بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ماہرین دن بدن امریکہ اورایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو خطے کے لیے
ایک بڑے بحران سے تشبیہ دے رہے ہیں ۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو شکست سے
دوچار کرنے کے لیے میزائلوں سے بھی تیز طعن و طنز کے تیر برسانے کے ساتھ
اپنے اپنے اسلحے کی نمائش بھی کی جارہی ہے ۔ اگر ایک جانب ایرانی اپنے لوکل
ساختہ میزائلوں کی بڑھ چڑھ کر افادیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو ایک
میزائل سے مہندم کرنے کی بھڑکیں مار رہے ہیں۔ تو دوسری جانب ان دھمکیوں کی
آڑ میں صلیبی فورسز نے بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت عرب پانیوں میں پہنچنے میں
دیر نہیں لگائی۔ اور ایساتا ٔثر دیا جارہا ہے کہ کسی وقت بھی تیسری عالمی
جنگ چھڑنے کا بغل بج سکتا ہے ۔کیا حقیقتاََ میں واقعی ہی ایسا ہے یا پھر یہ
سب کچھ کسی گریٹ گیم کا حصہ ہے؟
اس تمام scenario کی حقیقت جاننے کے لیے انتالیس سال پیچھے جانا پڑے گا ۔
جب نومبر 1979 کو ایرانی انقلاب سے تعلق رکھنے والے طلبا کے ایک گروپ نے
تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر کے 52 سفارتکاروں کو یرغمال بنا
لیاتھا ۔ اس دوران امریکی فورسز نے کمانڈو ایکشن کے ذریعے ان یرغمالیوں کو
رہا کرانے کی کوشش کی، جو بری طرح ناکام ہوئی ، اس کمانڈو ایکشن کے دوران
امریکہ کے دو ہیلی کاپٹر تباہ ہونے سمیت 8فوجی بھی ہلاک ہو گئے ۔تمام تر
مخدوش حالات کے باوجود بالآخر مذاکراتی کوششوں کے ذریعے ان سفارت کاروں کو
تقریباََ پندرہ ماہ بعد رہائی ملی ۔اپریل 1983کو ایرانی حکومت کے حکم پر
حزب اﷲ نے بیروت میں امریکہ کے سفارت خانے میں بم دھماکہ کر کے 63افراد کو
ہلاک کر دیا ۔اسی طرح اکتوبر 1983میں ہی بیروت میں امریکی نیول فورس پر
حملہ کر کے241 امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ 100کو زخمی کر
دیاگیا جن میں ایک بڑی تعداد سویلین کی بھی تھی ۔ اتنی بڑی ہلاکتوں کے
باجودنہ زمین پھٹی نہ ہی آسمان گراکے مصداق اور نہ ہی امریکہ ایران آپس میں
دست وگریبان ہوئے ۔
1985 میں بیروت میں بنائے گئے امریکی یرغمالیوں کی وجہ سے جب امریکہ ایران
کشیدگی اپنے عروج پر تھی ، تب امریکہ نے ایرانی رجیم کو امریکی ٹینک شکن
میزائلوں ، فائٹر طیاروں F14کے سپیئر پارٹس اور دیگر جنگی سازو سامان کی
بڑی کھیپ خفیہ طور پر برآمد کی ۔ خبر لیک ہونے پر اس کو ’’کونٹرا اسکینڈل
‘‘ کا نام دیا گیا ۔ جس سے دونوں ملکوں کی خاصی بدنامی ہوئی ۔ 1988میں
امریکی نیوی نے دو ایرانی آئل فیلڈ مکمل تباہ کرنے سمیت چھ ایرانی جنگی
کشتیوں کو بھی ڈبو دیا ۔ اور پھر اس کے کچھ ماہ بعد امریکی بحری جنگی جہاز
uss vincennesنے ایران کا ایک مسافر طیارہ ( بقول امریکیوں کے غلطی سے )
مار گرایا ، جس سے طیارے میں سوار 290افراد ہلاک ہو گئے ۔ جنگ کے دھانے پر
پہنچنے کے باوجود دنوں ممالک جنگ نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے ۔لیکن
الفاظی جنگ میں شدت اختیارکرتے ہوئے امریکی انتظامیہ نے ایران کو’’ Axis of
Evil برائی کے محور‘‘ کا خطاب دیا تو دوسری جانب ایرانی رجیم نے بھی امریکہ
کے خلاف ’’ مرگ بر امریکہ ‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا ۔باقی رہا مسئلہ تیل پر
پابندیوں کا، ایرانی تیل پر پابندیاں کوئی پہلی بار نہیں لگیں جس پر اتنا
اودھم مچا یا جارہاہے ، پابندیوں کا یہ سلسلہ تو اسی کی دہائی سے جاری ہے ۔
مندرجہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام تر کشیدگی، سخت تناؤ ، دھمکیوں
،بار بار معاشی پابندیوں اور سینکڑوں فوجیوں و سویلین کی ہلاکتوں کے باوجود
دونوں ملکوں میں جنگ کی نوبت نہیں آئی ۔لیکن حیرت کا مقام ہے کہ اس دوران
ایرانی رجیم آٹھ سال تک عراق کے ساتھ جنگ میں نبرد آزما رہی ،جس کے نتیجے
میں دونوں جانب سے تقریباََ 10لاکھ سے زائد مسلمان مارے گئے ۔سعودی عرب کو
ہدف تنقید بنانے والوں کو تعصب سے بالاتر ہو کر سوچنا پڑے گا کہ ایرانی
رجیم کے توسیع پسندانہ عزائم نے جہاں ایک جانب سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک
کو امریکہ کی جانب راغب کیا تو دوسری جانب ان عزائم کی بدولت امت مسلمہ بھی
فکری طور پر تقسیم ہوئی ۔
اس کا صاف مطلب کہانی کچھ اور ہے ۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اس خوفناک منصوبے کے
خفیہ ہاتھوں نے اس سارے کھیل کی آڑ میں اسلام آباد اور الریاض کو عدم
استحکام کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔ کچھ زمینی حقائق بھی اسی طرف اشارہ
کر رہے ہیں جن کو ایک ذہین و فطین عسکری تجزیہ کار کسی صورت نظر انداز نہیں
کر سکتا ۔ خاص کر ان چند ہفتوں کے دوران مملکت اسلامیہ پاکستان پرجنوب
مغربی سرحدوں کی جانب سے آئے روز سیکورٹی اہلکاروں پر دہشت گردانہ حملوں
سمیت سعوی آئل تنصیبات پر حملے اور مکہ معظمہ پر مجرمانہ میزائل حملہ کسی
خاص سمت کی طرف اشارہ کر رہاہے ۔ اسلام آباد اور الحرمین شریفین کو عدم
استحکام کرنے والے خفیہ ہاتھوں کو یہ نوشتہ دیوار بھی پڑھ لینا چاہیے کہ
اگر ان کو عدم استحکام کرنے کی کوشش کی گئی تو دہلی سے لیکر تہران اور تل
ابیب سے لیکر واشنگٹن تک سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے گا ۔ بین الاقوامی
ماہرین کے مطابق امریکہ ایران جنگ ہونے کی صورت میں ایران میں ولایت فقیہ
نظام کے منہدم ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا جو نہ تو روس کو قبول ہو گا
اور نہ ہی امریکہ کو ۔ لہذا قرین قیاس یہی نظر آرہا ہے کہ فوجی مشقوں کے
بہانے آبنائے ہرمز کو چند دن بند کر کے یا پھر ہلکا پھلکا سرجیکل اسٹرائیک
کر کے اپنا شوق پورا کر لیا جائے گا۔کیونکہ ایرانی روحانی پیشوا آیت اﷲ علی
خامنہ ای اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ’’ امریکہ سے جنگ نہیں ہو گی‘‘
۔ تو دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکی پالیسی کے
خدوخال واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا
ہے ‘‘ ۔رہی سہی کسر ایرانی پارلیمنٹ کے رکن اور ایوان میں قومی سلامتی اور
خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین حشمت اﷲ فلاحت بیشہ نے یہ کہہ کر پوری کر دی
ہے کہ ’’ ایران امریکہ کے ساتھ کسی بھی حال میں جنگ نہیں کرے گا اور نہ ہی
امریکہ کے ساتھ پراکسی وار لڑے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اس تمام تر ہذیانی صورت
حال کا نشانہ کون ہے ؟
23 May 2019
|