مودی کی تقریب حلف برداری میں کیا عمران خان کو مدعو کیا جائے گا۔؟

23؍ مئی 2019ء بھارتیہ جنتا پارٹی کی شاندار کامیابی نے پھر ایک مرتبہ نریندر مودی کو وزیر اعظم ہند کی کرسی پر براجمان ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ 16؍ مئی 2014 ء کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد 26؍ مئی 2014ء کو پندرہویں وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے حلف لیا تھا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ہندوستانی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کے موقع پر سارک ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا گیا تھا اس تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے نریندرمودی کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے انکی تقریب حلف برداری میں شرکت کی تھی ان کی اس شرکت پر پاکستان میں انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ہندو پاک کے درمیان ان دونوں قائدین نے ایک نیا سنگ میل رکھا اور پھر ایسا محسوس ہونے لگا کہ دونوں وزراء اعظم کے درمیان قدیم دوستی رہی ہے کیونکہ نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر نریندر مودی نے پاکستان پہنچ کر انہیں مبارکباد دی تھی اور پھر دونوں نے ایک دوسرے کی ضعیف والداؤں کا خیال کرتے ہوئے انہیں تحفے پیش کئے۔ نواز شریف اپنی وزیراعظم کی معیاد پوری نہ کرسکے مختلف الزامات کے تحت انہیں اپنی وزارتِ عظمی کی کرسی کو چھوڑنا پڑا اور انکے بعد پاکستان میں جس طرح کا ماحول بنا اور اپوزیشن جماعت کے قائد عمران خان نے جس طرح پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنانے کا عزم کیا اس سے پاکستانی عوام نے انہیں اقتدار پر لاکھڑا کیا آج پاکستان میں عمران خان کی حکومت ہے جو واقعی ایک نیا پاکستان کی سمت گامز ن دکھائی دیتا ہے ۔ خیر اب جبکہ ہندو پاک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہے ، سرجیکل اسٹرائیک کے بعد ملک میں نریندر مودی کی پالیسی نے بی جے پی کو دوبارہ اقتدار پر لاکھڑا کیا اور اس موقع پر نریندر مودی وزیر اعظم ہند کی اپنی دوسری میعاد کے موقع پر اس مرتبہ بھی سارک ممالک کے سربراہان کو مدعو کرتے ہیں یا نہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا اگر سارک ممالک کے سربراہان خصوصاً پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو مدعو کرتے ہیں تو یہ ہندو پاک کے درمیان پھر سے ایک مرتبہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نئی کوشش قرار پائے گی اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں کمی اور خوشگوار تعلقات کی سمت ایک قدم سمجھا جائے گا۔بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی کو بی جے پی کی شاندار کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔ ان کے علاوہ کئی عالمی قائدین کی جانب سے نریندر مودی کو مبارکبادی کے پیامات کا سلسلہ جاری ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہوگئی تھی کہ اس میں تمام سارک ممالک کے سربراہان نے شرکت کی تھی جسے ’’عظیم سفارتی تقریب‘‘ سمجھا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کی جانب سے شیریں شرمین چودھری اسپیکر نے اس دعوت کو قبول کیا تھا کیونکہ حسنہ واجد کا جاپان کا سفر پہلے ہی سے طے تھا۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی ، بھوٹان کے وزیراعظم شیرنگ توبگے،مالدیپ کے صدر بداﷲ یمن عبدالقیوم ، موریشس کے وزیر اعظم نوین رمگولم، نیپال کے وزیر اعظم سشیل کوئیرالا نے نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرکے ہنداور سارک ممالک کے درمیان مزید بہتر تعلقات کے لئے کوشش کی۔ سری لنگا کے صدر مہندراج پکش نے بھی اس تقریب میں شرکت کی جس کے بعد انہیں سری لنکا میں زبردست تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ وزیراعظم نریندر مودی جو دوسری میعاد کے لئے حلف کب لینگے ابھی یہ طئے نہیں پایاہے البتہ این ڈی اے نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں پھر سے ایک مرتبہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو حیران کردیا ہے ۔

نریندر مودی اس مرتبہ سارک سربرہان کے علاوہ مزید بین الاقوامی سربراہان کو بھی اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے جس طرح اپنی پہلی میعاد میں عالمی سطح پر سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دے کر جس طرح بین الاقوامی دورے کئے اور کئی عالمی ممالک کے بڑے بڑے سربراہان کو اپنا گرویدہ بنایا اس سے ان کی سیاسی قیادت کی وسیع النظری ظاہر ہوتی ہے یہی نہیں بلکہ انہیں عالمِ عرب میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور انہیں سعودی عرب نے وزیر اعظم نریندر مودی کو دورہ سعودی عرب کے موقع پر باوقارسویلین سعودی ایوارڈ سے نوازا ، مودی امریکی صدرٹرمپ کے بھی پسندیدہ سیاسی لیڈر رہے ہیں۔ ہاں ملک میں فرقہ پرستی کو بھی نریندرمودی کی پہلی میعاد میں مواقع فراہم ہوئے ، گاؤکشی، لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو جس طرح لنچنگ کے ذریعہ ہلاک کیا گیا یہ ہندوستانی تاریخ میں مودی کے دور حکومتمیں فرقہ پرستوں کی جانب سے ظالمانہ واقعات رہے ہیں جو تاریخ کا ایک حصہ بن چکے ہیں ۔ طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ بھی مودی نے اٹھایا اور اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا ، اب ہوسکتا ہیکہ اس مرتبہ انکی حکومت اس بل کو کسی نہ کسی منظور کروالے۔ خیر مسلمانوں کو کسی سربراہ سے گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اﷲ تعالیٰ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوکر رہتا ہے البتہ ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے جمہوری حق کو حاصل کرنے اور ملک میں پورے امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ ملک میں اگر کہیں پر مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستی کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو اسے پورے منظم طریقہ سے ملکی سطح پر آواز اٹھائیں انشاء اﷲ العزیز یہ ہم تمام مسلمانوں کیلئے بہتر ہوگی۔ ملک میں ہندوتوا اقتدار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمان اپنی حفاظتِ خود اختیاری کے لئے ہمیشہ تیار رہے ، دشمنانِ اسلام ہمیشہ سے رہے ہیں اور ہمیشہ رہینگے ۔ چاہے بی جے پی ہو یا کانگریس یا کوئی سیاسی جماعت ۔ مسلمانوں کو اپنے جمہوری حق کے حصول کے لئے آواز اٹھانی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے جس طرح کوشش کرنی ہے کرکے اسے حاصل کریں۔ ملک میں کئی اہم اہم قائدین کو کامیابی حاصل ہوئی اور کئی نامور سیاست دانوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ہار جیت ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے ، حیدرآباد سے بیرسٹر اسد الدین اویسی نے شاندار کامیابی حاصل کی ۔ الحمد ﷲ مسلمانوں کے اس شہر کی قیادت مجلس اتحاد المسلمین کررہی ہے ہم اپنے سیاسی قائدین کی سربلندی اور نیک تمناؤں کے ساتھ دعا گو ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں سے بھی مسلم سیاسی قائدین نے کامیابی حاصل کی ۔ اﷲ تعالیٰ ان تمام مسلم قائدین کو متحدہ طور پر ایوان پالیمنٹ میں مسلمانوں کے مسائل کے لئے آواز اٹھانے اور فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.