انتخابی نتائج اور ملت اسلامیہ کا فرض منصبی

۲۰۱۴؁ میں وزیراعظم نریندر مودی نے چانکیہ کے علاوہ سارے بڑے ایکزٹ پولس کو غلط ثابت کرتے ہوئے غیر معمولی جیت درج کرائی ۔ اس بار وہ اے بی پی کے علاوہ سارے لوگوں کی توقعات پر پورا اترے ۔ ۱۹ مئی کی شام کو یہ پیشن گوئی ناقابل یقین تھی لیکن ۲۳مئی(۲۰۱۹؁) میں وہ صد فیصد درست نکلی۔ فی الحال یہ چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ کانگریس مکت بھارت بنا یا نہیں کیونکہ یہ فتح پہلے سے زیادہ مشکل اور بڑی ہے۔ ۲۰۱۴؁ میں عوام کو صرف ایک خواب بیچا گیا تھا لوگ اس کے فریب میں آگئے ۔ وہ خواب پچھلے پانچ سالوں میں چکنا چور ہوگیا اس کے باوجود عوام سے پھر ایک بار ۵ سال کا موقع لینے کے لیے بڑی چالاکی اور محنت کی ضرورت تھی۔ مودی و شاہ کی جوڑی نے وہ کام کردکھایا اور بی جے پی کو عظیم کامیابی سے ہمکنار کردیا۔

بی جے پی چونکہ ایک مسلم مخالف جماعت ہے اس لیے اس کی فتح کو مسلمانوں کی شکست کا مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کو ہرانا تنہا مسلمانوں کے نہ تو بس میں تھا اور ان ہی ذمہ داری تھی ۔ اس موقع پریہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس ملک کا مسلمان صرف ایک سیاسی اکائی نہیں بلکہ داعی گروہ بھی ہے ۔ یہاں کے لوگوں تک اسلام کا پیغام رحمت پہنچانا اس کا فرض منصبی ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے محض سیاسی جوڑ توڑ کافی نہیں ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنےکے لیے ملک میں رہنے والے مدعوئین کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ انتخابی نتائج اس مقصد میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ وطن عزیز کے باشندوں عوام و خواص میں تقسیم کرکے ان کا الگ الگ جائزہ لیا جانا چاہیے ۔

عوام کے سلسلے میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ان کی اکثریت معاشی اور سماجی سطح پر محرومیت کا شکار ہےجس کی جڑیں پانچ ہزار سال قدیم ذات پات کے نظام میں پیوست ہیں ۔ مسلمانوں اور انگریزوں کی حکومتوں نے اس میں تبدیلی کی کوشش کی او رانہیں جزوی کامیابی بھی ملی ۔ مثلاً جن لوگوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا تھا ان علم کی روشنی سے ہمکنار کیا گیا ۔ مغلیہ سلطنت میں جب ملک سونے چڑیا بن گیا تو اس کا فائدہ سبھی کو ملا لیکن وہ ورن آشرم کے جابرانہ نظام کو پوری طرح نیست و نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ آزادی کے بعد ذات پات کی تفریق کا فائدہ اٹھا کر سیاست تو بہت ہوئی لیکن اس سے زمینی حقائق پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ جبر و استحصال کے مارے لوگوں کو ’اچھے دنوں ‘ کی امید دلا کر ان ووٹ حاصل کرلینا آسان ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ملک سے صحیح معنوں میں غربت و افلاس کا خاتمہ نہیں چاہتی۔

کانگریس کو برسوں اقتدار میں رہی ۔ اس نے غریبی ہٹاو کا نعرہ تولگایا مگر بات آگے نہیں بڑھی۔ کمیونسٹ پارٹی کو مغربی بنگال میں طویل عرصہ حکومت کی لیکن وہاں کے عوام بھی افلاس کا شکار رہے۔ بی جے پی کو دو مرتبہ حکومت کرنے موقع ملا مگراس نے بھی شائننگ انڈیا اور ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی سنجیدہ سعی نہیں کی ۔ اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں تھا ۔ یہ جانتے ہیں کہ مساکین کو انتخاب کے وقت نمائشی کام جیسے بجلی نہ سہی تو کھمبا، قرض معافی نہ سہی ۶ ہزار مددکی پہلی قسط ۲ ہزار اور خالی سلنڈر کے ذریعہ بہ آسانی بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ کسی گاوں میں دس گھر بھی بن جائیں تو باقی سو لوگ اس امید میں اپنا ووٹ دے دیتے ہیں کہ دیر سویران کو بھی گھر مل جائے گا ۔ لوگوں پوری طرح مایوس ہونے میں بہت لگتا ہے۔ اس وقت تک ایک پارٹی حکومت کرتی ہے اور پھر چند سال بعد جب لوگ اس کی دھوکہ دھڑی کو بھول جاتے ہیں تو پھر سے اقتدار میں آ جاتی ہے۔ اس بار بی جے پی کو اس کا فائدہ ملا لوگوں نے سوچا ۵ سال بہت کم تھا انہیں کچھ اور وقت دینا چاہیے۔

اس انتخاب کا ایک سبق یہ ہے کہ اگر کسی حکومت کو عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں کی جانب سے ہٹانی ہو تو قوم پرستی کی شراب میں نفرت گھول کر پلادیا جائے تو لوگ اپنے حقیقی مسائل کو بھول جاتے ہیں ۔ اسی لیے پلوامہ اور ائیر اسٹرائیک کو خوب بھنایا گیا اور پاکستان کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اپنا الو سیدھا کیا گیا۔ یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور لوگوں نے نوٹ بندی، جی ایس ٹی ، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے بنیادی مسائل کو یکسر فراموش کردیا ۔ قوم پرستی کا نشہ اتارنے کے لیے وحدت بنی آدم کو تسلیم کرنا لازم ہے۔ ہمارے سماج میں عقیدے کی سطح پر شرک و بت پرستی عام ہے۔ اس لیے آسارام باپو جیسےلوگوں کو لاکھوں بھکت مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اندرا گاندھی اور نریندر مودی جیسے سیاسی رہنماوں کو دیوتا سمجھ لیا جاتا ہے۔ کسی فرد کوعقیدت کی عینک سے دیکھا جائے تو اس کا ہر عیب خوبی نظر آنے لگتا ہے۔ فی الحال ہندووں کی ایک اچھی خاصی تعداد مودی جی انسان نہیں دیوتا سمجھتی ہے اور سیکڑوں بتوں کی پرستش کرنے والوں کے لیے ایک اضافہ معمولی سی بات ہوتی ہے۔ سیاست داں اس کا فائدہ اٹھانا خوب جانتے ہیں اور انتخابی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ شخصیت پرستی کے اس فریب سے نکلنے کے لیے توحید پر مبنی خدا پرستی کے سوا کوئی نسخۂ کیمیا نہیں ہے۔
 
خواص کی اکثریت اندھی عقیدت کے بجائے الحاد کی قائل ہے۔ اس نظریہ نے انہیں مادہ پرست بنادیا ہے۔ لکشمی کے ان کے پجاریوں کو دھن دولت کے استعمال سے بہ آسانی اپنا ہمنوا بنایا جاسکتا ہے ۔ ان میں سے اکثر اخلاقی حدود و قیود کی پابند نہیں ہے ۔ وہ اپنے مفاد کی خاطر حکمراں طبقہ کے جھوٹ کو پھیلاکر ان کی راہ استوار کرتے ہیں ۔ اس کا نظارہ میڈیا ہاوس کے مالکان اور صحافیوں کے اندر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تصور آخرت کےبغیر دنیا پرستی سے نجات ممکن نہیں ہے۔ اس طرح کی ذہنیت کے حامل لوگوں کے سامنے دین اسلام کی حقانیت کو پیش کرکے انہیں دنیوی اور اخروی کامیابی کی طرف بلانے سے قبل ان کی ذہنیت کو سمجھنا اور ان رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ عام لوگوں کے مسائل میں دلچسپی لینا اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف کماحقہُ احتجاج کرنا بھی ملت کی ذمہ داری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ملک کے اندر امت اقلیت میں ہے لیکن وہ دوسری بڑی اکثریت اور اس کی آواز کو حکومت نظر انداز کردے تب بھی لوگ تو سنیں گے ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے ملک میں رائج سیاسی نظام ان مسائل کو حل کرنے کی سکت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ اس میں لوگوں کو اپنا حکمراں بدلنے کا موقع ضرور ملتا ہے لیکن اس کے بعد ان کا اختیار عمل ایک خاص مدت تک تک سلب ہوجاتا ہے ۔ اس سیاسی نظام میں کوئی مستقل معیار اخلاق نہیں ہے ۔ بظاہر دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ حکومت عوام کی مرضی سے چلائی جاتی ہے لیکن عملاً منتخب شدہ نمائندے کی مرضی چلتی ہے۔ وہ دستور کو اپنی مرضی سے تبدیل کرسکتا ہے یا بغیربدلے بھی من مانی کرتا رہتا ہے ۔ اندرا گاندھی کو ایمرجنسی لگانی پڑی تھی لیکن مودی جی نے اعلان کیے بغیر اداروں کا وقار پامال کرتے رہے لیکن سیاسی نظام رکاوٹ نہیں بن سکا۔ الہامی تعلیمات سے بے بہرہ اس سیاسی نظام میں حکمراں اپنے آپ کوخالق و مالک کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا بلکہ اپنے آپ کومدت خاص تک مجازی خد اسمجھ کر من مانی کرتارہتاہے ۔ انتخابی کامیابی کے لیے مکر و فریب اورکذب بیانی کو خوبی سمجھا جاتا ہے ۔ خدائے برحق کے آگے جوابدہی کا احساس ہی حکمراں کو جبر و استحصال سے روک سکتا ہے ۔ملوکیت کے دورمیں اقتدار کی خاطر سرکار دربار میں سازش ہوتی تھی او ر حکمراں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے لیکن آج کل انتخاب جیتنے کی خاطرعام لوگوں کو لڑایا جاتا ہے ۔۔ ایسے میں اسلام کےسیاسی نظام کو متبادل کے طورپیش کرنے کی ضرورت ہے جو حکمرانوں کی خرد برد سے آزاد ہو اور حاکم اپنی مرضی کے بجائے الٰہی قوانین کا پابند اور نافذ کرنےوالا ہو۔ اس علاج کے بغیر محض جوڑ توڑ کی مرہم پٹی سے بیمار قوم شفا یاب ہوکر اندرا گاندھی یا نریندر مودی جیسے لوگوں کے ظلم و استحصال چھٹکارہ نہیں پاسکتی ۔ عوام کے رہنماوں کو خدا ترس ہونا چاہیے اوران میں سے اہل ترلوگوں کو منتخب کرکے انہیں اقتدار سونپنا چاہیے تاکہ عدل و قسط قائم ہو۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449631 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.