فوٹیکس پروگرام سے لیبیا تک

یہ سچ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلم خطوں میں وقوع پزیر ہونے والی تمام دہشت گردانہ کاروائیوں ناپسندیدہ مسلم حکمرانوں کے خلاف پرتشدد تحریکیوں ہنگاموں اور بم دھماکوں کے زیادہ تر سانحات میں امریکی ایجنسیوں اور بدنام زمانہ cia اور موساد کا ہاتھ کار فرما ہوتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کیس سے لیکر عالم عرب میں جاری انقلابی تحریکیوں میں امریکہ کا گھناؤنا کردار بے نقاب ہوچکا ہے۔ مغربی میڈیا لیبیا میں جاری تحریک اور ریمنڈ کیس کے متعلق جھوٹ دھوکہ دہی اور فریب کے ریکارڈ قائم کرچکا ہے۔ امریکہ ماضی میں نہ تو پاکستان سمیت امت مسلمہ کا کبھی خیر خواہ تھا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی اقوام مسلم کا دوست بن سکتا ہے۔ امریکی ایجنسیوں نے مسلمان ریاستوں میں ریمنڈ ڈیوس ایسے دہشت گرد ایجنٹوں کا جال بچھا رکھا ہے جو امریکی مفادات کے لئے انسانیت کش وارداتوں سے باز نہیں آتے۔ وائٹ ہاؤس ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تاہم حقیقت کچھ اور ہے امریکی اور برطانوی لیبیا کے خلاف فوجی کاروائی کی غوغہ آرائی کر رہے ہیں۔ ۔ امریکہ کو لیبیائی عوام کی فلاح و بہبود سے سروکار نہیں بلکہ وہ عرب لیگ کے اس اہم ترین ملک پر اپنا پٹھو حکمران مسلط کرنے کی خاطر غلطاں و پیجاں ہے تاکہ تیل و گیس کے خزانوں تک رسائی مل جائے۔ قذافی نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ امریکی مخالفت میں بسر کیا اور یہی وہ جرم ہے جسکی پاداش میں قذافی کو راندہ درگاہ بنانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ ۔ امریکہ کے دوغلے پن کو مغرب کے دو زرخیز دانشوروں رابرٹ اینڈرسن اور لیو جین نے بے نقاب کردیا۔ رابرٹ اینڈرسن اپنے آرٹیکل بعنوان( میں بھی ریمنڈ ڈیوس تھا) میں لکھتا ہے کہ ریمنڈ امریکی جاسوس ہے جو سفارتی ڈھال کی چھتری تلے پاکستان میں امریکی ایمبیسی کے باہر کام کر رہا تھا۔ ریمنڈ کے متعلق امریکی حکومت نے جن حرکتوں کا ارتکاب کیا ہے وہ قابل مذمت ہیں اور یہی وہ عنصر ہے جسکی وجہ سے دنیا کا کوئی ملک امریکہ پر اعتماد نہیں کرتا۔ ویت نام کی جنگ میں جغرافیائی طور پر لاوس کو یہی اہمیت حاصل تھی جو افغان جنگ میں آجکل پاکستان کو حاصل ہے۔ cia کے ایجنٹوں نے لاوس کی خود مختیار عوام کے خلاف خفیہ فوجی کاروائیاں کیں۔ اینڈرسن لکھتے ہیں کہ ایجنٹوں کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ شناختی کارڈ جاری کرتا اور ہمیں ہدایت کی گئی تھی کہ اگر وہ کہیں زندہ دھر لئے جائیں تو اپنے آپکو سفارتی ڈپلومیٹ ظاہر کرو تاکہ سفارتی استثنا کا پتہ پھینکا جائے۔ ویت نام کے پڑوسی ممالک لاوس کمبوڈیا اور تھائی لینڈ میں ایجنٹ روزانہ کی بنیاد پر فوجی آپریشن ایجنٹوں اور ریمنڈ ڈیوس ایسے جاسوسوں کے سپرد تھا۔ ہوائی اڈے ایجنٹوں کے قبضے میں تھے جب کبھی uno اور عالمی میڈیا کے نمائندے ائیر پورٹس پر لینڈ کرتے تو ایجنٹ رفو چکر ہوجاتے تاکہ کسی کی شناخت کا بھانڈہ نہ پھوٹ سکے۔ لاوس میں فوٹیکس پروگرام شروع ہوا۔ جسکے کے تحت امریکی مفادات میں رخنہ ڈالنے والے لوگوں کا سفاکانہ قتل عام کیا جاتا۔ فوٹیکس کے قصاب ایجنٹوں نے انڈو چائنا میں60 ہزار انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا۔ مقامی اور امریکی ایجنٹ لاشوں کے کان کاٹ کر تھیلوں میں جمع کرتے تاکہ افسران بالا کی تسلی و تفشی ہوجائے۔ برطانوی فوجیوں کو گرین بیرٹس کے نام سے جانا جاتا۔ لاشوں کے ڈھیر کی تصویریں بنانے کا کام برطانوی فوجیوں کو سونپا گیا۔ الفریڈ نامی امریکی مصنف کی کتابpolitics of heroine in south asia کے مطابقcia کے قاتل ایجنٹوں کی تنخواہیں منشیات کی تجارت سے کمائی جانیوالی دولت سے ادا کی جاتی تھیں کیونکہ امریکی کانگریس ایسے پروگرامز کے لئے فنڈز منظور نہیں کرتی۔ ائیر امریکہ کے نام سے ویت نام کی شکست کے بعد فلم ریلیز ہوئی جس میںciaکے کالے کرتوتوں, ایجنٹوں کی بربریت, منشیات کی سمگلنگ کی داستانوں اور امریکی فورسز کے مظالم کی تصویر کشی کی گئی۔ فوٹیکس پروگرام روز ویلٹ نے شروع کیا۔اسکے پہلے آپریشن کا نامtp ageks تھا۔cia کے جلادوں نے 1953 میں اس آپریشن کے تحت ایران کی منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مار کر رضا شاہ پہلوی کو بادشاہت کا تاج پہنایا۔ cia کے ایک اور ایجنٹ نے میڈیا کو بتایا کہcia کی قتل و غارت اور دہشت گردی سے وابستہ کاروائیوں کا سچ امریکی قوم تک نہیں پہنچ پاتا ۔ cia کے آدم خور ایجنٹ جوانی میں بڑے شوق سے انسانوں کا خون بہاتے ہیں مگر بڑھاپے میں یہی سفاکیت ایجنٹوں کو ایک پل چین نہیں لینے دیتی۔ اینڈرسن سوال اٹھاتے ہیں کہ امریکہ آج بھی ویت نام والی ڈگر پر چل رہا ہے۔ وہ آہ و فغاں کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ امریکی سرکار کی منافقت کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ ریمنڈ ڈیوس ایسے قاتلوں کے خلاف کون آواز بلند کرے گا؟ جھوٹے ہتھکنڈے کب ختم ہونگے؟cia کب تک اپنے اور دوسرے انسانوں کا خون بہاتی رہے گی؟ مشرق وسطی میں امریکن نواز حکومتوں کے خلاف چلنے والی انقلابی تبدیلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کا جھوٹ ہر کوئی جان چکا ہے۔کوئی ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ امریکی حکومت cia اور فوج مسلسل جھوٹ بول رہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ جھوٹ و فریب کی اس دوڑ میں صدر اوبامہ سب سے آگے دوڑ رہے ہیں۔ جیمز کے مضمون لیبیا کی شورش کا ذمہ دار کون کے مطابق لیبیا میں شرح خواندگی90 فیصد ہے جبکہ قذافی دور سے قبل یہ شرح10 فیصد تھی۔ لیبیا میں خواتین ہر شعبہ زندگی میں کام کر رہی ہیں۔سرکاری عہدوں پر خواتین کی بہتیری تعداد فائز ہے۔ شاہ ادریس اور قذافی دور کا موازنہ کیا جائے تو عوام کو آج شاہ ادریس کے مقابلے میں100 فیصد زیادہ سہولتیں حاصل ہیں۔ قذافی نے ملک کے ہر کونے میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا۔ سرکاری انفراسٹرکچر قابل تعریف ہے۔ قذافی کے خلاف تحریک کا آغاز تریپولی کی بجائے بن غازی سے شروع ہوا ہے جو کئی صدیوں سے نسلی کشیدگی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ لیبیا کی شورش کا مصر اور تیونس کے انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قذافی مخالف تحریک میں دو تنظیمیں نیشنل فرنٹNSFL اور نیشنل کانفرنس NCLOپیش پیش ہیں۔ دونوں کی تشکیل واشنگٹن میں کی گئی۔cia تنظیموں کو ڈالر اور اسلحہ مہیا کرتی ہے۔ دونوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہیں۔ اوبامہ اور انکے مغربی حلیف یورپین حکمران قذافی پر قتل و غارت اور عوام پر دہشت تھوپنے کا الزامات لگا رہے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ حکومت مخالف نیشنل کانگرس اور نیشنل فرنٹ فار دی لیبریشن آف لیبین کے عسکریت پسند جنکی شہرتcia کے زر خرید غلاموں کے القابات تک محیط ہے کے دہشت گرد ہنگاموں اور خون ریزی کو مہمیز دے رہے ہیں۔ مغرب کا الیکٹرانک میڈیا نیٹ ورک قذافی کے حمایتوں اور نیوٹرل طبقات میں مسلسل بے چینی اور کنفیوژن پیدا کرنے کے لئے مختلف افواہوں کو ہوا دے رہا ہے تاکہ حکومتی کیمپ عوامی صفوں میں مایوسی پھیلائی جائے۔ مغربی چینلز نے چند روز قبل بریکنگ نیوز ریلیز کی کہ قذافی تریپولی سے فرار ہوگئے مگر وہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں موجود تھے اور تریپولی میں آبادی کا 70 فیصد گلیوں اور بازاروں میں قذافی کے حق میں نعرے لگا رہا تھا۔ مغربی میڈیا اور گورے حکمران قذافی کی مخاصمت میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ایک طرف حکومتی اعلانات کی رپورٹنگ کو ناممکن بنا دیا گیا تو دوسری طرف مغرب عالمی قوانین کا جنازہ نکال کر قذافی کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر پھینکنے کے لئے چیچ تاب کھا رہا ہے۔۔ قذافی نے والدین سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو پر تشدد جلوسوں اور سیاسی ہڑبونگ سے دور رکھیں تاکہ وہ کسی دہشت گردانہ شرپسندی سے محفوظ و مامون رہیں مگر آزادی اظہار کے بودے نعرے ہانکنے والے صہیونی میڈیا نے اس اہم ترین اعلان کو سنسر کردیا۔۔ لیبیا کی حکومتی ویب سائٹسJANA آف لائن ہوچکی ہے تاکہ لیبیا کی نوجوان نسل حقائق تک رسائی نہ حاصل کرسکے۔ یہ سائبر کرائم جرم ہے اور پوری دنیا جانتی ہے کہ ایسے کرائمزcia کا خاصہ ہیں۔لیبیائی قانون کی رو سے ریاست کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے والے ملزمان کو سزائے موت دی جاتی ہے۔قذافی کے اس انتباہ کا تمسخر اڑایا گیا۔ مندرجہ بالہ متن لیبیا کے مستقبل کے متعلق کوئی بصیرت نہیں دیتا۔اس وقت لیبیا میں جو لڑائی لڑی جارہی ہے وہ ایک پنڈولیم کی طرح ہے جسکا اونٹ کسی کروٹ بھی بیٹھ سکتا ہے۔ میڈیا میں مسلسل یہ شوشہ آرائی جاری ہے کہ قذافی کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے مگر لیبیا کے اندرونی حلقے حکومتی کنٹرول کی خبریں نشر کر رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنی ایجنسیوں اور مقامی غداروں کے توسط سے لیبیا ایسے پر امن ملک اور خوشحال خطے میں خوانخوار تحریک کو پروان چڑھایا۔ امریکہ سمیت کسی یورپی ملک کو uno کے چارٹر کی رو سے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لیبیا پر جارحیت مسلط کر دے۔ قذافی کو جانا چاہیے یا وہ تخت نشین رہیں اسکا حق لیبیائی قوم کو حاصل ہے۔ امت مسلمہ اور عرب لیگ کو یکسو ہوکر لیبیا کا تنازعہ سلجھانا ہوگا ورنہ وہ وقت دور نہیں جب لیبیا سمیت پورے عالم عرب کا تیل یہود و ہنود کے پنجہ استبداد میں چلا جائیگا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140790 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.