ہر منتخب نمائندے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے حلقے کے
عوام کیلیئے کچھ نہ کچھ کرے کیوں کہ وہ حلقے کے عوام کے ووٹ کے زریعے ہی
منتخب ہوا ہوتا ہے اور وہ ہر لحاظ سے عوام حلقہ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے
حلقہ کے عام اس کو اس لیئے منتخب کرتے ہیں کہ ان کا نمائندہ ان کیلیئے کسی
کام آ سکے کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ کوئی بھی ایم این اے یا ایم پی اے
منتخب ہونے کے بعد کوئی بھی کام نہیں کرتے ہیں تو یہ اس کی اپنی سوط ہوتی
ہے ہر منتخب نمائندہ اپنے تئیں بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی
کوشش ہوتی ہے کہ عوام کی توقعات سے بڑھ کر کچھ کر سکے ہاں البتہ یہ الگ بات
ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو پاتا ہے کہ نہیں جس گورنمنٹ یا سیاسی
جماعت کے ساتھ وہ وابستہ ہے کیا اس کی پالیسیاں عوام مسائل کا حل کرنا ہیں
یا کہ نہیں ہیں اگر حکومتی پالیسیاں عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہیں تو
ایم این اے ،ا یم پی اے اپنی عزت برقرار رکھ سکتے ہیں بصورت دیگر وہ اپنے
عوام کی نظروں میں بلکل غیر اہم ہو کر رہ جاتے ہیں اور وہ ایک نا کردہ جرم
کے مجرم بن جاتے ہیں اس طرح جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایم این اے حلقہ این
اے 57 صداقت علی عباسی اور ایم پی اے حلقہ پی پی 7 راجہ صغیر احمد کوئی کام
نہیں کر رہے ہیں تو میرے خیال میں اس کو تعصب پر مبنی سوچ ہی کہا جا سکتا
ہے تعصب کے پردے اٹھا کر اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں نمائندے اپنی ہمت کے
مطابق بہت دوڑ دھوپ کر رہے ہیں اور اپنے حلقہ کے عوام کیلیئے بہت کچھ کرنا
چاہ رہے ہیں لیکن وہ بیچارے کریں کیا ان کی حکومت ان کو ایک پھوٹی کوڑی تک
نہیں دے رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی عوام مسائل حل کرنے کی پالیسیاں نظر آ رہی
ہیں صداقت علی عباسی اور راجہ صغیر احمد کی طرح پی ٹی آئی کے ہر ایم این اے
اور ایم پی اے اپنی اپنی جہگہ بے بسی کی تصور بنے بیٹھے ہیں اور عوام سے
منہ چھپاتے پھر رہے ہیں جب ان کی حکومت ان کو کچھ دے ہی نہیں رہی ہے تو وہ
اپنے حلقہ کے عوام کو کیا دیں ان کا قصور تو تب ہی بنتا ہے جب حکومت ان کو
کچھ دے رہی ہو اور وہ آگے عوام کو کچھ بھی نہ دیں دوسری طرف وہ عوام جنہوں
نے اپنے ووٹ دے کر ان کو منتخب کیا ہے وہ اپنے نمائندوں کی مجبوری سمجھے
بغیر ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ہمارے کام ہونے چاہئیں چاہے
حکومت ان کو کچھ دے یا نہ دے تو ایسی صورتحال میں وہ کیا کریں گئے کیا ان
کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس تمام تر صورتحال کی وجہ سے ان کے حلقے کی
عوام کی نظروں میں ان کی قدر و قیمت کم ہوتی جا رہی ہے ضرور علم ہے لیکن وہ
اپنی حکومت کی پالیسیوں کے سامنے بلکل بے بس ہیں اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ
سے لب کشائی بھی نہیں کر پا رہے ہیں جس وجہ سے عوام اور منتخب نمائندوں میں
ایک انجانا سا خلاء پیدا ہوتا جا رہا ہے جس کو کور کرنا صرف حکومت کے ہاتھ
میں ہے ایم این اے یا ایم پی اے محض زبانی جمع خرچ سے اس خلاء کو پر نہیں
کر سکتے ہیں اس کیلیئے ان کی حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کیلیئے کچھ
کرنا ہو گا کیا یہ بات قابل غور نہیں ہے کہ ایک منتخب ایم این اے صداقت علی
عباسی اپنے انتخابی حلقہ کے کے عوام پر مشتمعل وفود کبھی وزیر توانائی کے
پاس لے کر جاتے ہیں کہ شاید وہ اپنے حلقہ کے عوام کیلیئے بجلی کے حوالے سے
درپیش مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جائیں کبھی وہ اپنے حلقہ کے
نوجوانوں کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجواناں کے پاس لے کر
جاتے ہیں کہ شاید ان کے حلقے کے نوجوانوں کیلیئے روزگار کے حوالے سے کوئی
حل نکال سکیں کبھی وہ وزیر صحت پنجاب کی منتیں کر کے انہیں اپنے حلقے میں
موجود سرکاری ہسپتالوں کے دورے کرواتے ہیں تا کہ ان کی حلقہ کے غریب عوام
کو صحت کے حوالے بہتر سہولیات میسر آ سکیں ان سب باتوں کے پیچھے ان کا صرف
ایک ہی مقصد کا ر فرما ہے کہ خود ان کے پاس تو ایسے اختیارات تو نہیں ہیں
جن کو استمعال میں لا کر وہ اپنے حلقہ کے عوام کو مطمئن کر سکیں شاید کسی
اور کے پاس جا کر وہ کوئی کام نکلوا سکیں ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر کون
یہ اندازہ نہیں لگا سکتا ہے کہ ان کے ایم این اے ان کیلیئے بہت زیادہ دوڑ
دھوپ کر رہے ہیں ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ وہ عوام کیلیئے کہیں سے بھی کوئی
کام کروا سکیں کیا صداقت علی عباسی کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ خود ایک جیتے
ہوئے ایم این ہو کر بھی دوسروں کے پاس اپنے کاموں کیلیئے کیوں جا رہے ہیں
ان کو اس بات کا بخوبی علم ہے لیکن وہ صرف اس لیئے ایسا کرنے پر مجبور ہو
چکے ہیں کہ ان کی یہی کوشش ہے کہ شاید کہیں سے بھی کوئی ایسا حل نکل آئے جس
سے ان کے حلقہ کے عوام کے مسائل میں کمی ممکن ہو سکے صداقت علی عباسی کی
کاوشیں یقینا قابل تعریف ہیں جو کچھ ان کے بس میں ہے اتنا وہ بخوبی کر رہے
ہیں اور اپنے حلقہ کے عوام کو ریلیف دینے کیلیئے وہ تمام دروازے کھٹکھٹا
رہے ہیں تو اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ
کوئی کام نہیں کررہے ہیں اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح
صداقت علی عباسی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں وہ ضرور کامیاب ہو جائیں
گئے دوسری طرف ایم پی اے حلقہ پی پی 7 راجہ صغیر احمد کی بات کی جائے تو وہ
ہر وقت اپنے آپ کو متحرک رکھے ہوئے ہیں اپنے عوام کے دکھ درد میں شریک ہو
رہے ہیں بہت سی جہگوں پر ایسی مثالیں موجود ہیں کہ چھوٹے موٹے کام انہوں نے
خود اپنے وسائل سے بھی کروائے ہیں اور آئندہ کیلیئے بھی بہت کچھ کرنے کی
خواہش رکھتے ہیں لیکن فی الحال ان کیلیئے بھی حکومتی پالیسیاں آ ڑے آئی
ہوئی ہیں جس وجہ سے وہ ایسا سب کچھ نہیں کر پا رہے ہیں جتنا کچھ وہ کرنا
چاہتے ہیں کام کرنے کا جذبہ تو ہر کسی کے دل میں ہوتا ہے اور خاص کر عوامی
نمائندوں کو تو منتخب ہی صرف اسی لیئے کیا جاتا ہے لیکن اگر کہیں کوئی ایسا
پلیٹ فارم ہی موجود نہ ہو جس کے زریعے عوام کو کوئی ریلیف دلایا جا سکے تو
اس میں کسی ایم این اے یا ایم پی اے کا کوئی قصور تصور نہ کیا جائے بلکہ سب
قصور اس حکومت کا ہے جو اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی بدنامی کا باعث
بن رہی ہے اگر حکومت نے اپنی پالیسیاں نہ بدلیں تو منتخب نمائندے منہ
چھپاتے پھریں گئے ان کے پاس اپنے عوام کو چہرہ دکھانے کیلیئے بھی کوئی جواز
نہ ہو گا حکومت کو چاہیئے کہ وہ عوامی نمائندوں کو عوام کی فلاح و بہبود
کیلیئے ترقیاتی فنڈز جاری کرے تا کہ اس کے منتخب نمائندے کسی کو منہ دکھانے
کے قابل رہیں بصورت دیگر آہستہ آہستہ وہ عوام کی طرف سے ملنے والا مقام کھو
بیٹھیں گئے -
|