرے کے حلیف ۔۔جن کے درمیان
بہت سی چیزیں،پارٹیاں اور قدریں مشترک ہوتی ہیں ان پر ایک وقت ایسا بھی
آتاہے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں ، مد مقابل آکر۔۔۔ ایک دوسرے کے
خلاف اتنی گھٹیا باتیں اور اس قدر گھناؤنے الزام لگاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی
اور یوں یہ تماشا ساری دنیا دیکھتی ہے۔۔۔تیسری بات بڑی اہم ہے کہ سیاست میں
کوئی چیز حرف ِ آخر نہیں ہوتی ایک دوسرے کو غدار،سیکورٹی رسک اور نہ جانے
کیا کیا قرار دینے والے بہن بھائی بھی بن سکتے ہیں کل تک جو لوگ جوتیوں میں
دال بانٹا کرتے تھے شِیروشکرہوجاتے ہیں لوگ حیرت سے ان کو تکتے رہ جاتے ہیں
پاکستان میں جب سے نظریاتی سیاست دم توڑنے لگی ہے اور مفاہمتی سیاست کاآغاز
ہواہے بیشتر سیاستدانوں کاکام آسان ہوگیاہے ۔۔۔موجودہ سیاست میں ایک اور
ستم ظریفی پروان چڑھ رہی ہے کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کیلئے نظریات،
وفاداری اورجماعتوں سے ادھر ادھر جانا فیشن بنالیا تھا لیکن پھر بھی شرفاء
، اچھے کردار کے حامل سیاستدان اوراعلیٰ اقدارکے حامی اسے برا سمجھتے تھے
کچھ اب بھی برا خیال کرتے ہیں شایدان کے خیال میں سیاست میں قربانی دینا
پڑتی ہے یقینا سیاست میں قربانیاں اعلیٰ ظرف کے لوگ ہی دیتے ہیں کہ اچھے
بروں میں یہی امتیازکا ایک معیارہے ۔ مسلم کانفرنس کے صدر سردارعتیق
۔آزادکشمیرکے مجاہد ِ اول سردار عبدالقیوم کے فرزند ِ ارجمند ہیں کشمیرکے
لئے ان کی خدمات،نظریات اورقربانیاں قابل ِ تحسین سمجھی جاتی ہیں اسی حوالے
سے ان کا احترام بدترین مخالف بھی کرتے ہیں۔۔ان کی جماعت مسلم کانفرنس کی
ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ جب سے میاں نواز شریف سیاست میں آئے ہیں سردار
عبدالقیوم کے ان سے گہرے روابط تھے ۔ اس اعتبارسے وہ ان کے ہم خیال اور
فطری حلیف سمجھے جاتے تھے اس بات کا مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم کو
بہت فائدہ ہوا کہ میاں نواز شریف نے اپنی حریف جماعت پیپلزپارٹی کے مقابلے
میں ان کو بہت پرموٹ کیا اور اس طرح آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کا طوطی
بولنے لگا اسی وجہ سے سردار عبدالقیوم مسلم لیگی ہم خیال اور پیپلز پارٹی
کے تمام مخالفین کے مرکزو محور بن گئے اور یوں متعدد بار سردار عبدالقیوم
اوران کے فرزند ِ ارجمند سردارعتیق آزادکشمیرکے وزیر ِ اعظم بنے۔۔میاں نواز
شریف تو سردار عبدالقیوم کو سیاسی مرشد قرار دیتے رہے ان کے درمیان تعلقات
میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی گذاررہے
تھے۔ کہا جاتاہے معاملات پر سردار عتیق کی گرفت مضبوط ہوگئی ان کا میاں
نواز شریف سے اتنا قلبی تعلق نہیں تھا جتنا ان کے والد کا تھا پھر سردار
عبدالقیوم خان کی رحلت کے بعد سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا ۔۔ مسلم
کانفرنس کے رہنماؤں نے آزادکشمیرمیں اپنی حکومت بنانے کیلئے میاں نوازشریف
کے سیاسی مخالفین کے ساتھ’’ مفاہمتی سیاست‘’کا آغازکیا جس سے جلاوطن
رہنماؤں کو شاک لگا۔۔میاں نواز شریف نے اسی دن تہیہ کرلیا تھا سردار فیملی
پرتکیہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جب آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن نے عملی سیاست
کاآغازکیا منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیااینٹی پیپلزپارٹی دھڑے ،سیاستدان اور
گروپ تقسیم در تقسیم ہوگئے اور آزادکشمیرکی سیاست چی۔۔چوں ۔۔چاں کا مربہ بن
کررہ گئی اس کا رزلٹ یہ نکلامیاں نوازشریف اور سردار فیملی کے درمیان ’’ٹٹ
گئی تڑک کرکے‘‘۔۔۔اب آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن ایک الگ قوت ہے اورمسلم
کانفرنس الگ قوت۔۔۔ان سارے معاملات میں سب سے بڑا نقصان مسلم کانفرنس اور
اس سے زیادہ سردار عتیق کا ہوااب آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن کا شمار ایک بڑی
سیاسی پارٹی کے طورپر ہوتاہے جس کے صدر فاروق حیدر جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے
جاتے ہیں جو اینی کامیاب حکمت ِ عملی کے تحت خودکو وزیر ِ اعظم
آزادکشمیربنانے کی حدتک کامیاب رہے وہ میاں نواز شریف کے انتہائی قریب بھی
ہیں اور آزادکشمیرکے موجودہ سیاسی بحران میں ایک فریق بھی۔۔۔مسلم کانفرنس
اس سیاسی صورت ِ حال میں سب سے زیادہ بے چین ہے اسے کچھ سجائی نہیں دے رہا
شاید اسی بناء پرسردار عتیق چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں
جماعتوں سے مایوس لوگ ایک بار پھر ان کے گرد اکھٹے ہو جائیں دوسرا یہ کہ
انہیں پاکستان کی عسکری قوتوں کی حمایت حاصل ہو جائے۔۔۔لیکن وہ یہ بات بھول
گئے کہ اب آزادکشمیر میں تحریک ِ انصاف بھی ایک سیاسی وقت بن چکی ہے جس کا
انذازہ انہیں عام انتخابات میں بخوبی ہو جائے گا ۔ آج سیاسی حالات اورقومی
منظر نامہ یکسر تبدیل ہورہے ہیں گلے شکوے، شکائتیں،طعنے کمزورلوگوں کے
ہتھیارہیں۔۔۔ سیاستدانوں کو ڈکٹیٹروں کی حمایت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے،سستی
شہرت،فوجی چھتری کی پناہ یا حمایت کی خواہش اب قوم کے دل کو یہ بات
پسندنہیں آتی۔۔ کیا فرض کرلیا جائے ؟ایسا کرنے والے اپنے سیاسی مستقبل سے
مایوس ہوگئے ہیں حالانکہ اپنے مخالفین کو فیس Faceکرنا،انہیں ٹف ٹائم دینا
اور جھپٹنا ،پلٹنا۔پلٹ کر جھپٹناہی اصل سیاست ہے آج کے دورمیں جو سیاستدان
ایسا نہیں کرتا OUTہوجاتاہے مسلم کانفرنس کی کوشش ہوگی کہ مسلم لیگ ن سے
اتحاد،الحاق یا انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہوجائے لیکن مسلم لیگ ن کے رہنما اس
امکان کو بارہا مرتبہ مسترد کرچکے ہیں کوئی شاٹ کٹ ڈھونڈنے کی بجائے اگر
مسلم کانفرنس کو سیاسی بنیادوں پر دوبار ہ منظم اور متحرک کیا جائے تو اس
کا فائدہ یقینی ہوگا پیشگی ایک پیش گوئی یہ بھی ہے اس مرتبہ آزاد کشمیرکے
عام انتخابات میں بڑے گھمسان کارن پڑے گا تحریک ِ انصاف کے بیرسٹر سلطان
تحریک ِ انصاف کے پلیٹ فارم پراپنے حریفوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ٹف
ٹائم دینے کیلئے حکمت ِ عملی ترتیب دے چکے ہیں ان حالات میں سردار سکندر
حیات کیا کریں گے وہی بہتر جانتے ہیں لیکن یہ الیکشن کسی کیلئے بھی اتنے
آسان نہیں ہوں گے دو حکمران جماعتوں مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی میں ٹکڑاؤں کے
نتیجہ میں بیرسٹر سلطان اورسردار عتیق الرحمن حالات سے فائدہ اٹھانے کی
کوشش کریں گے ان کو حالات سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیے ورنہ برسوں پہلے داغ
دہلوی نے جو کہا تھا سچ ثابت ہوگا
کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہے
وہی بتوں کی شکایت،وہی گلہ دل کا
ایک خاص بات یہ ہے کہ آزاد کشمیرکے عام انتخابات ابھی دور ہیں لیکن
سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف اتنی گندی زبان استعمال کررہے ہیں کہ پڑھنے
اورسننے والے شرم سے پانی یانی ہوتے جارہے ہیں ان میں کچھ لوگ ساری حدیں
پارکرچکے ہیں ایسے لوگ قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے ہیں توپھر توبہ
ہی بھلی الیکشن اپنی جگہ پر لیکن ایسا طرز ِ عمل تو کوئی دشمنوں کیلئے بھی
روا نہیں رکھنا پسندکرتا سیاسی مخالفین کی بجائے جنگ کا میدان غاصب بھارتی
حکمرانوں کیلئے گرم کیا ہوتا تو آج شاید مقبوضہ کشمیر آزادہوچکا ہوتا -
وزیر ِ اعظم راجہ فاروق حیدرکی آیڈیو لیکس نے ان کی اخلاقی کریڈبیلٹی کو
شدید متاثرکیاہے حکمران جماعت مسلم لیگ ن آڈیو لیکس کا دفاع کرنے میں
ناکامی وزراء سمیت کوئی ممبر اسمبلی وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کے دفاع میں
کوئی نہ آیا اب ان کے ’’اعتراف ِ گناہ‘‘ اور معافی نے معاملہ کو منطقی
انجام پر پہنچا دیاہے اس کے نتیجہ میں کیا ہوگا اس کا فیصلہ عام انتخابات
میں ہوگا بہرحال بیرسٹر سلطان، سردار سکندرحیات،سرادار عتیق الرحمان سمیت
کئی رہنما وزیر ِ اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکے ہیں ان کا کہناہے
آخر سیاسی مخالفین بھی آپ کے اہل ِ وطن ہیں کچھ اخلاق کے تقاضے ہوتے ہیں
کوئی شر م ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے سیاستدان کو اخلاق باختہ بالکل نہیں
ہونا چاہیے۔ |